"IGC" (space) message & send to 7575

برہان وانی کی شہادت اور کشمیر

عراق سے لے کر بنگلہ دیش تک خود کش حملوں اور ہلاکتوں کی وجہ سے عالم اسلام کے لئے اس سال کا رمضان رحمتوں کے ساتھ ساتھ اضطراب کا بھی مہینہ رہا۔ اور تو اور اس منحوس خبر نے مسلمانوں کو غم وغصے اور صدمے سے مبہوت کر دیا کہ حرم مدینہ میں ایک قابل صد مذمت دہشت گرانہ حملہ ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ اب حرمین شریفین تک، مسلمانوںکے خلاف مکروہ عزائم رکھنے والے عناصرکی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں رہے۔ اس دلخراش واقعے پر مسلمانانِ عالم بجا طور پر تشویش کے سمندر میں غوطہ زن تھے کہ کشمیر سے خبر آئی معروف عسکری کمانڈر برہان وانی اپنے تین ساتھیوں سمیت جنوبی کشمیر کے ککر ناگ علاقہ میں شہید ہوگئے ہیں۔ ان کی شہادت پر وادی کشمیر اور جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں میں تشدد پھوٹ پڑا، جس میں اب تک دو درجن سے زائد نوجوان جاں بحق اور سینکڑوں افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ سطریں لکھنے تک سری نگر اور جنوبی کشمیر میں میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ حالات اتنے مخدوش ہیں کہ اتوارکی شب صوبائی کابینہ کی میٹنگ کے بعد حکومتی ترجمان نے پریس کے سامنے ایک بیان پڑھ کر حریت راہنمائوں سے اپیل کی کہ وہ حالات کوکنٹرول کرنے میں مدد کریں۔گویا یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ زمینی سطح پر حکومت کا کوئی وجود نہیں، صرف حریت لیڈروںکو ہی عوام تک رسائی حاصل ہے۔ 
اکیس سالہ برہان وانی ترال کے شریف آباد گائوںکا رہنے والا تھا اور اس کے سر پر انتظامیہ نے دس لاکھ روپے کا انعام رکھا ہوا تھا۔ 2010ء کی گرمیوں میں جب کشمیر کی سڑکیں نوجوانوںکے خون سے لالہ زار ہو رہی تھیں، تو دسویں جماعت کے امتحانات میں شامل ہونے سے کچھ ماہ قبل وہ گھر سے فرار ہوا اور حزب المجاہدین میں شامل ہو گیا۔ برہان کشمیر میں عسکریت کو نئی جہت دینے والا سمجھا جاتا رہا۔ اس نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر پہلی بارکشمیر کی تحریکِ مزاحمت کو نیا رخ دیا۔ اس کے ویڈیوزسوشل میڈیا پر آنے لگے، جن میں وہ نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دیتا رہا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اس کی اپیل پر جنوبی کشمیر میں سینکڑوں نوجوان اس کی صف میں شامل ہوگئے اور اچانک ملی ٹینسی(عسکریت) شدت اختیار کرگئی۔ برہان کے والد مظفر احمد وانی مقامی ہائر سیکنڈری سکول میں پرنسل ہیں۔ پچھلے سال برہان کے بڑے بھائی خالد مظفر کو کملہ جنگل میں فوج نے ہلاک کر دیا تھا۔ خالد مظفر پوسٹ گریجوایشن کا طالب علم تھا۔ برہا ن کی ہلاکت کی خبر سننے کے فوراً بعدکرفیو کے باوجود ہر علاقے سے لوگ برہان کے گھر کی طرف مارچ کرنے لگے۔ نماز جنازہ چار بارادا کی گئی جبکہ ان کے آخری سفر میںتقریباً 6 لاکھ افراد نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ متعدد مقامات پر نوجوان کمانڈرکی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، جس میں لوگوں کا اژدہام دیکھنے کو ملا۔ وادی کے کونے کونے سے راتوں رات ہی نوجوانوں اور دوسرے لوگوں نے برہان وانی کا آخری دیدار کرنے کے لئے رخت سفر باندھا اور جوق در جوق ترال کی طرف روانہ ہوگئے۔ مقامی اخبارات کے مطابق دور دراز علاقوں مثلاً کپواڑہ اور بانہال تک سے لوگ برہان وانی کے جاں بحق ہونے کی خبر سننے کے بعد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر ترال پہنچنے کی کوشش کرتے رہے جبکہ ترال کی مساجد میں رات بھر ترانوں کی گونج سنائی دیتی رہی۔ وادی کے دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگوں نے بھی ترال کی مساجد میں پناہ لی۔ انجمن شرعی شیعان کی طرف سے بڈگام اور سمبل سونہ وادی میں غائبانہ نمازہ جنازہ کا اہتمام کیا گیا۔
بتایا گیا ہے کہ جمعہ کی سہ پہر برہان اور اس کے دو ساتھی ککر ناگ سے متصل ایک گائوں بمڈورکی مقامی مسجد میں نماز عصر ادا کرنے کے بعد جونہی باہر نکلے، فوج اور پولیس نے ان کو محاصرے میں لے لیا، جس پر مقامی لوگوں اور فورسز کے مابین تصادم شروع ہوگیا اور رفتہ رفتہ اس نے شدت اختیار کر لی۔ اس دوران فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا، لوگوں نے پتھرائو کیا اور فورسز نے لوگوںکو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا بے تحاشا استعمال کیا۔ فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں سب سے پہلے سرتاج احمد جاں بحق ہوا جس کے بعد جھڑپ مزید شدید ہوگئی۔گائوں میں ہر طرف فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔اس دوران برہان اور اس کا ایک اور ساتھی بھی جاں بحق ہوگئے۔ 
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ شب قدرکو ہی انہوں نے برہان کو اس کے گھر ترال کے آس پاس ٹریس کیا تھا۔ اس نے عید بھی اسی علاقے میں منائی مگر مقامی آبادی کی مزاحمت کے خوف سے آپریشن نہیں کیا گیا، اس لئے کہ آج کل فوجی آپریشنوں کے دوران عوام مزاحمت کرنے کے لئے امڈ پڑتے اور فوجی دستوں پر سنگ باری شروع کر دیتے ہیں۔ لہٰذا فوج نے انتظار کیا کہ برہان وانی کسی کم آبادی والے علاقے کا رخ کرے۔ اگر دہلی کے ذرائع کا یقین کریں تو وانی اور اس کے ساتھی ککر ناگ کے علاقہ میں ہتھیاروںکی کھیپ وصول کرنے کے لئے جارہے تھے، جو در اصل ایک ٹریپ تھا۔
نوعمر برہان کی عسکری کارروائیوں میں شمولیت اور اس کی ہلاکت پر عوامی رد عمل سے ظاہر ہے کہ کشمیر میں جو لاوا پک رہا ہے وہ کسی بھی وقت جنوبی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ یہ صرف 200 عسکریت پسند بمقابلہ پانچ لاکھ فوج والا معاملہ نہیں بلکہ بقول بھارتی حکومت کے ایک سابق مذاکرات کار ایم ایم انصاری،کشمیر کے کم و بیش 60 لاکھ نوجوان اپنے آپ کو بے دست و پا اور بے وزن محسوس کر رہے ہیں اور انتہائی مایوسی کا شکار ہیں۔ دو سال قبل دہلی میں ہندو قوم پرست حکومت کے اقتدار میں آتے ہی وزیر اعظم مودی نے کشمیر سے متعلق جو پالیسی بنائی، اس کے مطابق سکیورٹی ذرائع کو استعمال کرکے شورش کو دبانے اور اقتصادی ترقی سے عوام کو لبھا کر مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ سیاسی عمل یا کشمیر میں حریت لیڈروں کے ساتھ ٹریک ٹو ذرائع کی بحالی فی الحال مودی کی لغت میں نہیں ہے؛ اگرچہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی ان کی توجہ اس سمت میں بار بار مبذول کرانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 
حالات اس حد تک خراب ہو گئے ہیںکہ نہ صرف سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ بلکہ سری نگر آرمی کورکے سابق سربراہ جنرل عطا حسنین یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیںکہ مردہ برہان زندہ برہان سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ 
افضل گورو کی پھانسی اوراب برہان وانی کی ہلاکت نے کو کشمیرکو ایک تاریخی موڑ پر لا کھڑاکیا ہے۔1987ء کی انتخابی دھاندلیوںکے بعد شاید یہ پہلا واقعہ ہے جس نے کشمیرکی عمومی نفسیات کو جھنجھوڑکر رکھ دیا ہے۔ بھارتی حکومت نے تو خود ہی اعتدال پسندی اور انتہا پسندی کے درمیان حائل سرحدوںکو ختم کر کے اہل کشمیر تک یہ واضح پیغام پہنچا دیا ہے کہ اس کے نزدیک نہ کوئی سخت گیر ہے نہ کوئی اعتدال پسند؛ نہ کوئی کشمیری گاندھی ہے اور نہ ہی کوئی مین سٹریم، بلکہ وہ سارے کشمیریوںکو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ کشمیری سیاست میں بھی غالباً یہ پہلا موقع ہے جب مین سٹریم نیشنل کانفرنس، الحاق پاکستان کے حامی اور آزادی کشمیر کے متوالے غرض ہر مکتبہ فکر کے لوگ ایک سٹیج پر جمع ہیں۔ دوسری طرف کشمیری مزاحمتی حلقوں کو اب یہ بھی احساس ہوگیا ہے کہ صرف پاکستان پر اپنا سارا بوجھ ڈالنا کسی بھی لحاظ سے دانشمندی نہیں۔ شاید ان کو یہ احساس ہے کی پاکستان کی پہلی ترجیح اپنے وجود کو قائم رکھنا ہے۔ مگر سیاسی وفاداریوں سے بالا ترکشمیر میں یہ احساس قوی ہوتا جا رہا ہے کہ بھارت کی سیاسی قیادت کی لاتعلقی اور سول سوسائٹی کی خاموشی سے شہ پاکر برسر اقتدار چند مفاد پرست خصوصی عناصر کشمیریوں کے خلاف صف آرا ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان کی سیاسی قیادت کشمیری سیاست کے اس اہم موڑ پر کیا رویہ اختیار کرتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں