مجھے معلوم ہے‘ آپ سب جانتے ہیں کہ ٹماٹر کس کام آتے ہیں اور ان میں کیا کیا خوبیاں پائی جاتی ہیں‘ پھر بھی ٹماٹروں کی تھوڑی سی تعریف میرے منہ سے بھی سن لیں۔ ٹماٹر ایک اہم زرعی جنس ہے جو اپنے خوشگوار رنگ اور اچھے ذائقے کی وجہ سے عوام الناس میں یکساں مقبول ہے۔ دیگر سبزیوں اور گوشت و دالوں کے ساتھ پکانے کے علاوہ ٹماٹر کو سلاد کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹماٹر میں وٹامن اے‘ وٹامن سی‘ رائبوفلاوین‘ تھامین اور معدنی نمکیات جیسے آئرن‘ کیلشیم اور فاسفورس وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جو صحت کے لیے مفید ہیں۔ ٹماٹر کے پھل میں لائکوپین پایا جاتا ہے جو جسم سے نقصان دہ مادوں کے اخراج میں مدد کرتا ہے۔ یہ سبزی سال بھر استعمال ہوتی ہے۔ اس کے گودے سے چٹنیاں‘ کیچپ اور پیسٹ جیسی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔ شکر کریں کہ میں اسی پر اکتفا کر رہا ہوں‘ کوئی حکیم صاحب یہ کالم لکھ رہے ہوتے یا میں ہی اگر حکیم ہوتا تو یہ بھی بتاتا کہ ٹماٹر کون سی بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور کون سی بیماریاں اگر لاحق ہو جائیں تو ٹماٹر کھانے سے شفا مل سکتی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ لوگ آج کل وٹامن اے‘ وٹامن سی‘ رائبوفلاوین‘ تھامین‘ آئرن‘ کیلشیم‘ فاسفورس اور لائکوپین سے محروم ہیں اور ان کے اجسام سے نقصان دہ مادوں کے اخراج میں پرابلم بھی پیش آ رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ٹماٹر بہت مہنگے ہو چکے ہیں‘ اتنے مہنگے کہ انہوں نے مرغی کے گوشت کی قیمت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ٹماٹر کے سرکاری نرخ تو 322روپے فی کلوگرام ہیں لیکن کراچی کے مختلف علاقوں میں یہ سبزی 500سے 700روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ شہید بینظیر آباد کی تحصیل سکرنڈ میں ٹماٹر رواں سال کی بلند ترین سطح 600روپے فی کلو پر پہنچ گیا۔ فیصل آباد میں مٹر اور ٹماٹر 500روپے کلوگرام میں فروخت ہو رہے ہیں۔ پشاور میں ٹماٹرکی قیمت نے چوتھی سنچری عبور کر لی ہے جبکہ بھنڈی‘ ٹینڈا‘ کدو‘ توری سمیت کوئی بھی سبزی ڈیڑھ سوروپے کلو سے کم پر دستیاب نہیں ہے۔
محکمہ پرائس کنٹرول پنجاب کا کہنا ہے کہ ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافہ سپلائی میں تعطل کے باعث ہوا ہے۔ پچھلے مہینوں میں خیبرپختونخوا شدید بارشوں کے باعث ٹماٹر کی مقامی فصل متاثر ہوئی جس کے باعث عارضی قلت پیدا ہوئی۔ محکمے کے ترجمان کے مطابق افغانستان اور ایران سے بھی ٹماٹر کی درآمد میں عارضی تعطل نے سپلائی پر وقتی دباؤ ڈالا اور ٹماٹرکی قیمتوں میں اضافہ موسمی تبدیلی‘ بارشوں‘ ٹرانسپورٹ مسائل کا بھی نتیجہ ہے۔ ترجمان نے بتایا ہے کہ ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافہ وقتی ہے‘ آئندہ ہفتے سپلائی معمول پر آتے ہی قیمتوں میں کمی متوقع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرائس کنٹرول محکمے نے ٹماٹر کے مہنگے ہونے کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہی اصل اسباب ہیں‘ لیکن ایک اور وجہ بھی سامنے آئی ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نارمل حالات میں روزانہ کابل سے 30سے 40کنٹینر آتے ہیں اور مارکیٹ میں سپلائی ہوتے ہیں لیکن حالیہ دنوں کابل سے ٹماٹر کی سپلائی بند ہونے سے پاکستانی مارکیٹ پر اثر پڑا اور طلب اور سپلائی میں اتار چڑھاؤ کے باعث قیمتیں بڑھی ہیں۔ اب ایران اور خیبرپختونخوا سے روزانہ ٹماٹروں کے تقریباً 15کنٹینرز آتے ہیں۔ ادارۂ شماریات پاکستان کے مطابق افغانستان سے سالانہ چار لاکھ ٹن ٹماٹر درآمد کیے جاتے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر ایران سے سالانہ تقریباً ایک لاکھ ٹن درآمد ہوتے ہیں۔ پاکستان اور افغان طالبان کے مابین امن معاہدہ طے پانے کے بعد ملک کی مغربی سرحد پر حالات کچھ نارمل ہوئے ہیں چنانچہ توقع کی جاتی ہے کہ آنے والے دنوں میں ٹماٹر کی دستیابی کے حوالے سے معاملات نارمل ہو جائیں گے۔
چلیں فصل تھوڑی بہتر ہو گی تو ٹماٹر مارکیٹ میں ملنے بھی لگیں گے اور سستے بھی ہو جائیں گے‘ لیکن چینی کا کیا کیا جائے جس کی قیمتیں کم ہونے میں ہی نہیں آ رہی ہیں۔ پہلے ضرورت سے زیادہ چینی اس شرط پر برآمد کی گئی کہ یہاں اس کی قیمتیں بڑھنے نہیں دی جائیں گی۔ چینی برآمد ہو گئی اور اس کی قیمتیں بھی تاحال قابو سے باہر ہیں۔ پھر جب قلت پیدا ہوئی تو چینی درآمد بھی کی گئی‘ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سارے عمل میں کوئی بھی قصوروار قرار نہیں پایا ہے‘ سزا کسے دی جائے۔ حکومت کی جانب سے چینی برآمد کی وجہ اس کے سرپلس سٹاک کو قرار دیا گیا تھا تاہم اس برآمد کے بعد مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ملک کے کچھ حصوں میں چینی کی قیمت دو سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ نومبر میں نیا کرشنگ سیزن شروع ہونا ہے۔ کیا چینی کی نئی پیداوار مارکیٹ میں آنے کے بعد چینی سستی ہو سکے گی؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے‘ اس لیے وقت بتائے گا کہ کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں۔
چینی کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے۔ پھیکی چائے پی جا سکتی ہے۔ ٹماٹر کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے۔ سالن کی تیاری میں ٹماٹر کے بجائے دہی ڈالا جا سکتا ہے لیکن آٹے کے بغیر گزارہ ممکن نہیں ہے اور حالات یہ ہیں کہ گندم کی فصل ابھی بوئی جانی باقی ہے لیکن گندم اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اس غیرمعمولی اضافے کی وجہ سے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ماہ کے دوران گندم کی فی من قیمت 2400روپے سے بڑھ کر 4200روپے تک پہنچ چکی ہے‘ جبکہ آٹے کا 20کلو کا تھیلا تقریباً 600روپے تک مہنگا ہو گیا ہے۔ اس مہنگائی سے عام آدمی براہِ راست اور بالواسطہ دونوں طریقوں سے متاثر ہوا ہے۔ تنور والوں کا کہنا ہے کہ اس اضافے کے باعث نان اور روٹی کی قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے۔ تو کیا اب نان اور روٹی کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا؟
ایک اور مسئلہ گندم کی سرکاری قیمت کے تقرر کا تھا‘ جو ابھی ابھی حل ہوا ہے۔ وفاقی حکومت نے گندم کی امدادی قیمت 3500 روپے فی من مقرر کر دی ہے۔ حکومت نے گندم پالیسی 2025-26ء کی منظوری بھی دی ہے جس کا مقصد کسانوں کے تحفظ اور ملک میں گندم کے مستحکم ذخائر کو یقینی بنانا ہے۔ یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ حکومت 62لاکھ ٹن سٹریٹجک سٹاک کی خریداری کرے گی تاکہ گندم کی فراہمی اور قیمتوں میں استحکام برقرار رکھا جا سکے اور کسانوں کو معاشی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ گندم کی سرکاری قیمت مقرر کرنا اور کسانوں سے سٹریٹجک سٹاک خریدنے کی یقین دہانی بے حد ضروری تھی۔ اس کے بغیر گندم کی کاشت کا ہدف اور پیداوار کی حد مقرر کرنا ناممکن ہو جاتا۔ حکومت نے یہ کام بروقت کیا ہے۔ کسانوں کو پتا ہو گا کہ ان کی گندم اس نرخ پر فروخت ہو گی تو وہ زیادہ سے زیادہ گندم پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ فیصلہ بروقت اس لیے ہے کہ عام طور پر گندم کی سرکاری قیمت کا تعین فصل کی بوائی کے بعد کیا جاتا تھا جو بے فائدہ رہتا تھا۔ اس بار مناسب وقت پر فیصلہ مناسب نتائج کا حامل ہو گا۔ ملک کے زرعی شعبے کو اگر قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس شعبے پر توجہ دے کر معیشت کے حقیقی اور اصلی استحکام کا راستہ ہموار کیا جا سکتا ہے۔ حکومت زرعی شعبے پر ویسی توجہ دے گی جیسی توجہ دینا حالات اور وقت کا تقاضا ہے؟