لوممبا کی ڈرامائی کہانی

مطالعے کا ذوق اورنوآبادیاتی نظام کے بعد افریقہ میں پیش آنے والے حالات و واقعات پر نظر رکھنے والوں کے لیے پیٹرس لوممبا ( Patrice Lumumba)کا نام اجنبی نہیںہے۔ جب 1960ء میں بلجیم کو کانگو پر سے تسلط ختم کرنا پڑا تو لوممبا اس کے پہلے وزیر ِ اعظم بنے ۔ تاہم مالی وسائل اور تجربے کی کمی کی وجہ سے وہ ریاست کے امور نہ سنبھال سکے اور اس میںشورش پھیل گئی۔ ملک کے معدینات سے بھر پور صوبے کاتنگا (Katanga) کو ملک سے الگ کرنے کے لیے بلجیم کی ایک کان کنی کی فرم نے حکومت کی پشت پناہی سے علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دی ۔ حال ہی میں لندن میں دکھائے جانے والے ایک ڈرامے ’’A season in the Congo‘‘ میں ان واقعات کو بہت عمدگی سے دکھایا گیا ہے۔ لند ن کے ینگ وک تھیٹر میں پیش کیے جانے والے اس ڈرامے میں لوممبا کا کردار ایک ایسے رہنما کا ہے جواپنے وطن کانگو میں استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد کررہا ہے۔ اس نے اپنے وطن کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے مغربی طاقتوںکے خلاف لڑائی کی۔ جرأت مندانہ کردار کی وجہ سے اس کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ وہ ری پبلک آف کانگو کے وزیر ِ اعظم بنے تاہم فوج نے ان کا تختہ الٹ دیا اور اس کے بعد قائم ہونے والی حکومت نے جس کی ہمدردی علیحدگی پسندوںکے ساتھ تھی، اُنہیں گرفتار کر لیا اور فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کرکے گولی مار دی۔ آج بھی بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ کانگو کی فوج کے ہاتھوں ان کے قتل کے پیچھے دراصل سی آئی اے اور برطانیہ کی MI6 کا ہاتھ تھا۔ دواپریل 2013ء کو بی بی سی کی آن لائن نیوز میںاس کی سکیورٹی کے معاملات کو کور کرنے والی نامہ نگار گورڈن کوریا نے لکھا: ’’ہائوس آف لارڈ ز کی ایک رکن Lea نے اپنی وفات سے تھوڑی دیر پہلے لندن ریویو آف بکس میں لکھا تھا کہ ڈیفن پارک نے جو MI6 کے سابق افسر تھے، اُنہیں بتایا کہ پیٹرس لوممبا کی موت میں برطانیہ کا ہاتھ تھا۔ لوممبا کو جو ری پبلک آف کانگو کے پہلے وزیر ِ اعظم تھے، اقتدار سنبھالتے ہی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ جب کاتنگا صوبے میں علیحدگی پسندوں نے تحریک شروع کی تو فوج میں بھی بغاوت ہوگئی۔ اس انتشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امن قائم کرنے کے بہانے، بلجیم کے فوجی دستے پھر واپس آگئے۔ اس پر پیٹرس لوممبا نے ایک انتہائی قدم اٹھایا اور سوویت یونین کو مدد کے لیے پکارا۔ اس بات نے واشنگٹن اورلندن کو خوفزدہ کر دیا کیونکہ اُنہیں اندیشہ تھا کہ سوویت یونین افریقہ میں اُسی طرح قدم جمالے گا جس طرح اس نے کیوبا میںکیا تھا۔ 1960ء میں وائٹ ہائوس میں صدر آئزن ہاور نے نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلایا اور یہ مسئلہ سامنے رکھا۔ اس کونسل میں امریکی صدر نے اُس وقت کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر کو مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ وہ لوممبا کو ختم کرنا چاہتے ہیں( امریکی صدر نے لفظ eliminate استعمال کیا تھا)۔ ڈرامے میں لوممبا کا کردار Chiwetel Ejiofor نے بڑے طاقتور جذباتی انداز میں ادا کیا ہے۔ کانگو کا بہادر رہنما لوممبا بہت جذباتی، قوم پرست اور مثالیت پسند نظر آتا ہے۔ آخری منظر میں ، جب بلجیم کے فوجی دستوں کو ملک سے نکالاجا چکا ہوتا ہے، اُسے فوج کے مطالبات تسلیم کرنے پڑتے ہیں۔ وہ کامریڈ مبوتو (Mobutu) کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیتا ہے۔ اس کے بعد ہماری جانی پہچانی کارروائی عمل میں آتی ہے اور 1961ء میں وہی آرمی چیف شب خون مارتا ہے اور لوممبا کو معزول کر دیتا ہے۔ وہ آرمی چیف بلجیم اور امریکہ کے تعاون سے 1965ء سے 1997ء تک کانگو پر حکومت کرتا ہے۔ اس دوران وہ بے تحاشا دولت اکٹھی کرتا ہے اور اپنے ملک میں بدعنوانی کی علامت بن جاتا ہے۔ ڈرامے میںکانگو کے بحران میں اقوام ِ متحدہ کا کردار بھی افسوس ناک ہے۔ عام طور پر غیر جانبدار سمجھے جانے والے سیکرٹری جنرل ڈیگ ھیمر سک جولڈ (Dag Hammarskjold) اصل میں استعماری طاقتوں کے مفاد میں کام کررہے تھے۔ جب معدنیات سے بھرے ہوئے صوبے کاتنگا میں غیر ملکی فسادی طاقتوںنے اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کی تو اقوام ِ متحدہ کے دستے خاموش تماشائی بن کر کھڑے رہے۔ لوممبا مسٹر ڈیگ سے شکوہ کرتا ہے لیکن سیکرٹری جنرل اُسے صبر کرنے اور موقع شناسی کا مشورہ دیتے ہیں‘ لیکن کانگو کے رہنما میں یہ دونوں ’’خوبیاں ‘‘ نہیں ہوتیں۔ چند ماہ میں سیکرٹری جنرل اسی خطے میں پراسرار طور پر ایک فضائی حادثے میںہلاک ہو جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوںکو یقین تھا کہ جہاز کو زمین سے کیے گئے فائر سے گرایا گیا تھا؛ تاہم سویڈن سے تعلق رکھنے والے اس سفارت کار کے قتل کی تفصیلات سے مغربی طاقتوںنے عوام کو بے خبر رکھا۔ 1864ء میںبرلن کانفرنس (جسے کانگو کانفرنس بھی کہتے ہیں) میں افریقہ کے بہت سے حصوں کو یورپی طاقتوںنے باہم تقسیم کرلیا۔ صرف ایک ملین مربع میل کا علاقہ جو دریائے کانگو کے ساتھ واقع تھا، لیوپولڈ دوم(بلجیم کا بادشاہ) کے ذاتی تصرف میںدے دیا گیا۔ اس کانام ’’کانگو کی آزاد ریاست ‘‘رکھا گیا۔ مقامی آبادی پر جتنا ظلم اور جبر اس ریاست میں روا رکھا گیا، نوآبادیاتی دور کی پوری ظالمانہ تاریخ بھی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حتیٰ کہ اُس دور میں بھی معمولی معمولی باتوں پر نہایت سفاکی سے ہونے والی ہلاکتوںاور تشدد کی سامنے آنے والی کہانیوںنے دنیا کو لرزا دیا۔ 1908ء میں بلجیم نے اس ریاست پر قبضہ کرکے اس کا نام ری پبلک آف کانگو رکھا۔ تاہم یہ دکھاوے کی تبدیلی تھی کیونکہ عوام کی حالت نہ بدلی۔ وہ خوفناک تشدد اور جبر کا سامنا کرتے رہے۔ اگرچہ اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ بلجیم نے وہاں لاکھوں افراد کا خون بہایا۔ اس پس منظر کی وجہ سے یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ لوممبا استعماری قوتوں، خاص طور پر بلجیم کے اتنا خلاف کیوں تھا۔اس ڈرامے میں یورپی سفید فاموں کا کردار بھی سیاہ فام اداکاروںنے ادا کیا تھا اور اُنھوںنے اپنے چہروں پر سیہہ (کانٹوں والا چوہا) جیسا ماسک چڑھایا ہوا تھا ۔ جب کانگو کے بحران پر بات کرنے کے لیے امریکی اور روسی نمائندے ملے توان کے پیچھے سفید گھوڑوں کی کھوپڑیاں تھیںاور جب وہ بولتے تھے تو دراصل گھوڑوںکے جبڑے حرکت کرتے تھے۔ A season in the Congo کا ایکشن بہت تیز ہے اور اس کی موسیقی اور رقص بھی بہت جاندار ہیں۔ مختلف مذہبی رسومات کی ادائیگی مقامی زبان میںکی جاتی ہے۔ آخری منظر، جس میں فوج کی طرف سے شب خون مارا جاتا ہے اور پھر لوممبا فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے، بہت متاثر کن ہے۔ یہ ڈرامہ یونانی ٹریجڈی کی مانند ہے‘ ناظرین کو اس کے انجام کا علم ہوتا ہے۔ گزشتہ چھ دہائیوںسے ہم یونانی ٹریجڈی کے بہت سے مناظر دیکھ رہے ہیں جب طاقتور قوم پرست رہنما ظلم کی طاقتوںکے سامنے کھڑے ہوتے ہیں لیکن ایک ایک کرکے وہ تباہی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ اس میں ان کے دشمنوںکے علاوہ ان کی اپنی خودپسندی کا بھی دخل ہوتا ہے۔ اکثر اقتدار سنبھالنے کے بعد دوسروںکی بدعنوانی اور اپنی نااہلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خود بدعنوان نہ ہوںلیکن وہ عالمی سرمایہ دارانہ طاقتیں ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے انہیں راستے سے ہٹا دیتی ہیں اور اگر وہ مزاحمت کریں تو اُنہیں پائوںتلے کچل دیا جاتا ہے۔ اس ڈرامے کو ایمی کیسائر (Aime Cesaire) نے 1964ء میں لکھا تھا اور اسے اب پہلی مرتبہ انگریزی میں پیش کیا گیاہے۔ یہ ڈرامہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی نہ کسی شکل میں نوآبادتی نظام آج بھی جاری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں