امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 18جون کی سہ پہر وائٹ ہاؤس میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے اعزاز میں لنچ کئی لحاظ سے تاریخی ہے۔ پہلی بات یہ کہ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ میں پہلی بار کسی امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کے آرمی چیف کو باقاعدہ سرکاری دعوت پر مدعو کیا گیا۔ اس سے قبل پاکستان کے متعدد سربراہانِ مملکت اور سربراہانِ حکومت اور آرمی چیفس امریکہ کے دورے پر جاتے رہے لیکن جو پذیرائی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو ملی ہے وہ شاید کسی کے حصے میں نہیں آئی ہو گی۔ ظہرانے کے بعد پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی باڈی لینگوئج اور لب و لہجہ بتا رہے تھے کہ وہ اس ملاقات سے واقعی خوش اور شاد ہیں۔
صدر ٹرمپ کے لنچ سے لطف اٹھانا‘ ان کے ساتھ ملاقات اور تبادلۂ خیالات تو یقینا ایک بڑی اور اہم کامیابی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قسمت سید عاصم منیر پر ہمیشہ مہربان رہی ہے۔ 29 نومبر 2022ء کو ان کی ریٹائرمنٹ سے صرف تین دن پہلے انہیں چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ نومبر 2024ء میں پارلیمنٹ نے بغیر کسی بحث و تمحیص کے ان کی مدتِ ملازمت تین کے بجائے پانچ سال کر دی‘ جو اَب فیلڈ مارشل بننے کے بعد تا حیات ہو چکی ہے۔ ان سے پہلے جنرل ایوب خان فیلڈ مارشل رہے تھے۔ دونوں فیلڈ مارشلز میں فرق یہ ہے کہ ایوب خان کو فیلڈ مارشل کا اعزاز ان کی صدارتی کابینہ نے 27اکتوبر 1959ء کو مارشل لا‘ جسے کابینہ نے انقلاب کا نام دیا تھا‘ کی پہلی سالگرہ کے موقع پر دیا تھا لیکن سید عاصم منیر کو حکومتِ پاکستان‘ دوسرے لفظوں میں پاکستان کے عوام نے حالیہ پاک بھارت جنگ میں شاندار کارکردگی کی بنیاد پر فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا ہے۔ سید عاصم منیر نے بطور آرمی چیف دہشت گردی کے خاتمہ کی منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ملک کو معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور اس مقصد کیلئے ایس آئی ایف سی (Special Investment Facilitation Council) بنائی گئی جس کی کاوشیں اور کامیابیاں سب پر واضح ہیں کہ آج پاکستان نہ صرف ڈیفالٹ کے خطرے سے باہر آ چکا ہے بلکہ اس کی معیشت دو سال پہلے کی نسبت بے حد مستحکم ہو چکی ہے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہیں لیکن پہلے مختصر سا جائزہ کہ پاکستان کے کون سے لیڈر نے کب اور کتنے دن کا امریکہ کا دورہ کیا اور اسے وہاں کیا کامیابیاں ملیں۔ 1950ء میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان اُس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین کی دعوت پر تین مئی کو تین روزہ دورے پر واشنگٹن پہنچے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دورے نے پاک امریکہ خصوصی تعلقات کی بنیاد رکھی تھی۔ گورنر جنرل غلام محمد علاج کی غرض سے 8تا 13نومبر 1953ء امریکہ میں رہے۔ اس دوران ان کی اس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور سے باضابطہ ملاقات بھی ہوئی تھی۔ وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے اکتوبر 1954ء میں امریکہ کا دورہ کیا تھا۔ وزیراعظم حسین شہید سہروردی جولائی 1957ء میں سرکاری دورے پر امریکہ گئے تھے جہاں انہوں نے امریکی صدر اور دوسرے رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ صدر جنرل ایوب خان نے امریکہ کے تین دورے کیے تھے۔ پہلی بار وہ 11جولائی 1961ء کو واشنگٹن گئے۔ انہوں نے دوسرا دورہ ستمبر 1962ء اور تیسرا دورہ دسمبر 1965ء میں کیا تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے اکتوبر 1970ء میں ایسے حالات میں امریکہ کا سرکاری دورہ کیا تھا جب مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی تحریک چل رہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے دو مرتبہ امریکہ کا سرکاری دورہ کیا۔ انہوں نے صدر نکسن کی دعوت پر پہلا امریکی دورہ 18ستمبر 1973ء کو کیا تھا۔ بھٹو دوسری بار فروری 1975ء میں سرکاری دورے پر امریکہ گئے تھے۔ صدر جنرل ضیاالحق نے تین بار امریکہ کا سرکاری دورہ کیا۔ پہلی بار وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کیلئے اکتوبر 1980ء میں امریکہ گئے تھے۔ اکتوبر 1985ء میں انہوں نے امریکہ کا دوسرا سرکاری دورہ کیا۔ جولائی 1986ء میں وہ تین روزہ دورے پر واشنگٹن گئے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے دونوں ادوار میں ایک ایک مرتبہ امریکہ کا سرکاری دورہ کیا۔ پہلے وہ جون 1989ء میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش کی دعوت پر تین روزہ دورے پر واشنگٹن گئیں۔ ان کا دوسرا سرکاری دورہ اپریل 1995ء میں ہوا جس میں انہوں نے اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ صدر فاروق لغاری نے بھی مئی 1994ء میں واشنگٹن کا دورہ کیا تھا۔ میاں محمد نواز شریف نے امریکہ کے تین سرکاری اور تین ہی نجی دورے کیے اور تمام دوروں کے دوران ان کی امریکی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دس سالہ دورِ اقتدار کے دوران امریکہ کے نو سرکاری دورے کیے۔ یوں وہ امریکہ کے سب سے زیادہ دورے کرنے والے پاکستانی سربراہ تھے۔ وزیراعظم شوکت عزیز 2006ء میں واشنگٹن گئے تھے۔ جولائی 2008ء میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی ایک ورکنگ وزٹ پر امریکہ گئے تھے۔ انہوں نے اپریل 2010ء میں بھی امریکہ یاترا کی تھی۔ صدر آصف علی زرداری نے اپنی پہلی مدتِ صدارت میں پانچ مرتبہ امریکہ کا دورہ کیا۔ وزیراعظم کے طور پر عمران خان بھی امریکہ گئے تھے۔ اور اب فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات ہوئی ہے جسے تاریخی گرداننے کے ساتھ ساتھ پاک امریکہ تعلقات از سر نو مرتب کرنے کیلئے نیا باب بھی قرار دیا جا رہا ہے۔
اب دوبارہ بات کرتے ہیں لنچ اور ملاقات کی۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ملاقات پر تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے لکھا ''اس ملاقات کو صرف ایران اور اسرائیل کے تنازع کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ امریکہ اور پاکستان کے مابین معدنیات‘ کرپٹو اور انسدادِ دہشت گردی سمیت کئی معاملات پر شراکت داری ہو رہی ہے۔ ٹرمپ ان معاملات میں گہری ذاتی دلچسپی لیتے ہیں اور فیلڈ مارشل عاصم منیر اتنے بااختیار ہیں کہ ان سب کے بارے میں بات کر سکتے ہیں‘‘۔
میرا خیال ہے کہ اس ملاقات کو پاک امریکہ تعلقات میں ایک نئی جہت کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے پاک بھارت جنگ بندی کرانے کے سلسلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کے اعتراف میں انہیں نوبل انعام کیلئے نامزد کیے جانے کی حمایت کی ہے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور دوستی کے فروغ کا خواہاں ہے‘ لیکن بھارت ان جذبوں کی حقیقت کو نہیں جانتا۔ وہ نا صرف سندھ طاس معاہدے کو معطل رکھنے پر بضد ہے بلکہ اس نے امریکی صدر کی ثالثی کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں ایران اسرائیل جنگ کا ہنگامہ پربا ہے اور ٹرمپ سمیت پوری عالمی برادری کی توجہ اسی جانب مرتکز ہے۔ اس جنگ کے خاتمے کے بعد ضروری ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین دیرینہ تنازعات کو نمٹانے کیلئے بھی کوشش کی جائے تاکہ جنوبی ایشیاکے اس خطے میں پائیدار امن اور یہاں بسنے والی اقوام کے مالی و معاشی حالات بہتر ہو سکیں۔ ضروری ہے کہ اس حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو ترجیح دی جائے کیونکہ یہ مسئلہ حل ہو گا تو دونوں ملکوں کے مابین بہت سے دوسرے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ پورا تیقن ہے کہ فیلڈ مارشل نے امریکی صدر کے ساتھ بات چیت میں ان ایشوز کا بھی ضرور ذکر کیا ہو گا۔