عوامی بصیرت کا اظہار

گزشتہ پانچ برسوں میں اگر مجھے جمہوریت کے خلاف ہر شکایت سننے پر ایک ڈالر ملتا تو شاید میں بہت امیر تو نہ بن جاتا لیکن اس قابل ضرور ہوجاتا کہ لندن کے مہنگے ترین ہوٹل میں کھاناکھا سکتا ۔ بنیادی طور پر مشتعل قارئین اس طرح کا تبصرہ کرتے: ’’کیا یہ ہے وہ جمہوریت جس کی آپ کئی سالوںسے وکالت کرتے رہے ہیں ؟ہمیں مزید کتنی دیر تک آصف زرداری اور ان کی حکومت کو برداشت کرنا پڑے گا؟‘‘ جمہوری حکومت کے ستائے کچھ لوگ یہ تک کہنے پر مجبور ہو جاتے: ’’اس جمہوری حکومت سے تو آمریت بہتر ہے۔‘‘ میں ایسے افراد کو یقینا صبر کرنے کی تلقین کرتا تھا اور اس بات پر زور دیتا کہ اگر ملکی معاملات خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں تو اس کی بنیادی وجہ طویل آمریت ہے۔ میں اس بات پر بھی زور دیتا کہ یہ حکومت جس طرح کی بھی ہے ، جمہوری عمل کو جاری رہنا چاہیے اور اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنی چاہیے۔ میرا موقف ہوتا: ’’ہمیں کسی غیر جمہوری طاقت کی بجائے پاکستا ن کے لوگوں کو تبدیلی کا اختیار دینا چاہیے۔ کسی مداخلت کی بجائے بہتر ہے کہ حکومت ووٹ کی طاقت سے تبدیل ہو کیونکہ اس طرح کوئی بھی شہادت کا لبادہ اوڑھ کر اپنی نااہلی کو نہیں چھپا سکے گا۔‘‘ موجودہ انتخابات کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ میری رائے درست تھی۔ عوام نے ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا طاقتور اظہار کرتے ہوئے برج الٹ دیے ہیں۔ سابق مخلوط حکومت ختم ہو چکی ہے۔ یہ درست ہے کہ ایم کیو ایم اپنی قومی اسمبلی کی تمام نشستیں جیت چکی ہے لیکن اس کے ووٹ بنک میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک مرتبہ پھر پی پی پی میں مثبت اور تعمیر ی تصورات کا فقدان نظر آرہا ہے کیونکہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر قائم علی شاہ کو وزیر ِ اعلیٰ نامزد کر دیا ہے حالانکہ اُن کے سابق دور میں کراچی پر قیامت ٹوٹتی رہی۔ سابق حکمرانوں کا بوریا بستر گول کرنے کے علاوہ پاکستانی ووٹر نے بڑا واضح پیغام دیا ہے کہ اب وہ زمینوں کے مالک وڈیرے خاندانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ انتخابی حلقوں کو اپنی خاندانی جاگیریں سمجھ لیں۔ نتائج بتاتے ہیں کہ اس اسمبلی میں کھر اور گیلانی نہیں ہوںگے۔ ان کے علاوہ بہت سے طاقتور امیدواروں کو بھی جو پارلیمانی نشستوں کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے تھے‘ شکست کا مزہ چکھنا پڑا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کئی عشروں بعد ذوالفقار علی بھٹو کے خاندان کا کوئی بھٹو آج کسی بھی اسمبلی میں نہیں ہے۔ جمہوریت کے ناقدین کا ایک اور اعتراض یہ ہوتا تھا: ’’آپ ناخواندہ ووٹروںسے کیسے توقع کرتے ہیں کہ وہ عقل مندی سے ووٹ دیںگے؟دیہاتیوں کے ووٹ تو اپنے چودھری کے لیے ہوتے ہیں۔‘‘ تاہم اس مرتبہ پاکستانی عوام نے ان ناقدین کا منہ بھی بند کر دیا ہے۔ اس مرتبہ چودھری کو ووٹ نہیں ملے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی اکا دکا حلقے میں دھاندلی ہوئی ہو ، مگر گیارہ مئی کو ہونے والے انتخابات مجموعی طور پر منصفانہ ہوئے ہیں۔ رائے دہندگان نے جو اس مرتبہ نام نہاد سیاسی پنڈتوںکے تمام مفروضے غلط ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے، نہایت دانائی کا ثبوت دیتے ہوئے منقسم مینڈیٹ کا خدشہ درست ثابت نہیں ہونے دیا کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ ایسی حکومتیں کمزور ہوتی ہیں ، اس لیے وہ ملکی و غیرملکی عناصر کی بلیک میلنگ کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک جماعت، پی ایم ایل (ن) کو حکومت سازی کے لیے اکثریت دے دی ہے۔ گزشتہ چند ایک انتخابات میں ووٹنگ کا ٹرن آئوٹ کم ہوتا جا رہا تھا، چنانچہ جمہوریت کے ناقدین سوال اٹھاتے تھے کہ ایسی حکومت کی کیا ساکھ ہو سکتی ہے جو کل ووٹوں کے نصف سے بھی کم حاصل کر کے منتخب ہوئی ہو۔ تاہم اس مرتبہ ووٹروں کا ٹرن آئوٹ ساٹھ فیصد تک رہا۔ انہوں نے حکومت کو’’درکار ساکھ‘‘فراہم کر دی ہے۔ 1970ء کے بعد پہلی مرتبہ عوام میں تبدیلی کا جوش وجذبہ دیکھنے کو ملا۔ تبدیلی کے نعرے نے یقینا زیادہ لوگوں کو گھر سے نکل کر ووٹ ڈالنے پر آمادہ کیا۔ اس بات پر پی ٹی آئی داد کی مستحق ہے۔ عمران خان نے نوجوانوں کو جو عام طور پر سیاسی عمل سے گریز کرتے تھے، مہمیز دی اور وہ ووٹ ڈالنے کے لیے قطاروںمیں کھڑے دیکھے گئے۔ ان عوامل نے جمہوریت کو اس وقت تقویت دی جب یہ بہت سے الزامات کی زد میںتھی۔ اگر ووٹروں کی ترجیحات کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں تقریباً ایک عشرے سے اُن پارٹیوں کو پذیرائی مل رہی ہے جن کی جڑیں شہری علاقوں میں ہیں۔ پی پی پی پر چھاپ لگ چکی ہے کہ یہ دیہاتی علاقے کی جماعت ہے اور اس کا پیغام اسی طبقے کے لیے ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ جب وہ حکومت میں تھی تو اس کی زیادہ تر پالیسیاں دیہی ووٹر کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے تھیں۔ تاہم اس عمل کی اسے بھاری قیمت چکانا پڑی جب اس نے دیکھا کہ شہری علاقوں سے اس کا صفایا ہو چکا ہے۔ شہری علاقوں میں ووٹ بنک رکھنے والی جماعتوں کی تقویت کا باعث وہ درمیانہ طبقہ ہے (جو چاہے گائوں میں رہائش پذیر ہو) جو پاکستانی معاشرے میں ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ اس کے مطالبے جاگیردارانہ ذہنیت کے ترجمان نہیں بلکہ اسے بہتر انفراسٹرکچر، ملازمت، تعلیم، تفریح اور سکیورٹی کی ضرورت ہے۔ پی پی پی یقینا ان مطالبا ت پر کان دھرتی نظر نہ آئی جس کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑا۔ مذہبی جماعتوںکو بھی بہت کم ووٹ ملے ہیں۔ اس کی وجہ لوگوںکی عملیت پسندی ہے کیونکہ لوگ جان چکے ہیںکہ یہ مذہبی رہنما‘ ہو سکتا ہے اگلی دنیا کے لیے رہنمائی کر سکے لیکن اس دنیا کے امور جیسے معیشت، خارجہ پالیسی، تعلیم وغیرہ کے لیے انہیں زحمت نہ ہی دی جائے تو بہتر ہے۔ اس لیے جماعت ِ اسلامی اور جے یو آئی ایف کو پانچ فیصد سے زائد ووٹ نہیںملے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان انتخابات میں نظریات کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی نہ ہی ان میں کوئی دائیں اور بائیں بازو کی جماعتوں کا کوئی جھگڑا تھا۔ حتیٰ کہ پی ایم ایل (ن) بھی کئی معاملات پر دائیں بازو کے نظریات رکھتی ہے جبکہ پی پی پی غریب عوام کو اپنے پرچم تلے رکھنے کا دعویٰ کرتی رہی ہے؛ تاہم اب یہ اپنے بانیوں کے ان اصولوںسے بہت دور نکل چکی ہے۔ اگر ووٹ ڈالنے والوں کے رجحانات کو دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے نواز شریف کی حمایت کی ہے۔ اگرچہ اُن کے بہت سے انتخابی حریفوںنے ان کی بھارت نواز پالیسی پر تنقید بھی کی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی رائے دہندگان اب اپنے ہمسائے کے ساتھ دشمنی کی پالیسی سے تنگ آچکے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ نواز شریف کو زیادہ حمایت پنجاب سے ملی ہے حالانکہ ماضی میں پنجاب کشمیر کے ساتھ قربت کے حوالے سے بھارت کے لیے سخت موقف رکھتا تھا۔ انتخابات سے پہلے ایک اور رائے تھی کہ پی پی پی اور اے این پی کو ہمدردی کا ووٹ ملے گا کیونکہ وہ طالبان کے بے رحم نشانے پر ہیں؛ تاہم ایسا لگتا ہے کہ لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ سابق حکومت کی ان دہشت گردوںکے حوالے سے بنائی گئی پالیساں ناکام ثابت ہوئیں۔ چنانچہ اب وہ ان کی طرف مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ میں اسے غلطی کے مترادف سمجھتا ہوں ، لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے۔ میں اگرچہ نواز شریف سے بہت سے معاملات میں اختلاف رکھتا ہوں، لیکن مجھے خوشی ہے کہ اُن کو اچھا مینڈیٹ ملا ہے اور امید ہے کہ وہ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کو درپیش مسائل کا حل تلاش کریںگے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں