ورلڈ کپ اور الزامات

قطر کا حکمران خاندان اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی ناانصافی پر سخت رنجیدہ ہو گا کیونکہ اُس نے سخت کوشش سے 2022ء کے فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق حاصل کیے اور پھر اس کے لیے تیاریاں بھی کیں، لیکن اب اس چھوٹی سی ریاست پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ اس نے فٹ بال کے عالمی مقابلوں کی میزبانی کے حقوق ''خریدے‘‘ تھے۔ 2010ء میں فیفا کی جانب سے قطر کے اکثریتی ووٹوںکے ساتھ 2022ء کے ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق حاصل کرنے کے بعد میڈیا اور کچھ افراد کی طر ف سے الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا کہ اس فیصلے کے پیچھے رشوت کارفرما ہے۔ ان الزامات کا کسی نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا تھا؛ تاہم سنڈے ٹائمز نے گزشتہ ہفتے ایک سنسنی خیز کہانی شائع کی کہ مذکورہ ملک نے یہ حقوق حاصل کرنے کے لیے کئی مندوبین کو رقم دی۔ اخبار نے ثبوت دینے کے لیے لاتعداد ای میلز بھی شائع کی ہیں۔ مبینہ طور پر اس سکینڈل کا مرکزی کردار اس عرب ملک کا ایک باشندہ محمد بن حمام (Mohammed Bin Hammam) ہے‘ جس نے پانچ ملین ڈالر کا فنڈ استعمال کرتے ہوئے ووٹ خریدے۔ اس نے ''ووٹوں کی تلاش‘‘ میں دنیا کے مختلف ممالک کا سفر بھی کیا۔ 
ان واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس متنازع فیصلے کو منسوخ کرکے ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے ملک کے چنائو کا عمل دوبارہ کیا جائے۔فٹ بال مقابلوں کا انعقاد کرانے والے ادارے کے معاملات خاصے غیرشفاف محسوس ہوتے ہیں۔ وہ فی الحال اس مطالبے پر کان دھرتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے صدر مسٹر سپ بلیٹر (Sepp Blatter) نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ فیفا جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرنے کا روادار نہیں‘ وہ ایک سال کے عرصے پر محیط ایک انکوائری رپورٹ کا انتظار کریں گے۔ یہ رپورٹ اسی ماہ پیش ہونی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس میں سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کا حوالہ شامل نہیں کیا جائے گا۔ اگر رپورٹ میں قطر کو بے قصور ٹھہرایا گیا تو اس پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔ کہا جائے گا کہ رپورٹ کی تیاری کے لیے دستیاب مواد (مذکورہ رپورٹ) سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ 
اس معاملے پر شروع سے نظر دوڑائیں تو ان الزامات پر کسی کو حیرت نہیں ہوتی۔ ایک تو قطر فٹ بال کی دنیا کا پاور ہائوس نہیں ہے (فیفا عالمی رینکنگ میں اس کا سوواں نمبر ہے) دوسری طرف موسم گرما میں شدید تمازت رکھنے والا یہ ملک فٹ بال کے اس انتہائی سنسنی خیز ٹورنامنٹ کے لیے قدرتی طور پر ناموزوں محسوس ہوتا ہے۔ محمد بن حمام کی طرف سے پیش کردہ ترغیبات کس قدر متاثر کن تھیں، اس کی ایک جھلک افریقہ کے ایک چھوٹے سے ملک سوازی لینڈ (Swaziland) کے مندوب کی طرف سے بھیجی گئی ای میل سے ملتی ہے۔ اس ای میل کا حوالہ روڈ لڈل نے ''دی سپیکٹیٹر‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں دیا ۔۔۔''میں سیاست سے ریٹائر ڈ ہو چکا ہوں، اس لیے مجھے رقم کی شدید ضرورت ہے۔ تقریباً تیس ہزار ڈالر سے کام چل جائے گا‘‘۔ اس معاملے میں ناقابل یقین حد تک اپنا دامن داغدار کرنے والی فٹ بال کی دنیا کی ایک قابل احترام شخصیت، مائیکل پلاٹینی بھی ہیں۔ وہ فرانس کے سابق فٹ بالر اور یو ای ایف اے (یونین آف یورپین فٹ بال ایسوسی ایشن) کے صدر ہیں۔ مسٹر پلاٹینی نے بھی قطر کو ووٹ دیا تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ 2010 ء کی رائے شماری سے دس دن پہلے اُنہوں نے قطر کے وزیر اعظم اور ولی عہد کے ساتھ Elysee Palace میں لنچ کیا تھا جبکہ اس موقع پر فرانس کے صدر نکولاس سرکوزی بھی موجود تھے۔ 
ہو سکتا ہے کہ قطر اور فرانس کے درمیان ہونے والے بہت سے تجارتی معاہدوں کا فٹ بال کی میزبانی سے کوئی تعلق نہ ہو لیکن تنقید کرنے والوں کے منہ بند نہیں کیے جا سکتے۔ قطر سپورٹس انویسٹمنٹ کمپنی ایک ریاستی ادارہ ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اس نے سرکوزی کی پسندیدہ فٹ بال ٹیم Paris Saint-Germain کی سرپرستی کرتے ہوئے ''ٹیلنٹ‘‘ کی تلاش میں بھاری رقم خرچ کی۔ مائیکل پلاٹینی کے بیٹے کو قطر کی کھیل کا سازوسامان تیار کرنے والی ایک کمپنی بردا (Burdda) کا سی ای او لگا دیا گیا۔ 
الزامات کا تسلسل قطر کے لیے ایک بری خبر ہے۔ اپنی تین لاکھ آبادی کے ساتھ یہ چھوٹی سی ریاست خطے اور خطے سے باہر ہائی پروفائل کردار ادا کرنے کی خواہش مند رہتی ہے۔ ایک مقبول ٹی وی چینل الجزیرہ قائم کرتے ہوئے اس نے اپنے طاقت ور عرب ہمسایوں کو بھی ناراض کر رکھا ہے۔ حال ہی میں اس نے گوانتاناموبے سے پانچ طالبان قیدیوں کے بدلے ایک امریکی فوجی کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا۔ ماضی میں بھی اس نے مشرق وسطیٰ میں ہونے والی کشمکش میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔ ایک چھوٹی اور ابھرتی ہوئی ریاست کی طرف سے دکھائی جانے والی اس غیرمعمولی فعالیت نے خطے کے کئی ممالک کی پیشانی شکن آلود کر دی۔ ان ریاستوں کے حکمران قطر کی طرف سے مصر کی اخوان تحریک کی حمایت پر خوش نہیں۔ ہو سکتا ہے جب قطر پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہو تو اس کے طاقتور ہمسائے خوشی محسوس کریں۔ 
حالیہ بحران کے گہرے ہوتے ہوئے سایوں میں قطر کی ''عالمی تنہائی‘‘ کی ایک بڑی وجہ کچھ اور معاملات بھی ہیں۔ فی الحال قطر نے پانچ سو ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ابھی شاہراہوں اور زیرِ زمین ریلوے کی تعمیر اور دیگر تعمیرات کے لیے پچیس بلین ڈالر خرچ کیے جانے ہیں۔ خرچ کی جانے والی یہ بھاری رقوم ایک طرف، اگر فیفا نے 2022ء کے ورلڈ کپ کے لیے دوبارہ رائے شماری کا اعلان کر دیا تو قطر کی مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔ دفاعی اقدامات کے طور پر اُنہوں نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ میڈیا ایک عرب ملک میں ورلڈ کپ کا انعقاد کیوں برداشت نہیں کرتا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کوئی سازش کارفرما نہیں، لالچ یا دیگر مقاصد ہوں تو اور بات ہے۔ بہرحال میڈیا پوری تندہی سے اس سارے معاملے کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ بہت جلد دیگر الجھے ہوئے سرے بھی سلجھ گئے تو پتہ چل جائے گا کہ جب قطر نے میزبانی کی پیش کش کی تو بہت سوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیوں نہیںکیا تھا اور یہ کہ اب اچانک کیا ہو گیا ہے کہ الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں