تقریباً دو ہفتے پہلے نیویارک ٹائمز نے پہلے صفحے پر پاکستان ریلوے کے حوالے سے اپنے بیور و چیف ڈیکن والش کی تیار کردہ ایک رپورٹ شائع کی۔ مسٹر والش نے‘ جن سے میری اچھی دوستی ہے اور وہ ان انتہائی باخبر صحافیوںمیںسے ایک ہیں جو پاکستان کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں، یہ رپورٹ پشاور سے لے کر کراچی تک اپنے ریلوے سفر اور ا س دوران ہونے والے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں لکھی ہے۔ یہ پر لطف واقعات او ر ہمدردی کے جذ بات کے ساتھ ساتھ سفر کے مختلف رنگ لیے ہوئے ہے۔ اُنہوںنے ایک ماہر ادیب کی طرح ایک سفر کو پاکستان کی علامتی پہچان بنا دیا ہے۔ میںنے ان کی رپورٹ بڑی دلچسپی سے پڑھی کیونکہ میںکئی برسوں سے پاکستان ریلوے کو زوال پذیر ہوتا اپنی آنکھوںسے دیکھ رہا ہوں۔ میںنے اپنے کیرئیر کا آغاز ساٹھ کی دہائی میں پاکستان ریلوے کے فنانس کے شعبے میں ملازمت سے کیا تھا۔ اُس وقت لاہور سے لے کر خانیوال تک گاڑی کو بجلی کا انجن کھینچتاتھا اور کراچی سرکولر ٹرین کا آغاز کیا جانا تھا؛ تاہم بعد میں حالات اس قسم کے ہوگئے کہ کراچی سرکولر ریلوے کو بند کرنا پڑا جبکہ خانیوال سے آگے ٹرین کو بجلی سے نہ چلایا جا سکا۔ اس ضمن میں ایک اور حقیقت کو مد ِ نظر رکھیں کہ آزادی کے بعد سے ہم نے ریلوے ٹریک میں ایک میل کا بھی اضافہ نہیں کیا ۔ جب ہم لاہور میں سرخ اینٹوںسے بنی ریلوے ہیڈ کوارٹر زکی شاندار عمارت میں داخل ہوتے تو یہ گمان بھی نہ گزرتا کہ یہ ادارہ آخری سانسیں لے رہا ہے کیونکہ سینئر افسران میوگارڈنزمیں، جس کی سڑکوں پر خوبصورت درخت تھے اور جس کا بجلی کا اپنا نظام تھا،وسیع وعریض گھروں میں بڑے ٹھاٹھ سے رہتے تھے۔جب میںنے عہدے میں ترقی کی تو مجھے اتنا بڑا گھر ملا کہ میں اس سے پہلے یا بعد میں اتنے بڑے گھرمیں نہیں رہا تھا۔ اس کالونی کے کلبوںمیں افسروں کے لیے تیراکی، ٹینس اور گالف کی سہولتیں مفت تھیں۔اپنے عروج کے دور میں مسافروں او ر سامان کی ٹرانسپورٹ پر پاکستان ریلوے کی اجارہ داری تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میںنے متعدد مرتبہ اے سی پارلر میں سفر کا لطف اٹھایا تھا۔ صاف ستھری گاڑیاں وقت پر چلتی تھیں اور ان کا نظام نہایت عمدگی سے چل رہا تھا، یقینا باقی ملک کا نظام بھی اُس وقت ایسا ہی تھا۔ پاکستان ریلوے ایوب خان کے دور میں اُس وقت زوال پذیر ہونا شروع ہو ئی جب صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا ) سے تعلق رکھنے والے ٹرک مالکان کی لابی نے حکومت کو سڑکوں کی تعمیر پر زیادہ وسائل مختص کرنے کے لیے قائل کر لیا۔ اس طرح ریلوے کی مسافروں اور سامان کی ترسیل کی اجارہ داری کو ٹرکوں کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے جب ریلوے کی اجارہ داری تھی تو کاروباری افراد کو ریلوے کے افسروں کی منتیں کرنا پڑتیں یا رشوت دینا پڑتی (اکثر دونوں حربے آزمانا پڑتے ) تاکہ وہ سامان کے لیے ریلوے ویگن بک کرا سکیں ، لیکن ٹرکوں نے ان کاروباری افراد کو جو سہولت بخشی اُس کا ریلوے میں خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ ریلوے کے تابوت میںآخری کیل ضیا دور میں ٹھونکی گئی جبکہ پہلی این ایل سی (نیشنل لاجسٹک سیل ) نے ٹھونکی۔ این ایل سی نے دیوہیکل ٹرک خریدے ۔ آج یہ ٹرک ختم ہو چکے ہیں لیکن این ایل سی اب بھی سرکاری سامان کی ترسیل کا کام کرتی ہے۔ ریلوے کو مسافر ٹرینوںمیں خسارے کا سامنا کرنا پڑتاہے لیکن سامان کی ترسیل میں ہونے والا منافع اس کمی کو پورا کر دیتا ہے۔جب پاکستان ریلوے سے سامان کی ترسیل ٹرک ٹرانسپورٹ کے پاس چلی گئی تو مسافر گاڑیاں بھی متاثر ہونا شروع ہو گئیں۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ حکومت ریلوے انجنوں اور بوگیوں میں سرمایہ کاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ ا س طرح گاڑیوں کی کمی واقع ہوئی اور خسارہ مزید بڑھا۔ ایک منافع بخش ادارہ اب صرف امدادی رقوم کے سہارے اپنی سانس کی ڈوری باقی رکھے ہوئے ہے۔ دوسرے ممالک بھی اپنے ریلوے کو امدادی رقوم فراہم کرتے ہیں لیکن اس کی وجوہات کچھ اور ہوتی ہیں۔دنیابھر میں ریلوے کو سستا ذریعہ سفر سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ماحول دوست بھی ہے۔ فرانس میں دنیا کا بہترین ریلوے کا نظام ہے اور وہاں اسے قومی بجٹ سے رقم دی جاتی ہے۔ انڈیا میں دنیا کا سب سے بڑا ریلوے کا نظام ہے ؛ تاہم وہاں وہ منافع میں جارہا ہے۔ نظام میں خرابیوں کے علاوہ پاکستان ریلوے کو دوسرے ریاستی اداروںکی طرح بدعنوانی اور نااہلی کی دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ ریلوے میں ملازمت کے دوران جب میں ایک افسر تھا، میرے بہت سے ماتحت ملازمین کے گھر نہایت رئیسانہ انداز سے سجے ہوئے تھے اور وہ میرے گھرسے بہت بہتر تھے۔ اس کے علاوہ ریلوے میں ضرورت سے زیادہ بھرتی بھی اس کی رگوںسے خون نچوڑتی رہی۔ ایک حوالے سے ریلوے کی تباہی دوسرے ریاستی اداروں کی عکاسی کرتی ہے۔ جب تک ان کے پاس اجارہ داری ہوتی ہے، وہ صارفین سے منتیں بھی کراتے ہیں اور اُن سے رشوت بھی لیتے ہیں، لیکن جیسے ہی اُنہیں کسی مسابقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اُن کی نبض ڈوب جاتی ہے۔ پھر اُن کو زندہ رکھنے کی تمام تر ذمہ داری ٹیکس دہندگان کے کندھوںپر ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستان سٹیل ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی یونٹ ہے۔ جب تک اس کی اجارہ داری تھی ،اس نے خوب منافع کمایا، لیکن جب بین الاقوامی معاہدوں کے تحت ہمیں درآمدشدہ لوہے پر سے ڈیوٹی ختم کرنا پڑی تو پاکستان سٹیل کی بنیادیں ہل گئیں۔ تمام تر کوششوںکے باوجود یہ ابھی تک اپنے پائوں پر کھڑا نہیںہوسکا ۔ جب میں اس کا فنانس ڈائریکٹر تھا، مجھے یاد ہے کہ یہ ادارہ جسے ہم زندہ رکھنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے تھے، کس بحران کا شکار ہے۔ہمیں بنکوں اور وزارت ِ مالیات کے ساتھ بہت سے مذاکرات کرنا پڑتے تاکہ اس ادارے کو جو سفید ہاتھی بن چکا تھا زندہ رکھ سکیں۔ اس کی بحالی پر اربوں روپے صرف کیے جاچکے ہیں، لیکن نتیجہ وہی صفر۔ کیا رقم کے اس ضیاع پر کوئی احتساب ہونا چاہیے یا نہیں؟ پی آئی اے اب بے یقینی کی ہوائوں کے دوش پر ہے۔اس کا سنہرا دور وہ تھا جب ملکی پروازوںپر اس کی اجارہ داری تھی۔ اس کے علاوہ سیاسی مداخلت بھی اداروں کا کباڑا کر دیتی ہے ۔ سابق حکومت نے پی آئی اے کے سی ای او کو حکم دیا تھا کہ وہ اس ادارے میں پارٹی کارکنوں کو بھرتی کرے۔ اس طرح سٹاف کے حوالے سے پی آئی اے ’’سب پر بھاری ‘‘ ہے۔ اب حکومت کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ ان تینوں اداروںکی بحالی کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس کا واحد حل ان کو نجی تحویل میں دینا ہے لیکن ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ ان تینوں اداروںمیں یونینز بہت مضبوط ہیں اور جو بھی انہیں خریدے گا وہ عذاب کو دعوت دے گا۔ ان میں ملازموںکی تعداد کم کرنے کا سیاسی انجام اچھا نہیںہوگااور نواز شریف یہ بات جانتے ہیں۔ بہرحال ،یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا اب بھی اعلیٰ عدلیہ خسارے میں جانے والے اداروں کی فروخت کو اسی طرح روکتی ہے جیسے اس نے پاکستان سٹیل کو روکا تھا ؟ پس ِ تحریر: گیارہ مئی سے دو دن پہلے نیویارک ٹائمز کے بیوروچیف ڈیکن والش کا ویزہ بعض نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اگر گزشتہ نو برسوںکے دوران ان کی پاکستان کے لیے لگن اور جان کاری کا جذبہ دیکھیں کہ انہوں نے اس ملک کے لیے رپورٹنگ کا کیا معیارقائم کیا ہے تو یہ ایک افسوس ناک فیصلہ تھا۔ کیا نئی حکومت اس پر نظر ِ ثانی کرے گی؟