"IAS" (space) message & send to 7575

سیاست کا مقصد عبادت ہونا چاہیے

کسی بھی ملک کا نظام چلانے کیلئے ایک حکمت عملی تیار کی جاتی ہے‘ اسی حکمت عملی کا نام سیاست ہے۔ قوم کے روشن مستقبل کیلئے لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے ‘ اسی کا نام سیاست ہے۔ عوام کو بہتر سہولتیں فراہم کرنے کیلئے جو فیصلہ لیا جاتا ہے‘ اسی کا نام سیاست ہے اور جس سیاست سے انصاف کا ماحول قائم ہو‘ انسانیت کو فروغ حاصل ہو‘ دامن داغدار نہ ہو وہی سیاست عبادت ہے۔ عبادت بھلے سیاست میں تبدیل نہ ہو لیکن سیاست ضرور عبادت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
بلاشبہ سیاست ایک عبادت ہے جو عوامی خدمت کے ذریعے ہی ممکن ہے لیکن ہمارے ہاں عام طور پر کسی بھی طریقے سے امورِ مملکت چلانے کے عمل کو سیاست کہا جاتا ہے جبکہ سیاست تدبر‘ حکمت اور رہنمائی کے ذریعے عوامی خدمت کا نام ہے۔ ایک اچھا انسان ہی اچھا سیاستدان ہو سکتا ہے۔ اس لیے عوامی‘ ملکی اور قومی رہنما کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہونا چاہیے ورنہ یہ منافقت ہی خیال کی جائے گی۔ اسلام میں منافق کی تین نشانیاں بتائی گئی ہیں: جھوٹ بولنا‘ وعدہ خلافی کرنا اور امانت میں خیانت کرنا۔ ہمارے ہاں سیاست میں جھوٹ پر جھوٹ بولا گیا ہے اور بولا جا رہا ہے۔ عوام کے ساتھ مسلسل وعدہ خلافی کی گئی ہے اور کی جا رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ عوامی امانت میں خیانت کا عمل جاری وساری ہے۔ یہ سب کچھ دھڑلے سے ہو رہا ہے۔ ہماری رائج سیاست نے اصل سیاست کے منہ پر دو چار نہیں بلکہ سات قسم کی سیاہی مل دی ہے‘ اور اب یہ ''سیاہ ست‘‘ بن چکی ہے۔
کسی نے ٹھیک کہا تھا کہ کوئی شرم ہوتی ہے‘ کوئی حیا ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ ہماری سیاست ان دونوں اوصاف حمیدہ سے پاک اور صاف ہے۔ پاکستان میں سیاست اور سیاستدانوں کے معاملات شروع ہی سے ایسے ہیں۔ 70ء کی دہائی میں لکھی گئی نظر لکھنوی کی ایک نظم کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
ہوائے نفس کی ہے حکمرانی
لٹیرا کر رہا ہے پاسبانی
بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاستدانوں نے سیاست کو عوامی خدمت کے بجائے کاروبار بنا لیا ہے ‘ جس میں آدمی نے پیسے کمانا ہوتے ہیں حالانکہ یہ کاروبار نہیں۔ سیاست کو بطور عبادت لیا جائے تو ایک صاحبِ اقتدار انسان صبح سے شام تک یہ دیکھتا ہے کہ میں نے کسی کی کیا خدمت کی ہے‘ کیاکام کیا ہے‘ وہ صبح سے شام تک یہ حساب نہیں کرتا کہ میں نے کتنے پیسے کمائے ہیں۔ حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو سیاست مکمل طور پر عبادت ہے اور اس میں صرف لوگوں کی بھلائی کا کام کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے سارا دن بندہ یہ سوچتا ہے کہ میرا پورا دن کس کام میں‘ کس کی بھلائی میں گزرا ہے۔ لیکن ہماری سیاست کا اصل سیاست کے ساتھ دور دور کا تعلق بھی نہیں۔
پاکستان میں سیاست مقاصد اور مفادات کا کھیل ہے اور مقاصد ومفادات کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ہمارے ہاں کی سیاست کا عوام سے نہ کچھ لینا دینا ہے نہ ہی عوام کی کوئی بھلائی مقصود ہے۔ درحقیقت ''سیاسی سوچ‘‘ سب کی ایک جیسی ہے بس ''طریقہ کار‘‘ یا ''طریقہ واردات‘‘ مختلف ہے۔ اب یہ ملک سیاست اور سیاستدانوں کی تجربہ گاہ بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ملک کی بقا اور قوم کی خوشحالی مقصود ہے تو اس نظام کو تبدیل کرنا پڑے گا۔
پاکستان میں تو سیاسی پارٹیوں کے جو لیڈر ہیں ان میں سے کسی کو سیاست کی ابجد کا بھی علم نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست کو اداکاری‘ مفاد پرستی‘ خود غرضی اور حکومت کے حصول کیلئے ہر حد پار کر جانے کا دوسرا نام سمجھاجاتا ہے‘ اسی لیے پاکستان میں سیاستدانوں کا تذکرہ منفی انداز میں کیا جاتا ہے۔ بقول احمد علوی:
پی کر لہو عوام کا ہوتے ہیں سرخ رو
بے جان ساری قوم ہے‘ لیڈر میں جان ہے
جب میں سیاست کو عبادت قرار دیتا ہوں تو بہت سے لوگ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ میری نظر میں عبادت کو فقط مذہبی رسومات تک محدود نہیں کرنا چاہیے بلکہ کسی کو اچھی بات بتانا‘ کسی کی مدد کرنا‘ کسی کی پریشانی کا ازالہ کرنا بھی عبادت میں شامل ہے۔ میری نظر میں آج کا ہر انسان اگرکسی دوسرے کو تکلیف پہنچائے بغیر اچھے طریقے سے زندگی گزارے تو وہ عبادت ہی کر رہا ہے۔
آج کل کے طرزِ سیاست کو دیکھیں تو اب سیاست جو روپ دھار چکی اور کلچر متعارف کروا چکی ہے اس سے تو یہی سبق ملتا ہے کہ سیاست کے قریب بھی مت جانا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر سیاست کرنی ہے تو اس کا انداز اور اپنا چلن ٹھیک کریں تاکہ سیاست کو عبادت سے جوڑا جا سکے۔ ایک اچھا سیاستدان بننے کے لیے اچھا انسان بننا بھی ضروری ہے۔ ایک اچھے انسان کی پہچان اخلاقیات‘ ایمانداری اور وفاداری ہوا کرتی ہے۔ اعلیٰ اخلاق کا مالک بہت جلد اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے‘ اپنے پیشے سے مخلص رہنے والے بھی ہمیشہ کامیاب وکامران ٹھہرتے ہیں۔ چونکہ میرا موضوع سیاست ایک عبادت ہے‘ اس لیے میں اپنے مطالعہ کی بنیاد پر کچھ دلائل آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔ دنیا کے کم وبیش ہر مذہب میں سیاست کے بارے میں مثبت تعلیمات موجود ہیں۔ سیاست کے حوالے سے قدیم ہندو تعلیمات کا ایک اہم نظریہ رام راجیہ ہے‘ جدید تاریخ کے نمایاں ہندو سیاستدان مہاتما گاندھی کے مطابق رام راجیہ کا مقصد ایک ایسا فلاحی معاشرہ تشکیل دینا ہے جس کی مضبوط بنیادیں اعلیٰ اخلاقی اقدار پر استوار ہوں اور سماج کا کمزور ترین طبقہ بھی بغیر وقت ضائع کیے اور پیسہ خرچ کیے‘ بہ آسانی انصاف حاصل کر سکے۔
ہمارے ملک میں مسائل بے انتہا ہیں جنہیں حل کرنے کیلئے ہم انفرادی طور پر کوشش تو کر سکتے ہیں لیکن حتمی حل کی استعداد صرف حکومت کے پاس ہے اور حکومت میں آنے کا راستہ سیاست سے ہو کر گزرتا ہے۔ اگر ہماری سیاست کا مقصد پاکستان اور عوام کی فلاح وبہبود کیلئے قانون سازی کرنا ہے‘ اپنی کمیونٹی کے مسائل کو پارلیمنٹ میں اجاگر کرنا ہے اور حکومت میں آکر معاشرے میں مثبت سماجی رویوں کا فروغ یقینی بنانا ہے تو بلاشبہ ایسی سیاست ایک عبادت ہے۔ لیکن ایسا نظر نہیں آ رہا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیاست کو نفرت کی علامت بنانے کی بجائے ملک وقوم کے مفاد اور عوام کی فلاح وبہبود کو اپنی سیاست کا محور بنائیں۔ میری نظر میں خدا کی مخلوق کیلئے آسانیاں پیدا کرنیکی سیاست عبادت کا درجہ رکھتی ہے‘ لہٰذآپ کی سیاست کا محور مخلوق خدا کی خدمت ہونا چاہیے اور مخلوق خدا کی خدمت ہی عبادت ہے۔
جس طرح سے آج بہت سے لوگ جعلسازی کو چالاکی‘ ہوشیاری اور قابلیت سے تعبیر کرتے ہیں اسی طرح بہت سے لوگ آج سیاست کو مکر وفریب کا نام دے رہے ہیں جبکہ سیاست ملک کیلئے حکمت عملی مرتب کرنے کا نام ہے‘ آئین کی بالادستی قائم رکھنے کا نام ہے‘ عدل وانصاف کا پرچم لہرانے کا نام ہے‘ عوام کا اعتماد حاصل کرنے اور عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کا نام ہے۔ جھوٹ اور مکر وفریب کا نام سیاست نہیں ہے بلکہ ہر شعبے کیلئے بہتر پالیسی مرتب کرنے اور شعبہ چلانے کا نام سیاست ہے۔ لوگ یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ سیاست گندی ہو گئی حالانکہ سیاست گندی نہیں ہوتی سیاست کرنے والے اچھے بُرے ہوتے ہیں اور جب کسی جگہ سے اچھے لوگ دور ہو جائیں گے تو بُرے لوگوں کو اس جگہ پہنچنے کا راستہ ملے گا۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ اچھے لوگ سیاست میں حصہ لیں اور اپنے دامن کو صاف رکھیں تاکہ ملک بھی ترقی کی راہوں پر گامزن ہو اور قوم کا مستقبل بھی روشن ہو۔ لیکن بدقسمتی سے ایسے اچھے لوگوں پر سیاست کے راستے بند ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں