سری لنکا میں جمہوریت کی کامیابی

گزشتہ جمعہ کی صبح سری لنکا کے پہاڑی سلسلے، Knuckles، کے دامن میں واقع اپنے تنہاچھوٹے سے گھر میںسورہا تھا کہ آتش بازی نے مجھے جگادیا۔ فائرکریکرز اور آتش بازی صدارتی انتخابات میں مہندا راجاپاکسی کی شکست کا اعلان تھی۔ زیادہ تر غیر ملکی اور مقامی پنڈتوں کا خیال تھا کہ یہ انتخابات پرتشدد اور ہنگامہ خیز ثابت ہوںگے کیونکہ ان میں کانٹے کا مقابلہ دیکھنے آئے گا۔ اس کے علاوہ ان انتخابات میں حکمران خاندان کا بہت کچھ دائو پر لگا ہوا تھا۔ میں نے بھی ایک کالم میں ذکر کیا تھا کہ تامل اور مسلمان ووٹ کو دبانے کے لیے شمالی اور شمال مشرقی صوبوں میںتشدد کا خطرہ ہے۔
تاہم یہ تمام قیاس آرائیاں غلط ثابت ہوئیں اور سری لنکن الیکشن کمیشن نے پرامن انتخابات، جن میں ریکارڈ ٹرن آئوٹ رہا، کا انعقاد یقینی بنایا۔ راجا پاکسی ڈاک کے ذریعے ڈالے ووٹوں میں بھی ہار گئے، گو کہ شکست کا مارجن بہت کم تھا۔ عام طور پر ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں میں دھاندلی کا قوی امکان رہتا ہے لیکن یہاں پوسٹل بیلٹنگ میں دھاندلی کی کوئی شکایت سننے میں نہیں آئی۔ درحقیقت متھری سری سینا ڈالے گئے بارہ ملین ووٹوں میں کم از کم پانچ لاکھ ووٹوں کے واضح فرق سے جیت گئے ہیں۔ یہاں پندرہ ملین رجسٹرڈ ووٹ ہیں، جس میں سے بارہ ملین کاسٹ ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹرن آئوٹ بہت جاندار رہا۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ راجا پاکسی کو وسطی اور جنوبی علاقوں میں واقع بدھ مذہب کے اکثریتی اضلاع میں بدستور حمایت ملی ۔ یہ حمایت ان کے لیے مستقبل میں پھر ابھر کر آنے کاامکان روشن رکھے گی، خاص طور پر اُس صورت میں جب سری سینا کی کولیشن حکومت اچھی حکمرانی کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ایک عشرے سے اقتدار میں رہنے کے بعد راجا پاکسی اقربا پروری اور بدعنوانی کی وجہ سے بہت سے بدنام ہوچکے تھے۔ اُن کے بھائیوں میں سے تین حکومت میں شامل تھے۔ ان میں سے ایک بھائی، گوٹابیا(Gotabaya) کی عشرے تک ڈیفنس منسٹری میں موجودگی نے مہندا راجاپاکسی کو پرکشش اربن ڈویلپمنٹ کو کنٹرول کرنے کا موقع دیا۔ اس کے علاوہ صدر کا بیٹا، نامل، بھی رکن ِ پارلیمنٹ تھا۔افواہیں تھیں کہ اُسے صدر کے جانشین کے طور پر تیار کیا جارہا ہے۔ جنوب میں، جہاں ساحل کے قریب میرا قیام ہے، ہوٹل منیجروں سے لے کر ٹکا ٹک بنانے والے، سب اس خاندان کی طرف سے سمیٹی گئی دولت اور حاصل کی گئی جائیداد کی بات کرتے ہیں۔ 
کولمبو میںافواہیں گردش میں تھیں کہ حکومت نے بھاری کک بیکس کے بدلے بہت سے کمرشل منصوبوں کی منظوری دی ۔ ان میں سے ایک چارسوملین مالیت کا Casino تھا جسے ایک آسٹریلین ارب پتی بزنس مین ، جیمز پیکر ، نے قائم کرنا تھا، تاہم نئی حکومت کا کہنا ہے کہ اب یہ منصوبہ ختم کر دیا جائے گا۔ کچھ اور Casinosبھی منظوری کے مراحل میں ہیں لیکن قدامت پسند بدھ مذہب کے پیروکاروں کے اعتراض کے بعد اُنہیں بھی ختم کردیا جائے گا۔ اسی طرح کچھ ترقیاتی منصوبوں پر بھی نظر ِ ثانی کی جائے گی۔ اس وقت ملک بھاری قرضوں تلے دبا ہوا ہے۔۔۔ زیادہ تر قرضے چین سے حاصل کیے گئے ہیں۔ ان کا مقصد میگا پراجیکٹس ، جنہیں سابق صدر اپنی عظیم کامیابی بنا کر پیش کررہے تھے، کی تکمیل تھا۔ تاہم ان میں سے بہت سے منصوبے معاشی اعتبار سے ناقص ہیں۔مثال کے طور پر ایک ضلعی صدر مقام Hambantota میں، جو میرے مکان سے چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، ایک انٹر نیشنل ائیرپورٹ، کانفرنس سنٹر اور عالمی معیار کے کرکٹ اسٹیڈیم بنائے گئے۔ اس کے علاوہ بہت سے فلائی اوورز بھی دکھائی دیتے ہیں، کئی ایک فیکٹریاں بھی انڈسٹریل زون میں قائم ہورہی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کی آبادی ان منصوبوںکے اعتبار سے بہت کم ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ اس اسٹیڈیم میں کوئی میچ نہیں کھیلا جاتا،نئے ائیرپورٹ پر بمشکل ہی کوئی پرواز اترتی ہے جبکہ بندرگاہ پر صرف وہ جہاز ہی لنگر انداز ہوتے ہیں جن میں حکومت کاریں منگواتی ہے۔ اس کے باوجود یہاں ان منصوبوں پر اس لیے سرمایہ لگایا گیا کیونکہ یہ علاقہ راجا پاکسی کا سیاسی گھر تھا۔ بہرحال اس جزیرے پر بہت عمدہ سڑکیں اور موٹرویز ہیں۔ دس سال پہلے ائیرپورٹ سے اترنے کے بعد ہمارے گھر تک آنے میں سات گھنٹے لگتے تھے ، اب صرف تین گھنٹو ں میں پہنچا جاسکتا ہے۔ 
ان منصوبوں کے ٹھیکے دینے میں بھاری رقوم کی بدعنوانی کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک ماہر کے تخمینے کے مطابق سری لنکا میں بننے والی موٹرویز دنیا کی مہنگی ترین سڑکیں ہیں۔ ان میںسے زیادہ تر کے کنٹریکٹس بغیر کسی اوپن ٹینڈر کے چینی فرموں کو دیے گئے ۔ اپنے سیاسی مخالف، سری سینا، کی ساکھ مجروح کرنے کے لیے راجا پاکسی نے الزام لگایا کہ وہ مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر سری لنکا کی مسلح افواج کو 2009ء میں ختم ہونے والی خانہ جنگی میں تامل شہریوں کی ہلاکت پر عالمی انکوائری کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اسی طرح سری سینا پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ واشنگٹن کی شہ پر سری لنکا کے چین کے ساتھ تعلقات خراب کرنے کی کوشش میں ہیں۔ بے شک، گزشتہ ایک عشرے سے حکومت سازش کی تھیوریاں پھیلانے کے فن میں طاق ہوچکی ہے۔ خانہ جنگی کے دوران بھی کہا جاتا تھا کہ تامل علیحدگی پسندوں کے پیچھے دراصل مغربی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ 
تاہم مقررہ وقت سے دوسال پہلے ہی انتخابات کرانے کے علاوہ راجا پاکسی کی بڑی غلطی یہ بھی تھی کہ اُس نے ملک کی دو بڑی اقلیتی اقوام، تامل با شندوں اور مسلمانوں کی حمایت کھو دی۔ان کے دور میں مسلمانوں پر بدھ شدت پسندوں، بی بی ایس(بدھسٹ پاور فورس) نے خونی حملے کیے جبکہ خانہ جنگی ختم ہونے کے پانچ سال بعد بھی تامل باشندوں کو معاشرے سے دور رکھا جارہا تھا ۔ سری سینا کی طرف سے کیے جانے والے اہم وعدوں میں سے ایک صدر کو لا محدوداختیارات دینے والی متنازعہ ایگزیکٹو پریزیڈینسی (Executive Presidency) کا خاتمہ ہے۔ اس بارے میں اُن کا کہنا ہے وہ حکومت سنبھالنے کے ایک سو ایام کے اندر اندر ایسا کردیں گے۔ رانل وکرما سنگھے، جو کہ اپوزیشن کے ایک جہاندیدہ سیاست دان ہیں، نے وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالا ہے۔ 
نئی کولیشن حکومت میں مسلمان اور تامل جماعتیں بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بائیں بازو کی قوم پرست جماعت،جے وی پی اور بدھ راہبوں کی جماعت ، جے ایچ یو، بھی اس میں شامل ہیں۔ چنانچہ صدر اور وزیر ِ اعظم کی آنے والے دنوں میں بہت بڑی آزمائش ہوگی کہ وہ ان مختلف جماعتوں کو ساتھ لے کر کس طرح چلتے ہیں۔ دوسرا بڑا چیلنج پارلیمانی انتخابات کا جلد اعلان ہوگا تاکہ وہ اپنی اکثریت کو پارلیمان میں بھی قائم کرسکیں۔ راجاپاکسی کی شکست نے سری لنکا کو ایک خاندان کی حکومت کے زیر اثر قائم ہونے والی موروثی حکومت کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا ہے۔ گزشتہ ایک عشرے سے میں نے یہاں جمہوری اداروںکی تباہی، صحافی حضرات کا قتل اور بدعنوانی کی داستانیں رقم ہوتی دیکھی ہیں۔ سابق حکومت نے رشوت دے کر اپوزیشن کے رہنمائوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنے کی مہم بھی شروع کی ہوئی تھی۔ بات نہ ماننے پر ایک چیف جسٹس کو نکال باہر کیا گیا۔ اس طرح جزیرے پر خوف کی حکمرانی تھی۔ اس لیے اگر سری لنکن فتح کا جشن منارہے ہیں تو وہ اس میں حق بجانب ہیں۔ یہ دراصل جمہوریت کی فتح ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں