پاکستان اور دوسرے ممالک میںلیبیا کے شہر بن غازی میں چارمارچ کو ،کوپٹک چرچ جلائے جانے کا واقعہ پوری طرح رپورٹ نہیںہوا ۔ اس سے پہلے اس شہر میں ایک اطالوی سفارت کار کے قتل کی کوشش کی گئی جبکہ برطانیہ اور تنزانیہ کے سفارت خانوں پر حملے بھی کیے گئے۔ گزشتہ سال بن غازی میں ہی امریکی سفیر کرس سٹیونز کو تین ساتھیوں سمیت ہلاک کیا گیا تھا۔ لیبیا کا یہ مشرقی شہر انتہا پسند گروہوںکے قبضے میں ہے۔ اس پر جنرل نیشنل کونسل کا کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ گزشتہ دنوں اسی شہر میں غزہ جانے والے ٹرکوں کے قافلے کو روک کر تین پاکستانی نژاد برطانوی لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ شہر پر کونسل کی اتھارٹی ختم ہونے سے وہ خطرات سامنے آ گئے ہیں جو آمریت کے خاتمے کے بعد کسی معاشرے کو اپنی گرفت میںلے سکتے ہیں۔ نیٹو نے سابق آمر معمر قذافی کا تختہ الٹنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا جس کے بعد ظاہر ہونے والے نتائج تباہ کن ہیں۔ حال ہی میں طرابلس کے نزدیک قبائل کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے نتیجے میں تین ہزار افراد بے گھر ہو گئے۔ پولیس افسروں کے قتل اور اغوا کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ شورش پسندی صرف لیبیا تک ہی محدود نہیں بلکہ شمالی مالی بھی اسلامی انتہا پسندوںکی گرفت میںہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد لیبیا سے ہمسایہ ملک میں رقوم اور اسلحے کی آزادانہ ترسیل شروع ہو گئی تھی۔ دراصل لیبیا جلد مشتعل ہونے والے افرا د کا ملک ہے جسے معمر قذافی نے آہنی ہاتھوںسے کئی عشروںتک کنٹرول کیے رکھا۔ وہ اقتدار میں رہنے کے لیے ہر قسم کا جبر جائز سمجھتے تھے۔ عراق بھی مسلسل پُر تشدد واقعات کی لپیٹ میں ہے۔ ایک عشرہ پہلے امریکی افواج نے صدر صدام حسین کو منظر ِ عام سے ہٹایا دیا تھا اور اب نیٹو افواج کے انخلا کو بھی دو سال ہوچکے ہیں لیکن یہ بدقسمت ملک خود کش حملوں اور فائرنگ کے واقعات سے بدستور لہو رنگ ہے۔ اگرچہ ملک میں ایک منتخب حکومت اقتدار سنبھال چکی ہے مگر فرقہ ورانہ بنیادوںپر خونریزی تھمنے کا نام نہیںلے رہی۔ ہزاروں عیسائی باشندے اپنے گھر بار چھوڑ کر جاچکے ہیں ۔ عراقی خواتین جنہیں کبھی عرب دنیا میں سب سے لبرل اور جدت پسند خیال کیا جاتا تھا، عراقی معاشرے میں بے جا مذہبی گھٹن اور تشدد کے باعث ان کی آزادی سلب ہورہی ہے۔ مصر میں انتخابات کے باوجود دو سال سے افراتفری اور بدنظمی کا دوردورہ ہے اور حسنی مبارک کی حکومت کے خاتمے کے بعد ، جیسا کہ مغربی ممالک کو توقع تھی، پُرامن انتقالِ اقتدار اور جمہوری قدروںکے فروغ کا خواب شرمندۂ ِ تعبیر نہیںہوا۔ ’’تحریر چوک‘‘ سے اٹھنے والے انقلاب کے نتیجے میں جدت پسندی کے فروغ کی بجائے اب سیکولر نظریات رکھنے والے طبقات دائیں بازو کے مذہبی طبقوں‘ اخوان المسلمین اور سلفی جماعتوں سے برسرِ پیکار ہیں۔ ان مسائل کا کوئی حل نظر نہیں آتا اور معیشت دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ۔ اب بہت سے مصری باشندے فوجی مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں۔ عرب دنیا کا ایک اور اہم ملک شام بھی قتل وغارت کی زد میں ہے۔ گزشتہ دو برس کے دوران یہاں ہونے والی خانہ جنگی میں ہلاکتوں کی تعداداسّی ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہاں نہ تو خانہ جنگی رُکنے کا امکان نظر آرہا ہے اور نہ ہی اس کے مسائل کے سیاسی حل کا۔ باغیو ں کی طرف سے حال ہی میں دمشق یونیورسٹی پر مارٹر حملہ اس تلخ حقیت کی نشاندہی کرتا ہے کہ متحارب قوتوںکے نزدیک اپنے عزائم پورے کرنے کے لیے انسانی جانوں اور انسانی اقدار کی کوئی وقعت نہیں۔ شام کی مسلح افواج اور باغیوں کے پاس جدید اسلحے کی کمی نہیں اور اکثر عام شہری اس لڑائی میں دوطرفہ فائرنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے جان بچانے کے لیے قریبی ممالک میں پناہ لینے کے لیے ہجرت کررہے ہیں۔ اس وقت اکثر ممالک بشار الاسد کی مذمت کررہے ہیں لیکن اُسے ایران اور روس کی پشت پناہی حاصل ہے۔ فی الحال وہ مضبوطی سے اپنی جگہ پر قائم ہے کیونکہ اُس کی مخالف قوتیں یکسو نہیں ہیں۔ اس افراتفری کے نتیجے میں شام میں انتہا پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔ تمام شکست خوردہ آمر حکمرانوں میںایک قدرِ مشترک ہے۔ یہ تمام نظریات کے اعتبار سے سیکولر تھے اور اُنھوںنے اسلامی جماعتوںکو سختی سے دبائے رکھا۔ جب یہ آمر منظرِ عام سے ہٹائے گئے یا کمزور پڑے تو اسلامی قوتیں ابھر کر سامنے آئیں اور اُنھوںنے اُن لبرل قوتوں کو‘ جو عرب دنیا میں بیداری کی لہر کا حصہ تھیں‘ ایک طرف دھکیل دیا اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے فساد شروع کر دیا۔ یہ محاذآرائی نوخیز جمہوریت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر کوئی فوجی طالع آزما طویل عرصے کے لیے ملک پر قبضہ کر سکتا ہے۔ اس سے ایک اور سبق ملتا ہے کہ نتائج پر غور کیے بغیر کسی آمر کو قوت استعمال کرتے ہوئے اقتدار سے ہٹانا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آمریت سے سبھی نفرت کرتے ہیںلیکن کیا اقوام عالم کسی آمر کا تختہ الٹنے کے بعد کے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ہیں؟فی الحال بیرونی دنیا کے تمام ممالک جو عراق اور لیبیاکے حالات کو دور سے دیکھ رہے ہیں، عرب دنیا کے حالات سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ’’تباہی کا راستہ خوش کُن التباسات سے عبارت ہوتا ہے۔‘‘ غیر ملکی مداخلت کے پیچھے کارفرما نیّت اور ارادے قابلِ تعریف نہیںہوتے۔ عراق پر مغربی افواج کے حملے کی اُس وقت یہ وجہ بیان کی گئی کہ وہاں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں جو دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔ لاکھوں جانیں ضائع کرنے کے بعد بھی وہ ہتھیار نہ ملے۔ پھر دنیا کو علم ہوا کہ عراق پر حملے کا اصل مقصد عوام کو صدام حسین کی آمریت سے نجات دلانا نہیں بلکہ عراق کے تیل پر قبضہ کرنا تھا۔ یہی مقصد اب لیبیا میں بھی نظر آرہا ہے۔ تیل کی دولت سے مالا مال یہ دونوں ریاستیں اب انتہا پسند گروہوںکے رحم و کرم پر ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ حالیہ تجربات کے بعد ’’تحفظ کے حق‘‘ کے تصور پر نظرثانی کی جائے جس کے تحت بیرونی ممالک کسی ملک کے شہریوں کو آمر حکمرانوں سے بچانے کے لیے یک طرفہ طور پر کارروائی کر سکتے ہیں‘ کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ طاقت کے استعمال سے کسی حکمران کا تختہ الٹنا آسان ہے لیکن اس کے بعد آئینی طور پر پُر امن انتقالِ اقتدار کا مرحلہ طے کر نا دشوار ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ صدر اُوباما نے عراق اور افغانستان سے سبق سیکھ کر شام میں براہ ِ راست مداخلت کرنے سے احتراز کیا ہے؛ اگرچہ اس کے حلیف ممالک فرانس، برطانیہ اورترکی کی طرف سے اس کے لیے دبائو تھا۔ امریکہ نے شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل فراہم نہیں کیے تاکہ یہ ہتھیار انتہا پسند قوتوںکے ہاتھ نہ لگ جائیں اور وہ ان سے سول طیاروںکو نشانہ نہ بنا سکیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک آمر کو نکال دیا جائے تو اُس کی جگہ ایک اور آمر لے لیتا ہے، جیسے ایران میں شاہ ایران کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ملائیت قائم ہو گئی۔ اسی طرح عراق میں نورالمالکی حکومت پر تشدد کے الزامات ہیں؛ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ آمر حکمرانوں کو بلاروک ٹوک مسند ِ اقتدار پر فائز رہنے دیا جائے البتہ یہ تبدیلی غیر ملکی مداخلت کے بجائے داخلی طور پر ہونی چاہیے۔