"IAS" (space) message & send to 7575

جنگ سے بچنے کا بہترین طریقہ

ڈیوڈ بن گوریان اسرائیل کابانی اور پہلا وزیراعظم تھا۔ ایک روز وہ کچھ جلدی میں گھر سے جا رہا تھا کہ اُس کی بیٹی نے یاددہانی کروائی کہ آج دیوارِ گریہ پر سالانہ دعا کا دن ہے۔ بن گوریان نے جواب دیا کہ مجھے ریاستی امور سے متعلق کچھ اہم کام نمٹانے ضروری ہیں‘ اس لیے میں دفتر جا رہا ہوں۔ بیٹی نے کہا کہ سالانہ دعا سے اہم اور کیا کام ہو سکتا ہے؟ بن گوریان نے جواب دیا کہ تمام عرب اسرائیل کی تباہی اور بربادی کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن اسرائیل کاکچھ نہیں بگاڑ سکے‘ اس لیے میں ریاستی امور طے کرنے کو ترجیح دوں گا‘ اس کے بعد شام کو دعا میں شامل ہو سکتا ہوں۔
خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان 1926ء میں حج کرنے کے بعد فلسطین گئے۔ وہ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں کہ وہاں کے عرب مسلمانوں کے حالات دیکھ کر مجھے پتا چلا کہ پشتونوں کی طرح عربوں کو بھی ان کے نام نہاد علما نے امام مہدی کے انتظار میں بٹھایا ہے کہ وہ آئیں گے اور سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں بیت المقدس (یروشلم) میں گھومتا رہا ‘معلومات لیتا اور ہوٹلوں میں عربوں کے ساتھ فلسطین اور عربوں کے مستقبل پر گفتگو اور بحث کرتا رہا۔ ایک دن چند فلسطینیوں سے بحث ہو رہی تھی کہ میں نے کہا: دیکھو آپ لوگ بڑی غلطی کر رہے ہیں کہ جو یہودیوں کو اپنی زمینیں فروخت کرتے ہیں اور یہودی اس زمین کو آباد کر لیتے ہیں۔ یہ کام آپ لوگ خود کیوں نہیں کرتے؟ میں نے یہاں جو زمین آباد دیکھی ہے جہاں بنگلہ‘ باغیچہ اور پانی کا انتظام ہے پتا چلتا ہے کہ وہ زمین کسی یہودی کی ملکیت ہے اور جو زمین بنجرہے وہ مسلمان کی ہوتی ہے۔ یہودیوں نے فلسطین میں چھوٹے چھوٹے خوبصورت گاؤں بسائے اور بسا رہے ہیں اور آپ غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک فلسطینی عرب نے کہا کہ یہ صدی آخری صدی ہے‘ ہم اپنی زمینیں یہودیوں کو اس لیے فروخت کر رہے ہیں کہ اس کے بعد تو امام مہدی آئیں گے اور یہ ساری زمینیں دوبارہ ہم یہودیوں سے چھین لیں گے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے مذہبی رہنماؤں نے پشتونوں کی طرح عربوں کو بھی اس انتظار میں بٹھایا ہوا ہے۔ اب کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ فلسطین چلا جاؤں اور اُن عربوں سے پوچھوں کہ وہ چودہویں صدی تو ختم ہو گئی وہ زمینیں کس کی ہوئیں؟ یہودیوں کی یا پھر مسلمانوں کی؟
آج دو ارب کے قریب ہم بے عمل اور بے فکر مسلمان اس ایک کروڑ سے بھی کم آبادی والے ملک کے سامنے بے بس ہیں اور آہستہ آہستہ اس کی شرائط پر تعلقات استوار کرنے کی فکر میں ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا عرب یا مسلم ملک اس کو تسلیم کر رہا ہے اور دیگر بھی پر تول رہے ہیں۔ یہ کبوتر کی خام خیالی ہے کہ آنکھیں بند کر لینے سے بلی کو اس پر رحم آ جائے گا اور وہ اس کا شکار نہیں کرے گی۔ یاد رکھیں کہ کوئی انسان اپنی بزدلی کی وجہ سے موت سے نہیں بچ سکتا۔ اگر صرف دعاؤں اور التجاؤں سے مسائل حل ہونے ہوتے تو میرے نبی اکرمﷺ اور آپؐ کے اصحابؓ کو نہ غزوہ بدر کے لیے جانا پڑتا نہ احد کی جنگ میں تکلیف اٹھانا پڑتی۔ نہ جنگ کیلئے خندق کھودنا پڑتی اور باقی تمام جنگیں بھی نہ لڑنا پڑتیں۔ مگر صرف دعاؤں اور التجاؤں سے مسائل حل ہوتے ہیں نہ بلائیں ٹلتی ہیں۔ بزرگ سیاستدان نوبزادہ نصراللہ خان مرحوم نے ٹھیک کہا تھا:
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شبِ ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے
ہمارے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ جنگ سے بچنے کی دعا کرتے رہو۔ آپﷺ نے ہمیشہ جنگ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ صرف ناگزیر صورت میں جنگ کی اور پھر جب جنگ ناگزیر ٹھہری تو نعوذباللہ پیٹھ نہیں دکھائی‘ اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ آپ کا لشکر تعداد میں بہت کم ہے۔ جنگِ بدر کی روشن مثال تاریخِ اسلامی کے ماتھے کا جھومر بن کر ہمارے سامنے ہے۔ جب اللہ تعالی نے آپﷺ کے عمل اور مسلمانوں کے اخلاص کی فضا کو دیکھا تو آسمان سے فرشتے مدد کو بھیج دیے۔ 313 مجاہدین ایک ہزار کے لشکر سے ٹکرا گئے اور اسلام کا ہر دشمن اگلے دن وہاں ڈھیر ہوا پڑا تھا جہاں نبی کرمﷺ کو جبرائیل نے نقشہ بنا کر بتایا تھا۔ لیکن یہ معاملہ اللہ کے رسولوں کے ساتھ مخصوص ہے۔ مولانا ظفر علی خان نے تمثیلاً فرمایا تھا:
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
بے شک آج ہم مسلمان فضائے بدر پیدا نہیں کر سکتے کہ ہم میں رسول اکرمﷺ موجود نہیں ہیں اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی آیا ہے نہ آئے گا۔ عہد نبوت سے لے کرآج تک ہر مسلمان اس پر ایمان رکھتا آیا ہے اور قیامت تک قائم رہے گا کہ آنحضرتﷺ بلا کسی تاویل و تخصیص کے خاتم النبیین ہیں۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: دشمن کیلئے جو قوت تم سے بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو تیار رکھو تاکہ ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اللہ کے اور تمہارے دشمن ہیں۔ نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ سے فرمایا تھا کہ جنگ سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جنگ کیلئے اپنی تیاری رکھو۔ آپﷺکا یہ حکم ہم سب مسلمانوں کیلئے ہے۔ نبی کریمﷺ کا جب وصال ہوا تو آپﷺ کے ترکے میں حجرہ مبارک کی دیواروں پر لٹکی ہوئی پانچ یا سات تلواریں ہی تھیں۔ یعنی جنگ کی تیاری پوری تھی۔ آپﷺ اور آپﷺکے اصحابؓ ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کے منتظر نہیں تھے۔ علامہ اقبال نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے:
تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
اب دیکھنا یہ ہے کہ اسرائیل عربوں سے جنگ کیوں کر رہا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا رہا بلکہ مسلسل جنگ کی تیاری میں مصروف رہا۔ امریکی خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے 1938ء میں جوہری ہتھیار بنانا شروع کر دیے تھے۔ ابھی تک اسرائیل کا پروگرام انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے اور اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ اسرائیل نے کبھی کوئی ایٹمی دھماکا کیا ہو۔ اسرائیلی اٹامک انرجی کمیشن کی بنیاد 1952ء میں رکھی گئی اور اس نے اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر کام شروع کیا اور 1953ء میں فرانس کی معاونت سے نقب کے صحرا میں یورینیم کو افزودہ کرنے اور بھاری پانی بنانے کے کام میں مہارت حاصل کر لی۔ ایک رپورٹ کے مطابق فرانس اور اسرائیل کے مابین اس سلسلے میں 1950ء میں معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ 1960ء تک اسرائیل اس کو ٹیکسٹائل پلانٹ‘ زرعی سٹیشن اور تحقیقی ادارہ کہہ کر چھپاتا رہا۔ 1960ء میں پہلی مرتبہ اُس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم بن گوریان نے تسلیم کیا کہ یہ ایک ایٹمی پلانٹ ہے۔ اسرائیل کے پروگرام کے بارے میں اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت اور پاکستان کا جوہری پروگرام نسبتاً کم عمر ہے لیکن اس کے باوجود ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بیس سے زیادہ ایٹم بم بنا چکے ہیں۔ یعنی ان کی تیاری مکمل ہے لیکن انہوں نے اعلان کرنا ضروری نہیں سمجھا۔
اسرائیل اور عربوں کے مابین 1948ء کے بعد مزید تین جنگیں 1956ء، 1967ء اور 1973ء میں ہوئیں مگر نتیجہ پہلے والا ہی رہا۔ عرب دنیا کو شکست‘ اسرائیل کا پھیلاؤ اور فلسطینیوں کا مزید بکھراؤہوا۔ 1973ء سے کر 2023ء تک اسرائیل نے کسی ہمسایہ ملک سے کو ئی باقاعدہ اور اتنی طویل جنگ نہیں کی‘ باوجودیکہ اس کی تیاری مکمل تھی۔ 7 اکتوبر 2023ء میں حماس کی جانب سے جنگ شروع کی گئی جس کی سزا معصوم فلسطینی عبرتناک جانی و مالی تباہی وبربادی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں