"IYC" (space) message & send to 7575

بزدار حکومت کو سیاسی مارکیٹنگ کا سہارا

سیاست اور مارکیٹنگ کو کبھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مارکیٹنگ سے کسی امیدوار یا اس کی جماعت کا تاثر بنتا ہے۔ یہ تاثر الیکشن سے پہلے کا بھی ہو سکتا ہے اور الیکشن کے بعد کا بھی۔ انفارمیشن کا دار و مدار اب سوشل میڈیا پر ہونے کی وجہ سے سیاست میں مارکیٹنگ کا کام بڑھ گیا ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد مارکیٹنگ کا انحصار ٹھوس پالیسیوں پر ہوتا ہے۔ 
ماضی میں سیاست میں مارکیٹنگ کا دار و مدار اصلیت پر ہوتا تھا، سیاسی شخصیات کو ایک حقیقی انسان کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، ایک عام انسان جس کا ایک خاندان ہے، جس نے کسی مقام پر پہنچنے کے لیے ایک جدوجہد کی ہوئی ہے، جو اپنے ملک کے بارے میں بہت زیادہ فکر کرتے ہیں۔ ملک کے سماجی اور معاشی مسائل کے حل پیش کر سکتے ہیں۔ اس طرح کی سیاسی مارکیٹنگ میں سیاست دان کی طاقت اور کمزوری کے ہر پہلو کا صحیح ادراک ہو سکتا تھا، اور سیاسی مارکیٹنگ کا مؤثر ذریعہ تھا۔
سب سے بہترین اور کامیاب سیاسی مارکیٹنگ مہم جس میں ووٹر کی امنگوں کا ادراک کیا گیا‘ وہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کی الیکشن مارکیٹنگ تھی۔ بارک اوباما کی اس مہم کا نام ''امید اور تبدیلی‘‘ تھا۔ اس مہم کی کامیابی اس بنیاد پر تھی کہ مارکیٹنگ کرنے والوں کو اندازہ تھا کہ ووٹر کیا چاہتے ہیں۔ اس مہم میں صرف پالیسیوں کی فہرست نہیں تھی، بلکہ اس میں بھرپور ریسرچ، پلاننگ اور حکمت عملی کو بھی شامل کیا گیا تھا اور ایسا مواد اس مہم کے لیے چنا گیا تھا جسے آن لائن شیئر کیا جا سکے۔
سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل مواد شیئر کرنے سے سیاسی امیدوار کی رسائی کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے، اور اس کا پیغام ملک کے ان حصوں تک پہنچ جاتا ہے جہاں الیکشن مہم کے دوران وہ خود نہیں پہنچ پاتے۔ سیاسی مارکیٹنگ میں تشہیری مواد اس نوعیت کا ہوتا ہے جسے ووٹر اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں اور اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دو ہزار سولہ کے انتخابات میں سابق خاتون اول ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں سیاسی مارکیٹنگ زیادہ دلچسپ رہی۔ دونوں رہنماؤں نے اپنے حامیوں کے کیمپوں کی نشاندہی کی، اور اپنے ترجیحی ووٹ بینک کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ صدر ٹرمپ کی الیکشن مہم کا سلوگن‘ امریکا کو دوبارہ عظیم بنائیں، ووٹروں کے دلوں کو چھو گیا۔ دونوں رہنما مارکیٹنگ کے نقطہ نظر سے خود بھی ایک برینڈ تھے۔ صدر ٹرمپ کا نعرہ دلکش تھا اور ووٹروں کو جلد سمجھ میں آنے والا بھی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بہت زیادہ مبہم بھی تھا اور ووٹر امریکا کو جس طرح کا دیکھنا چاہتا تھا‘ وہ اس نعرے کا من پسند مطلب اخذ کر سکتا تھا۔ ٹرمپ کا نعرہ اس قدر پُر فریب تھا کہ ری پبلکن پارٹی میں کبھی سرگرم نہ رہنے کے باوجود وہ ری پبلکن پارٹی کے تمام امیدواروں کو ایک طرف دھکیل کر پارٹی کے امیدوار بن گئے۔ 
ٹرمپ کے مقابلے میں ہیلری کلنٹن سیاسی میدان میں پہلے ہی ایک نمایاں شخصیت تھیں۔ انہوں نے اپنے روایتی ووٹ بینک پر توجہ رکھی، افریقی نژاد امریکی، ہسپانوی اور خواتین ووٹر ہیلری کی الیکشن مارکیٹنگ کا ہدف تھے۔ ہیلری نے اپنی ریلیوں میں کھلاڑیوں، فنکاروں، موسیقاروں، ادیبوں سمیت تمام نمایاں شخصیات کو سٹیج پر رکھا۔ ہیلری کی سیاسی مارکیٹنگ کرنے والوں کے نزدیک یہ ٹرمپ کی بڑی کمزوری تھی کہ ان کے ساتھ نمایاں شخصیات کی سیاسی سپورٹ نہیں تھی‘ لیکن نتائج نے واضح کر دیا کہ ٹرمپ کا سادہ اور پُر فریب نعرہ چمک دمک والی الیکشن مہم پر حاوی ہو گیا۔
پاکستان میں تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، جو سابق امریکی صدر بارک اوباما کا سلوگن تھا۔ اس سلوگن نے امریکا کی طرح پاکستان میں بھی جادو جیسا اثر دکھایا لیکن الیکشن میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف کی حکومت کی پالیسیاں اور کارکردگی اس کے اپنے ووٹ بینک کو بھی متاثر نہیں کر پائی۔ مرکز کی سطح پر تو بڑے معاشی اور سفارتی چیلنجز درپیش تھے، اور کپتان کی حکومت ان چیلنجوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن تحریک انصاف کو سب سے زیادہ تنقید پنجاب میں کارکردگی پر برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ اگرچہ جناب وزیر اعظم نے اپنے حالیہ دورہ لاہور کے دوران پنجاب حکومت کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیا‘ لیکن کچھ حلقے اب تک اس حوالے سے مطمئن نظر نہیں آتے۔
الیکشن مہم کے دوران پُر فریب نعرے ضرور کام آتے ہیں‘ لیکن الیکشن میں کامیابی کے بعد پالیسیاں اور کارکردگی‘ دونوں ہی ووٹر کو متاثر کرتی ہیں۔ پنجاب کا ووٹر‘ جو مسلم لیگ ن کے بڑے ترقیاتی منصوبوں، ہسپتالوں، یونیورسٹیوں اور کسی بھی وبائی مرض یا ہنگامی حالت میں شہباز سپیڈ کا عادی رہا ہے، کپتان کے دریافت کردہ وسیم اکرم پلس سے مطمئن نہیں۔ پنجاب حکومت کی کارکردگی پر بار بار سوال اٹھے تو کپتان کو خود لاہور آنا پڑا۔ بیوروکریسی میں اس قدر بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی گئی کہ جن افسروں کو شہباز شریف کا وفادار کہا جاتا رہا، جن پر سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ہونے، نندی پور، اورنج ٹرین، میٹرو منصوبوں میں کرپشن میں شریک ہونے کا الزام لگا کر ان کی شہرت داغ دار کرنے کی کوشش کی گئی، انہیں ہی بزدار کو وسیم اکرم پلس بنانے اور دکھانے کی ذمہ داری سونپنا پڑی۔
کپتان نے وسیم اکرم پلس کے انتخاب پر تنقید کی پروا کی نہ گورننس کی خامیوں کو خاطر میں لائے۔ کپتان کی پٹاری سے بھی وہی نسخہ نکلا جسے وہ ماضی میں حکمرانوں کی سرکاری خرچے پر تشہیر قرار دیتے رہے۔ کپتان نے ایک طرف اعتراف کیا کہ پنجاب میں امن و امان اور گورننس کے نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی اپنے حسن انتخاب کو بھی سراہا اور کہا کہ وزیر اعلیٰ بزدار اچھا کام کر رہے ہیں، انہیں اپنے کام کی تشہیر کرنی چاہیے، وہ خاموشی سے اصلاحاتی پروگراموں پر کام کر رہے ہیں جس کا پتا نہیں چلتا۔
کپتان کی ہدایت پر گورننس کی بہتری کے لیے کوئی کام شروع ہوا یا نہیں لیکن تشہیر کا کام ہنگامی بنیادوں پر ہوا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی پر آرٹ کارڈ پر چار رنگوں کی چھپائی سے ایک کتابچہ شائع کر دیا گیا۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان ٹی وی سکرینوں پر نمودار ہوئے اور بزدار کو شیر شاہ سوری قرار دے ڈالا۔ شیر شاہ سوری کی وجہ شہرت کیا ہے؟ سب جانتے ہیں لیکن اس دور کے نئے شیر شاہ سوری نے کیا کارنامہ انجام دیا، کون سی جی ٹی روڈ بنائی، کون سا مواصلاتی نظام تشکیل دیا اور عوام کی خبر گیری کے لیے کیا کیا؟ وزیر موصوف یہ بتانے سے قاصر رہے۔
وسیم اکرم پلس کی شاندار کارکردگی بتانے کے لیے پریس کانفرنس کرنے والے وزیر اطلاعات پنجاب نے سرکاری خرچ پر شائع شدہ کتابچہ صحافیوں میں تقسیم کیا اور اس کے چیدہ چیدہ مندرجات بیان کیے۔ 
ڈیڑھ سال کے مختصر عرصے میں چار آئی جی پولیس اور تین چیف سیکرٹری تبدیل کرنا بزدار حکومت کی کارکردگی کا پول کھول رہا ہے۔ انتظامی معاملات اگر درست ہیں تو تین چیف سیکرٹری کس بنیاد پر تبدیل کئے گئے، امن و امان اور تھانہ کلچر میں بہتری کا دعویٰ ہے تو پنجاب سے رخصت کئے گئے آئی جی پولیس کا قصور کیا تھا؟
پنجاب حکومت کے کارناموں کی تشہیر کے لیے تیار کیا گیا کتابچہ سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کر دیا گیا ہے، لیکن تحریک انصاف کی مارکیٹنگ کرنے والے کریں تو کیا کریں؟ پُر فریب نعروں سے الیکشن تو جیتے جا سکتے ہیں لیکن حکومت چلانے کے لیے پالیسیاں اور کارکردگی ضروری ہوتی ہے، دیکھتے ہیں، بزدار کو سہارا دینے کے لیے پالیسیوں اور کارکردگی سے خالی نئی سیاسی مارکیٹنگ کس قدر موثر ثابت ہوتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں