نواز شریف نے اپنی پارٹی کے لیے شیر کا انتخابی نشان غالباً اس لیے چناتھا کہ یہ جانور فقیدالمثال طاقت اور پھرتی کے لیے مشہور ہے ، تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پی ایم ایل (ن) کے جلسوں میں اچھالا جانے والا کھلونا شیربھی ہمارے موجودہ وزیر ِ اعظم سے زیادہ تاب و تواں کا حامل دکھائی دیتا تھا۔ بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے دوسال کے اندر اندر وزیراعظم نے ثابت کردیا کہ وہ بے دانت کے شیر ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جملہ ذرا سخت دکھائی دے، اور پھر میں بھی مذاق کے موڈ میں ہرگز نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت کا نصف پورا کیا چاہتی ہے‘ لیکن نااہلی کے نتیجے میں کبھی ایک بحران اُنہیں گھیر لیتا ہے تو کبھی دوسرا۔ چونکہ وزیر ِ اعظم نے نظام کو ترقی دینے کی بجائے تمام امور اپنے ہاتھ میںہی رکھے ہوئے ہیں، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تمام بحران اور مسائل ان کے ہی پیدا کردہ ہیں، اور ان تمام معاملات میں سب سے افسوس ناک بات یہی ہے۔
پٹرول کے موجودہ بحران کی مثال سامنے رکھیں۔۔۔۔ ہمارے ہاں کبھی نہ ختم ہونے والے گردشی قرضے عرصۂ دراز سے سراٹھا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورت ِحال ہے جس سے مفر ممکن نہیں، اس کے باوجود،پٹرول کی قلت پر اہم وزرا کی طرف سے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو مورد ِ الزام ٹھہرانا زیب نہیں دیتا۔ حقیقت سے سبھی باخبر ہیں، عوام بھی۔ جس دوران وزیراعظم بحران کی اصل وجہ سمجھنے کی کوشش میں ہیں، دوسرے شریف بڑے آرام سے محو ِ پرواز ہیں۔ حال ہی میں جنرل راحیل شریف امریکہ اور برطانیہ کے اہم دوروںسے واپس آئے ہیں۔ اُنھوں نے ایک منجھے ہوئے سیاست دان کی طرح اہم رہنمائوں اورافسران سے ملاقاتیں کی ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم بھی سعودی عرب کے دورے پر گئے‘ لیکن دونوں کے جانے میں بڑا فرق تھا۔ عمران خان 2018ء کے عام انتخابات، بلکہ اُس سے کہیں پہلے بھی، حکومت کے لیے لوہے کا چناثابت ہورہے ہیں۔
اگرچہ وزیراعظم پر ایک طرف سے عسکری اداروں اور دوسری طر ف سے عمران خان کا دبائو ہے ، لیکن یہ ان کی نااہلی ہے جس کی وجہ سے وہ بے دست و پا دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی طرز ِحکومت کسی فرم کے مینجر جیسی ہے۔ اُنھوں نے اپنے اردگرد اہلِ خانہ، قریبی دوستوں اور چند ایک قابل ِ اعتماد سرکاری افسران کو اکٹھا کر رکھا ہے۔ ان کی پارٹی کا کوئی شخص اس قریبی دائرے میں داخل نہیں ہوسکتا ۔ اس دائرے کی وجہ سے اسلام آباد میں ایک جمود کی سی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔ حکومت کے نام پر اس اعلیٰ حلقے کے افراد وزیر ِا عظم کے گرد بیٹھے دکھائی دیتے ہیں، جبکہ معمولی سے معمولی فیصلہ بھی وزیر ِ اعظم کی منشا سے ہوتا ہے۔اس طرح لگتا ہے کہ گڈ گورننس کاوعدہ زندہ درگور ہوچکا ۔
سچی بات یہ ہے کہ وزیراعظم حکومت کرتے ہوئے ملک چلانے کی بجائے احتجاجی تحریک چلاتے ہوئے کہیں بہتر دکھائی دیتے ہیں۔ جب لاکھوں افراد نے اُنہیں انتخابات میں ووٹ دیے تو اُن کا خیال تھا کہ وہ ایک ایسے شخص کو منتخب کررہے ہیں جو بہت اچھا مینجر ہے اور اس کے پاس ایک بہت بڑے کاروباری اور صنعتی ادارے کو چلانے کا تجربہ ہے، تاہم، جیسا کہ ایاز امیر ہمیں ایک حالیہ کالم میں یاد دلاتے ہیں کہ مالیاتی اداروں تک بلاروک ٹوک رسائی اور سرکاری افسران کی حمایت کی وجہ سے نواز شریف دولت کمانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی بزنس میں کامیابی کسی غیر معمولی ذہانت کا نتیجہ نہ تھی۔
اس وقت حکمرانوں کی باڈی لینگویج اور چہرے کے تاثرات سب کچھ کہہ رہے ہیں۔ زیادہ تر تصاویر میں وزیر ِا عظم پریشان اورضبط شدہ صدمے کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔آرمی چیف کے ساتھ ایک فوٹو میں، نواز شریف کی آنکھوں سے منتشر خیالی اور دل گرفتگی ہویدا جبکہ آرمی چیف بہت پُراعتماد اور خوشگوار موڈ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم کو سیاسی سبق جنرلوں نے ہی دیا تھا لیکن وہ پاکستانی اقتدار کے ایوانوں کی ایک طے شدہ حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں۔ جب اُنھوں نے ایسے امور میں پیش رفت کا ارادہ کیا جو فوج کے لیے ناپسندیدہ تھے تو اُنھوں نے اپنے گرد دفاعی حصار قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی کوشش قابل ِ ستائش سہی لیکن اس ضمن میں دوسرے معاملات کی ایک اپنی تاریخ ہے۔ اس کے بعد ایک سابق آرمی چیف پر غداری کامقدمہ قائم کرنا بھی قابل غور معاملہ تھا۔ پرویز مشرف کو سزا دلانے کے لیے کی جانے والی سیاسی سرمایہ کاری کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف فوج کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کر بیٹھے۔ اس کے بعد طالبان کے خلاف دوٹوک جنگ کرنے میں ان کی طرف سے پس و پیش اور روایتی تذبذب سے کام لینا بھی دانائی کا تقاضا نہ تھا۔ ایک ٹی وی چینل کا معاملہ بھی مسائل بڑھانے کا باعث بنا۔
ان تمام معروضات کے باوجود ا ن کی زبوں حالی کی اصل وجہ فوج کے ساتھ تنائو نہیں بلکہ ان میں قائدانہ صلاحیتوں کاشدید فقدان ہے۔ اگر وہ اپنے انتخابی وعدوں میں سے نصف کو بھی پورا کر دیتے تو آج اُن کے سامنے وہ مشکلات نہ ہوتیں جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں۔چار انتخابی حلقے کھولنے کی عمران خان کی درخواست کونظر انداز کرنے کے نتیجے میں اُنہیں نہ صرف بہت زیادہ احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ وزیراعظم کو کمزور پاکر ان کے سیاسی مخالفین کے مطالبات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اب اُن کو پنجاب پر اپنی سیاسی گرفت قائم رکھنے کا چیلنج درپیش ہے۔ چند سال پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ کبھی پنجاب میں عمران خان خم ٹھونک کر ان کے مقابلے پر اتر آئیں گے۔ یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیںکہ پنجاب پر گرفت پاکستانی سیاست میں فیصلہ کن عامل کا درجہ رکھتی ہے۔
اس وقت جب کہ پی ٹی آئی کے اراکین نے استعفیٰ دے دیا ہے، یا وہ احتجاجاً اسمبلی میں نہیں جارہے ہیں، پارلیمنٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے سامنے کوئی اپوزیشن نہیں ۔جہاں تک پی پی پی اور ایم کیوایم کا تعلق ہے تووہ وفاقی حکومت کے سامنے مزاحمت کے موڈ میں نہیں۔ اقتدار کے پہلے چھ ماہ تک نوازحکومت پر میڈیا نے بھی تنقید نہیں کی کیونکہ اُس عرصے کو ہنی مون پیریڈ قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت جبکہ محسوس ہوتا ہے کہ فوج خارجہ پالیسی کو کنٹرول کررہی ہے، جنرل راحیل شریف کیوں چاہیں گے کہ وہ ملک کی سیاسی اور مالیاتی دلدل میں قدم رکھیں۔ یہ کانٹے سیاسی حکومت کے پائوں چھلنی کرنے کے لیے ہی ہیں۔ اور پھر جس شخص کی راہ میں گل پاشی کی جارہی ہو، یاجسے پھولوں کے گلدستے پیش کیے جارہے ہوں، وہ کانٹوں پر پائوں کیوں رکھے گا؟