"IAS" (space) message & send to 7575

لڑائی لڑائی معاف کریں

میں کوئی نجومی ہوں نہ ہی میرا یہ دعویٰ ہے۔ اللہ پاک مجھے اس وصف سے محفوظ رکھے۔ تقریباً ڈیڑھ سال قبل میں نے اپنی تھوڑی بہت دانست کے مطابق تاریخی اور زمینی حقائق کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر اپنے پوڈ کاسٹ میں پاکستان اور بھارت کے مابین موجودہ جنگ کے حوالے سے ایک پیشگوئی کی تھی اور کہا تھا کہ 2025ء میں بھارتی انتہاپسند جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو قائم ہوئے سو سال مکمل ہو رہے ہیں۔ وہ بھارتی حکومت سے کوئی ایڈونچر کروا کر اپنی گولڈن جوبلی منائیں گے‘ اس لیے 2025ء میں پاکستان بھارت جنگ کا قوی امکان ہے‘ اور یہ جنگ ہو کر رہی۔ میرا یہ پوڈ کاسٹ آج کل سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں آر ایس ایس کے لوگ پرلے درجے کے شدت پسند ہیں۔ یہ بھارت کیلئے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے ہاں بھی کچھ شدت پسند اور انتہا پسند لوگ ہیں۔ یہ خون آشام جماعت بلکہ گروہ سو سال سے ہندوستان کے مسلمانوں کا خون پی رہی ہے اور آج تک اس کی پیاس نہیں بجھ سکی۔ یہی لوگ پاکستان میں ہونے والی تخریب کاری اور دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ اس گروہ کے وجود سے برصغیر کے امن کو خطرات ہی خطرات ہیں۔
راقم نے اپنے پوڈ کاسٹ کی ابتدا میں تین بار یہ کہا تھا کہ اللہ نہ کرے‘ اللہ نہ کرے‘ اللہ نہ کرے پاک بھارت جنگ ہو‘ کیونکہ جنگ میری کبھی خواہش اور دعا نہیں رہی۔ میری یہی دعا ہے کہ اللہ کرے جنگ کبھی نہ ہو کیونکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ جنگ تو خود تباہی اورکئی قسم کے مسائل مثلاً غربت‘ مہنگائی اور جرائم کو جنم دیتی ہے۔ سب سے دردناک بات یہ ہوتی ہے کہ ماں باپ کو اپنے بچوں کے جنازے اٹھانا پڑتے ہیں۔ جنگوں کے قصے تو بہت اچھے لگتے ہیں لیکن کبھی اُن سے پوچھیں جو اپنے پیاروں کو کھو دیتے ہیں۔ کیونکہ جنگ جنگ ہوتی ہے‘ یہ کوئی مذاق یا بچوں کا کھیل نہیں۔ جنگ ہرگز کوئی آسان چیز نہیں بلکہ ایک بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے۔ جنگ دکھ اور تباہی لاتی ہے۔ اس لیے میں نے اربابِ بست وکشاد سے دست بستہ گزارش کی تھی جنگ نہ ہی ہو تو بہتر ہے کیونکہ دونوں ہمسایہ ممالک میں گوڈے گوڈے غربت اور جہالت ہے جبکہ مہنگائی بال کھولے گلی کوچوں میں بے ہودگی سے محو رقص ہے۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہیں‘ کروڑوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور دونوں ممالک کے حکمران مسلسل یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اس صورتحال کی ترجمانی میرے دوست شاعر رحمان فارس نے ان الفاظ میں کی ہے:
بہت سے کام رہتے ہیں‘ تمہارے بھی ہمارے بھی
کروڑوں لوگ بھوکے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
کھلونوں والی عمروں میں انہیں ہم موت کیوں بانٹیں؟
بڑے معصوم بچے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
جیسا کہ میں نے کہا‘ جنگ سے ہمیشہ بچنا چاہیے‘ جنگ کے بارے میں صحابہ کرامؓ نے سوال کیا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اگر جنگ سے بچنا چاہتے ہو تو جنگ کی تیاری کرو۔ یہ بیلنس آف پاور ہی ہوتا ہے جو آپ کو جنگ سے بچا کر رکھتا ہے۔ یہ چین اور امریکہ کیوں جنگ نہیں کر رہے؟ صرف بیلنس آف پاور کی وجہ سے۔ انڈیا پاکستان پر حملہ کیوں نہیں کر رہا تھا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی ایٹم بم ہے۔ پتا نہیں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیوں اپنی پٹاری کھول کر ان کے سامنے رکھ دی کہ اب ہم لڑنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ اب آپ کہیں گے کہ ہم لڑنے کے قابل نہیں تو ایٹم بم تو چلا سکتے ہیں۔ نہیں بھائی! یہ کوئی آسان کام نہیں۔ بات یہ ہے کہ بیلنس آف پاور جب ختم ہو جاتا ہے تو اس سے بڑا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بھارت کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی‘ ان کا چاند پر اترنا‘ بھارت کے پاس ایک بہت بڑی مڈل کلاس ہے‘ ان کی حکومت نے لوگوں کو کسی حد تک ترقی بھی دی‘ کسان کو ترقی دی‘ فوج کو ترقی دی اور اپنے آپ کو مضبوط کیا۔ کشمیر کے اوپر دھونس دھاندلی سے قبضہ کیا‘ اس کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کم از کم 100 بلین ڈالرز سے زائد کے پروجیکٹس شروع کرنے جا رہے تھے۔ ان ساری چیزوں کی وجہ سے دنیا بالخصوص امریکہ اور یورپ ان کی بات سننے پہ مجبور ہیں۔ اس کے بعد جب انہوں نے کینیڈا میں سکھ رہنما کو قتل کیا تو بھارت نے جو زبان استعمال کی وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم ہی نہیں کی۔ مجھے اس سے بڑا خطرہ محسوس ہوا کہ یہ تو کسی فلمی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں ان کا ہیرو مودی ہے اور ولن پاکستان‘ لیکن ہیروئن کے بغیر فلم نہیں بن سکتی۔
یہ بات یاد رکھیں کہ بھارت ابھی اتنا تگڑا نہیں ہے جتنا وہ اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان میں دراندازی اور جارحیت کے بعد ہمارے جوابی وار سے اُس کی یہ خام خیالی بڑی حد تک دور ہو گئی ہے۔ ابھی ڈھائی سال نہیں گزرے کہ انہوں نے لداخ میں چین سے جوتے کھائے ہیں۔ وہ چین کے سامنے کبھی ٹھہر ہی نہیں پائے۔ اس سے پہلے بھی 1962ء میں جب وہ لداخ میں چین سے لڑے تھے تو چین نے بھارت کا پورے کا پورا بریگیڈ ہی قید کر لیا تھا اور بریگیڈ کمانڈر کو بھی پکڑ لیا تھا۔ بعد میں انہوں نے ان سب قیدیوں کو خود ہی چھوڑ دیا تھا۔ اسی لیے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ وہ ہمارے مقابلے میں اتنے تگڑے نہیں ہیں‘ مگر اپنے آپ کو ظاہر کر رہے تھے لیکن اب آپریشن بنیانٌ مرصوص نے ان کا یہ وہم بھی دور کر دیا ہے۔
مخصوص بین الاقوامی حالات کی وجہ سے بھارت کا دماغ بہت اوپر چلا گیا تھا بلکہ خراب ہو گیا تھا۔ جب اُس نے دیکھا کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر حملہ کر کے سب کچھ تہس نہس کر دیا ہے‘ جب اس نے دیکھا کہ امریکہ نے بہت سے ملکوں پر چڑھائی کی ہے تو انہوں نے سوچا کہ ہم کیوں پیچھے رہ جائیں‘ ہمیں بھی کچھ کرنا چاہیے تاکہ ہم بھی اس دوڑ میں شامل ہوں کہ ہم بھی سپر پاور ہیں۔ وہ اپنے آپ کو 'سپر پاور‘ دکھا رہے تھے‘ حالانکہ وہ درحقیقت ہیں نہیں۔ بھارت کی بین الاقوامی حیثیت کو دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ اس کو یہ حیثیت مخصوص حالات کی وجہ سے حاصل ہوئی کیونکہ چین اور امریکہ کے مابین سرد محاذ آرائی ہے۔ جی سیون کا مسئلہ ہے‘ روس یوکرین جنگ ہے۔ یہ مخصوص حالات ہیں جو بھارت کو اتنی بڑی اہمیت مل گئی۔ بھارت کو بین الاقوامی طاقتیں نظر انداز نہیں کر سکتی تھیں تو وہ بہت چوڑا ہو گیا تھا۔ یہ جو جی 20 کی کانفرنس بھارت نے کرائی تھی‘ اس کے بعد آپ کو پتا ہی ہے کہ وہ لوگ کس طرح کے تبصرے کر رہے تھے۔ یہ تبصرے بڑے خطرناک تھے۔ اس کے بعد آپ آ جائیں اس بات پر کہ یہ حیثیت جب کسی کو ملتی ہے تو وہ آپے سے باہر کیوں ہونے لگتا ہے۔ جب کوئی چھوٹا آدمی کسی بڑے آدمی کا دوست بنتا ہے تو وہ اپنے آپ میں پھولے نہیں سماتا اور پھٹنے لگتا ہے۔ وہ چھوٹا آدمی جب بڑے آدمی سے مل کر واپس آتا ہے تو محلے میں کسی نہ کسی کے ساتھ پنگا ضرور لیتا ہے۔ اور یہ بھارت کی بہت بڑی غلط فہمی تھی اور جنگوں کو ہمیشہ غلط فہمی ہی جنم دیتی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان سے پنگا لینے کے بعد ان کی یہ غلط فہمی یا خوش فہمی بڑی حد تک دور ہو گئی ہے۔ اس لیے میری دونوں ہمسایہ ممالک سے دست بستہ اپیل ہے کہ لڑائی لڑائی معاف کریں اور جہالت‘ غربت اور مہنگائی سے دودو ہاتھ کر کے اپنے غریب عوام سے انصاف کریں۔ یہی وقت کا اولین تقاضا ہے۔ بقول رحمان فارس:
پڑوسی یار! جانے دو‘ ہنسو اور مسکرانے دو
مسلسل اشک بہتے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی
چلو مل کر لڑیں ہم تم‘ جہالت اور غربت سے
بہت سپنے ادھورے ہیں تمہارے بھی ہمارے بھی

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں