فلسطینیوں کے مصائب اور عالم ِ اسلام

آج کے مشرق ِ وسطیٰ میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے کی گئی کسی بھی حرکت کا جواب اسرائیل کی طرف سے پوری بربریت اور طاقت کے وحشیانہ استعمال سے دیا جائے گا۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ تین اسرائیلی نوجوان لڑکوں کو اغواکے بعد قتل کرنے کی حمایت نہیںکی جاسکتی لیکن اس کے جواب میں چھ فلسطینیوں کی بہیمانہ ہلاکت اور سینکڑوںکی گرفتاری یہاں کبھی نہ ختم ہونے والے تشدد کی نئی لہر ہے۔ بربریت کا تازہ ترین واقعہ ایک سترہ سالہ فلسطینی نوجوان محمد ابوخدیر (Mohamed Abu Khdeir)کا اغوا اور قتل ہے۔ اسے اسرائیلی فورسز کی طرف سے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس سے خطے میں پرتشدد کارروائیوںکا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجانے کا خدشہ ہے۔ 
چونکہ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان طاقت کا توازن نہیں پایا جاتا ، اسرائیل مہیب عسکری قوت رکھتا ہے، اس لیے ہمیشہ فلسطینی ہی زیادہ مصائب برداشت کرتے ہیں لیکن اسرائیل ہمیشہ خود کو مظلوم ثابت کرتا ہے۔ ان دنوں حریفوں کے درمیان عدم توازن کو دی گارڈین میں اپنے کارٹون میں سٹیوبیل(Steve Bell) اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ترازو کے ایک پلڑے میں تین تابوت اسرائیلی پرچم میں لپٹے ہوئے ہیں جبکہ دوسرے پلڑے میں لاتعداد فلسطینی تابوت ہیں لیکن اسرائیلی تابوتوں والا پلڑا بھاری ہے۔ اسی اخبار میں انشل فیفر (Anshel Pfeffer) کا مضمون ،''Israel's Fears Reawakened‘‘مغربی قارئین کواس بحران کے دوران اسرائیلی ذہنیت سے آگاہ کرتا ہے۔ اگرچہ مضمون نگار کے بہت سے خیالات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ الفاظ قابل ِ غور ہیں۔۔۔''کسی بھی اسرائیلی کے لیے سب سے ڈرائونی بات یہ ہے کہ اس کا بیٹا لاپتہ ہو، اس کے فون پر بیل جارہی ہو لیکن کوئی وصول نہ کررہاہو۔ اس سے اعتماد اور تحفظ کی وہ تمام دیواریں پاش پاش ہوجاتی ہیں جو اسرائیل نے اپنے شہروں کے گرد کھڑی کی ہیں۔ ایسے واقعات سے اسرائیلی قوم کی ذہن میں خوف نقب لگا کر داخل ہوجاتا ہے اور وہ سوچتے ہیں کہ ان کی ریاست میں، جہاں ان کی اکثریت ہے، کے پاس خوفناک فوجی طاقت اسی لیے ہے کہ ان کے بچوں کو اغوا اور قتل ہونے سے بچایا جائے ، اور اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آئے تو اس کا ایسا جواب دیا جائے کہ آئندہ ایسا کرنے سے پہلے دشمن سو بار سوچے۔اس پر کسی سیاسی دلیل کا اطلاق نہیںہوتا ۔ اسرائیلی فوج دنیا کی طاقت ور ترین افواج میں سے ایک ہے۔وہ علاقے کی ایک غالب قوت ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ اسرائیل اور فلسطین کی کشمکش میںکون درست ہے اور کون غلط، ایک خود مختار ریاست(اسرائیل) ایک محکوم آبادی( فلسطینی) کے ہاتھوں توہین اور زخم برداشت نہیںکرسکتی۔ آپ اسرائیل کو اچھا سمجھیں یا برا، جب تک آپ اس حقیقت کی تفہیم نہیں کرتے، آپ اس کے معاشرے اور اس کے رد ِ عمل کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ ہم پاکستانی ان معاملات کو نہیں سمجھ سکتے۔ہولو کاسٹ (یہودیوں کا نازی فورسز کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر قتل) اور صدیوں کے جبر نے یہودیوں کی ذہنیت کو جس طرح ٹکسال کیا ہے، اس کی وجہ سے وہ فلسطینیوں اور باقی دنیا کے بارے میں مخصوص تعصب سے باہر نہیں آسکتے ۔ یہ ذہنیت جہاں جبر پر آمادہ ہے، وہیں اس کے خمیر میں خوف بھی پنہاں ہے۔ اسرائیلی ہمیشہ خوف اور عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں۔ چونکہ یہ ریاست ہرطرف سے دشمنوں میں گھری ہوئی ہے، اس لیے شہریوںکو خوف سے نجات دلانے کے لیے اس کے رہنما اپنے ہمسایوں سے آہنی ہاتھوںسے نمٹتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ اُنہیںدباکررکھیں۔ اس لیے فلسطینیوں کی طرف سے اٹھائے گئے کسی بھی قدم کا جواب پوری قوت سے دیا جاتا ہے۔ اکثر ان دونوں اقدامات میں کوئی توازن نہیں ہوتا۔ 
مسلم ممالک اور دیگر ممالک میںرہنے والے مسلمان یک زبان ہوکر اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ اس نے فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ جمارکھا ہے۔ زیادہ تر مسلمان اسرائیل کو غیر قانونی ریاست اور نوآبادیاتی دور کا تسلسل دیکھتے ہیں۔ تاہم دشمنوں میں گھرے ہونے اور نامساعد حالات کے باوجود، اسرائیل نے توسیع پسندی کی پالیسی جاری رکھی ۔ اس کی دولت اور طاقت میں اضافہ ایک حقیقت ہے ۔ بہت سے افراد اس کی دولت اور طاقت مغرب ، خاص طور پر امریکہ کی غیر مشروط حمایت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک ناقابل ِ تردید حقیقت ہے کہ اسرائیلی خود بھی ذہین اور محنتی لوگ ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہودی امریکیوں اور مغربی اقوام کے زیادہ قریب ہیں، اس لیے وہ عربوں کی نسبت اپنا کیس بہتر طور پر پیش کرتے ہوئے ہمدردی اور حمایت حاصل کرلیتے ہیں۔ 
اب جبکہ مشرق ِ وسطیٰ کے زیادہ تر حصوں میں تشد د نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں،مختلف ریاستوں میں جنگجو دستے حکومتوں کو چیلنج کررہے ہیں، افراتفری کے اس دور میں اسرائیل واحد مستحکم ریاست دکھائی دیتی ہے۔ امریکہ کے لیے اس خطے میں، جہاں دنیا کی اس واحد سپر پاور کا بہت سا مفاد وابستہ ہے، اسرائیل ایک مضبوط اتحادی ہے۔اس ریاست میں پینٹاگان نے ہتھیاروںکی ایک بھاری کھیپ رکھی ہوئی ہے تاکہ خطے میں اٹھنے والے کسی بھی بحران سے فوری طور پر نمٹا جاسکے۔ اہم بات یہ کہ اگر اسے کوئی خطرہ محسوس ہو تو اسرائیل بھی یہ ہتھیار استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کی ایک بڑی وجہ واشنگٹن کی سیاست ، فنانس اور میڈیا میں موجود یہودی لابی ہے۔ حقیقت اس سے قدرے مختلف ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ کچھ امریکی ریاستوں، جیسا کہ فلوریڈا اور نیویارک، جہاں انتخابی معرکوں میں کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے، یہودی ووٹ اہمیت رکھتا ہے، لیکن اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کے پروٹسٹنٹ عیسائی بھی اسرائیل کے زبردست حامی ہیں۔ اس لیے امریکی سیاست دان ان دونوں چھوٹے لیکن انتہائی منظم ووٹنگ بلاکس کو ناراض کرنے کاخطرہ مول نہیں لے سکتے۔ 
یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی عشروںسے یہودیوں نے سائنس اور فن کے میدان میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس کا ثبوت یہودیوں کی طرف سے جیتے گئے نوبل انعامات کی تعداد ہے۔ اس ذہانت اور تحقیق کی لگن نے اُنہیں عربوں اور دیگر مسلمانوں کی نسبت مغربی تہذیب کے زیادہ قریب کردیا ۔ مسلمانوں کو مجموعی طور پر پسماندہ اور پرتشدد افراد سمجھا جاتا ہے جو تیل اورانتہا پسندی کے سوا کچھ بھی پیدا نہیں کرتے ۔ افسوس، ہمارے اقوال اورا فعال مغربی دنیا کے اس تاثر کی نفی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے کہ فلسطینی موقف کو بہت کم حمایت کیوںملتی ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اُنہیں بارہاان کے عرب بھائیوں نے بھی نقصان پہنچایا ۔ اس کا ایک ثبوت جنرل سیسی کی طرف سے اس سرنگ کا بند کردینا ہے جس سے غزہ کو ضروریات ِ زندگی پہنچائی جاتی تھیں۔ عملی طور پر آج دو بڑے عرب ممالک، اسرائیل کے حامی ہیں۔ جب تک مسلمان صرف زبانی جمع خرچ سے کام لیتے رہیں گے، مغربی دنیا کبھی بھی فلسطینیوں کی داد رسی نہیں کرے گی اور نہ ہی اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ یا اس کی توسیع پسندی کے عزائم ختم ہوں گے۔ ہماری نعرے بازی یا سڑکوںپر ٹائر جلانے سے ان پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں