اختتام

فرانسس فوکویاما نے تاریخ کے ختم ہونے کا کہہ کر ساری دنیا کو حیران کر دیا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کا خاتمہ اور افغانستان میں روس کی شکست جمہوریت نہیں لبرل جمہوریت کی فتح ہے ۔اس کا جمہوریت کے بارے میں اپنا نقطہ نظر ہے ۔اسے سرمایہ دار جمہوریت اور کارپوریشنوں کی مال و دولت والی جمہوریت سوٹ کرتی ہے ۔2001 ء کو تاریخ کا اختتام کہا۔ کیا محض دو عشروں بعد ہی تاریخ نے جنم لے لیا؟
اب روس اور چین تاریخ کا احیاکر رہے ہیں تو فوکو یاما کیا کہتے ہیں؟جو بات فوکویاما نے دو عشرے پہلے کہی تھی اب ان کے ایک انٹرویو کے ہی مطابق ''آج ہر کوئی چین کے بارے میں سوچ رہا ہے کیونکہ ان کے ہاں حاکمانہ سرمایہ دارانہ نظام گزشتہ کئی دہائیوں سے بڑی کامیابی سے رائج ہے اور غیر معمولی معاشی ترقی کا باعث ہے ۔ اب نظریہ یا فکر کی سطح پر ایک حد تک ایک متبادل موجود ہے جو ماضی قریب میں نہیں تھا‘‘۔
ادھر یوکرین کے مسئلہ پر بھی چین روس کے ساتھ کھڑا ہے۔انقلابات ہیں زمانے کے۔جمہوری امن نظریہ (Democratic Peace Theory )فلاسفر کانٹ اور سیاسی نظریہ کار پین کا بے بی ہے ۔اسی کو فوکویاما نے بانداز ِ دگر پیش کیا تھا۔تاریخ سائنس کی کسی لیبارٹری کا تجربہ نہیں کہ آکسیجن اور ہائیڈروجن گیسوں کا مرکب پانی کہلائے گا۔تاریخ کا اپنا سچ ہوتا ہے‘ اپنی حدود ہوتی ہیں کہ تاریح کی کوئی حد نہیں۔ساری دنیا اس کی تجربہ گاہ‘ سارے حکمران‘ سیاست دان‘ فیلسوف اور لکھاری‘ سائنسی لیبارٹریوں میں کام میں ہمہ وقت مصروف کارکنان سب اس کے گھیرے سے باہر نہیں جا سکتے ۔اس نے تاریخ کے خاتمے کا اعلان تو کر دیا مگر کیا اس کے سچ میں واقعی کوئی حقیقت تھی یا اس مجذوب کی بڑ تھی جسے اپنے پیالے میں ہی ساری دنیا نظر آتی ہے ؟قصور پیالے میں نظر آنے والے دھوکے کا نہیں قصور مجذوب کی آنکھ کا ہے ۔
بہت واہ وا ہ ہوئی‘ بہت ساروں کے کان کھڑے ہوئے‘ بہت بحثیں ہوئیں۔اپنے دانشور جو مارکس کا جوٹھا کھاتے تھے اب اپنے اپنے کنجوں میں چپ سادھے بیٹھے تھے ۔تاریخ نے موڑ لیا‘ انہی دانشوروں نے مغربی جمہوریت اور امریکہ کی آنکھ کا تارہ بننے کے لیے ایک لمحہ توقف نہ کیا۔اور تو اور زمینی حقائق سے بے خبروں نے بھارت سے دوستی کی شمع جلائی اور اپنی ہتھیلیاں جلائیں۔اب وہ دانشور کہاں ہیں جو بڑے بڑے اخباروں میں ہندوستان کی دوستی کے اشتہار چھپوایا کرتے تھے؟ دھن باہر سے آ رہا ہو تو نام نہاد ضمیر کے نام پر بہت کچھ کہنے کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے سچ کو کہنے کو بڑا سچ کہنے سے بھی چوکتے نہیں؎
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی نے اور بھی بہت سارے سچ سے پردہ اٹھایا تھا جیسے
میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آ کے لیٹ
اب وہ دانشور کبھی اپنے دم خم کو دیکھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں‘ کبھی وحشت میں اپنے بال نوچتے ہیں۔تاریخ نے اپنے سچ کو کہاں چھپانا تھا‘تاریخ ایسے ختم ہوتی تو ایک پولر طاقت اپنے گھمنڈ میں خوشی سے مر نہ جاتی۔
ماوراے بحر اوقیانوس (Transatlantic) تعلقات کی گرم جوشی اس وقت تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے اور امریکہ کے اپنے ازلی اور مذہبی تزویراتی اور جمہوری بھائی یورپ سے بھی اختلافات کا شمار نہیں۔یہ آبلہ بھی آج پھوٹے یا کل۔مذہبی اور اسرائیل کی آنکھوں میں کھٹکنے والا ایران ہو‘ چین کے ساتھ تعلقات کی بڑھوتری کا معاملہ ہو یا موسم کی تبدیلی کے مسائل‘ یورپ اور امریکہ دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں۔امریکہ اس سلسلے میں فقط روس ہی نہیں کسی کو بھی‘ خواہ وہ اس کا مذہبی بھائی یورپ ہو‘ کسی کی چوہدراہٹ قائم ہونے کے امکان کو بھی برداشت کرنے کا روادار نہیں۔یہ نہ دیکھیں کہ کون اوول آفس میں بیٹھتا ہے‘ وہ ٹرمپ ہے یا ڈیموکریٹ بائیڈن‘ یورپ اور وہ الگ الگ ہی کھڑے ہوں گے ۔ان دونوں مذہبی بھائیوں کے درمیان بھی سرد جنگ نئی نہیں ہے ۔یہ عراق پر حملے کے وقت سے جاری ہے ۔ان دونوں کے درمیان اسی بیس کے دہاکے میں کوئی بھی دھماکہ ہو سکتا ہے ۔نیٹو امریکہ کی آنکھ کا تارہ نہیں اس کی آنکھوں کا کانٹا ہے جو اسے ہمہ وقت کھٹکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ معاملہ محض ٹرمپ کے جانے سے بھی حل نہیں ہوا اور آپس کی اندرونی چپقلش کم ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ انکل سام تو بہت گُنی ہے‘ اس کو کیا پڑی کہ فائدہ کم دیکھ کر بھی یورپ کے دفاع پر اخراجات کرتا پھرے ۔یہ آپس کے اختلافات نہیں تاریخ کی سچائی ہے۔ اب بھائی یورپ بھی آنکھیں بند کر کے کب تک بیٹھ سکتا ہے‘ جب اسے معلوم ہے کہ امریکہ پیسیفک میں زیادہ انٹرسٹڈ ہے تو فرانس کی طرح باقی یورپ بھی چین اور روس کی طرف کیوں متوجہ نہ ہو گا؟یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یورپ امریکہ کی پخ بننے سے انکار کر دے ۔اس کا رستہ آج نہیں تو کل الگ ہونا ہے ۔یورپ کو معلوم ہے کہ امریکہ کا کوئی بھی صدر ہو اس کا Trumpianہونا ناگزیر ہے ۔امریکی عوام اسی مزاج کے گرویدہ ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے ۔یورپ یہ بھی چاہتا ہے کہ NATOمحض ڈھیلا ڈھالا فوجی اتحاد نہ ہو‘ اس کو سیاسی طاقت کے طور پر بروئے کار لایا جائے ۔ روس یوکرین کی وجہ نزاع ایک یہ بھی ہے کہ یوکرین NATOکا ممبر بننا چاہتا ہے ۔ یورپ سارے کا سارا Energy Hungry ہے‘ وہ یوکرین کے معاملے سے الگ بھی نہیں ہو سکتا۔اگرچہ یورپ کے حکمران کہہ رہے ہیں کہ اوپن ڈورکسی کی پالیسی نہیں‘ ہم سب ایک ہیں۔اگر سب ایک ہیں تو فرانس کے صدر کو پوتن سے ملاقات کی ضرورت نہ پڑتی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک یورپ اپنی حفاظت کے سب سے نازک مقام پر کھڑا ہے ۔نہ پائے رفتن ‘ نہ جائے ماندن کی حالت ہے ۔
یونان کے نسل ِ انسانی پہ فیض کا بدلہ صرف تاریخ اتارتی ہے ۔جدید جمہوریت انسان کی آبرو اور اس کے جوہر کی حفاظت ہی اس کا مقصد تھا۔اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد ِ حیات نہیں تھا۔انہوں نے فتوحات نہیں کیں۔سمندروں میں بیڑے نہیں ڈالے ۔علم کی بنیاد پر اختلاف کیا۔وہ انسان کی تین گروہوں میں تقسیم کرتے تھے ۔وہ تین گروہ کون تھے؟ ان میں سب سے پہلے Idiotsتھے ۔یہ وہ لوگ تھے جن کا مقصدر اپنی ذات تھی۔ جو اپنی ناک سے آگے دیکھ ہی نہیں سکتے تھے ۔ان کو وہ خود غرض لوگوں کا ٹولہ کہتے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے چھلکے اتاریں‘ ان کا ملمع ہٹائیں تو نیچے سے وحشی برآمد ہو گا۔ ان کا دین ایمان وہ خود ہیں۔ان کی کوئی پبلک فلاسفی نہیں۔ان کے پاس بیان کرنے کو کچھ بھی نہیں ہے ۔اپنے آپ میں مگن ‘اپنے آپ کو تھپڑا مارنے والے ۔اپنے مقصد کے لیے کسی کو کندھوں پر اٹھانا اور اپنے مقصد کے لیے کندھوں سے گرانا عام معمول ہے ۔ بظاہر یہ امن کی آشا کا ذکر کرتے ہیں اور ملک کی بات ہوتی ہے تو دہلی کے سیمیناروں میں حکومت پاکستان سے کہتے ہیں ‘بنگلہ دیش سے اپنے کئے کی معافی مانگو۔ملک سے علیحدگی کو جائز سمجھتے ہیں اور پانچ ہزار ڈالر کے عوض بکتے ہیں۔قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند۔تاریخ کا اپنا ترازو ہے‘ وہ کسی کو غلطی سے بھی کندھوں پر نہیں بٹھاتی۔اور آخری بات وہ بھی الہ آباد (جسے اب پریاگ راج کہتے ہیں) کے اصل دانشور کے الفاظ میں
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
اسی انٹرویو میں فوکویاما نے اعتراف کیا تھا کہ امریکی لوگ اوباما کو بائیں بازو کا سوشلسٹ مانتے ہیں۔یہ تاریخ ہے‘ جاری و ساری تاریخ‘ امریکہ کے مقابل ایک عظیم چین۔یہ تاریخ کا احیاہے ۔پوتن نے ایک طاقت کے نظریے کو بھی ہوا میں اڑا دیا ہے کہ تاریخ کی اپنی سائنس اور اپنی لیبارٹری ہوتی ہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں