آج کل سری لنکن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار کون ادا کررہا ہے؟ اس سوال پر ہرکوئی حیران ہے کیونکہ حالیہ صدارتی انتخابات کے بعد ایک عجیب صورت ِحال سامنے آئی ہے کیونکہ سابق حکمران پارٹی (SELF) کے رہنما متھیرائی سری سینا نئے منتخب شدہ صدر ہیں ، اپوزیشن پارٹی یو این پی کے رہنما وکرما سنگھے نئے منتخب شدہ وزیر ِ اعظم ہیں، اس طرح ملک کی دونوں بڑی جماعتیں حکومتی بنچوں پربیٹھی ہیں جبکہ چھوٹی جماعتیں، جیسا کہ JVP اور JHU بھی ان کے پہلو میں موجود ہیں۔
اس طرح آج سری لنکا کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن موجود نہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کوئی رکن کسی بھی جماعت کے ساتھ مل سکتا ہے۔ چنانچہ یہاں وہ ''لوٹاکلچر‘‘دیکھنے کو مل رہا ہے جو ہمارے ہاںآئینی ترمیم کے ذریعے ختم ہوچکا ۔ سری لنکن نظام میں ارکان ِ پارلیمنٹ کو بطور رشوت کابینہ میں عہدے دے کر ساتھ ملایا جاسکتا ہے(اور ماضی میں ایسا کیا گیا)۔ مسٹر سری سینا SELF کے سیکرٹری جنرل اور مہندا راجاپاکسی کے دور میں وزیرِ صحت تھے ۔ مہندا راجاپاکسی ایک طاقت ور صدر تھے لیکن اُنہیں حالیہ انتخابات میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک عشرہ حکومت کرنے کے باوجود(یا شایداس کی وجہ سے) اب وہ بے یارومددگارہیںجبکہ ان کے ساتھ اتحادی اور خوشامدی افراد ان کی حکومت اور خاندان کے خلاف گواہی دینے کے لیے قطار در قطار پیش ہورہے ہیں۔ مارون سلوا (Mervyn Silva)، جو سابق حکمران جماعت کے منفی ہتھکنڈوں میں شریک رہے تھے، نے اب سابق صدر کے بھائی گوٹیا بیا راجاپاکسی پر قتل کا الزام عائد کردیا ہے۔
''سنڈے لیڈر‘‘ ، جو کہ ایک دلیر، بے باک اور حکومت کی بدعنوانی کے بہت سے کیسز کو بے نقاب کرنے والا ہفتہ روزہ ہے، کے ایڈیٹر لسانتھا وکرما تنگا (Lasantha Wickrematunga) 2009ء میں قتل ہو گئے تھے۔ اپنے قتل سے پہلے، اُنھوں نے ایک زوردار اداریہ لکھا تھا جو اُن کی موت کے بعد شائع ہوا۔ اُس اداریے میں اُنھوں نے کہا تھا کہ اگر وہ قتل ہوگئے تو اس کی ذمہ داری حکومت ِ وقت پر عائد ہوگی۔ بہت دیر سے یہ افواہ گردش میں تھی کہ گوٹیا بیا، جوطاقت ور سیکرٹری دفاع تھے، نے ایک سکواڈ قائم کیا ہوا تھا جس میں ملٹری انٹیلی جنس کے افراد شامل تھے۔ وہ بے نشان سفید گاڑیوں میں ملک میں ادھر اُدھرچکر لگاتے رہتے ۔ الزام تھا کہ اس اسکواڈ نے کئی ایک صحافیوں کو اغوا کیا، ماراپیٹا جبکہ کئی ایک ہلاک بھی کردیے گئے۔ تاہم لسانتھا وکرما تنگاکوئی معمولی صحافی یا رپورٹر نہ تھے۔ وہ بہت ہی ہائی پروفائل ٹارگٹ تھے کیونکہ کبھی وہ صدر کے قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ دیکھنا ہے کہ ان کی ہلاکت کے سلسلے میں لگائے جانے والے الزام میں کتنی صداقت ہے۔
شاید ا س سے بھی زیادہ سنگین الزام وزیر ِخارجہ اورکچھ دیگر باخبر افراد کی طرف سے لگایا گیا۔ اس کے مطابق آٹھ جنوری کوپولنگ ختم ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی ملک میں مارشل لاء لگانے کا منصوبہ بن چکا تھا۔ انتخابات کے بعد ناقدین اور مبصرین کو حیرت بھی ہوئی تھی کہ مہندا راجاپاکسی نے شکست کا اعتراف کرنے میں مطلق دیر نہیں لگائی حالانکہ شکست کا مارجن بہت کم تھا۔ بعد میں آنے والی رپورٹس کے مطابق کولمبو میں صدارتی رہائش گاہ ، Temple Trees، میں بہت سی پراسرار سرگرمیاں جاری تھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران خاندان، جسے پہلے اپنی فتح کا یقین تھا، پوسٹل بیلٹس کی گنتی سے آنے والے نتائج سے خوفزدہ ہوگیا۔ یہ ووٹ سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کے جوانوں کی طرف ڈالے گئے تھے۔ اس سے پہلے تاثر یہ تھا کہ یہ افراد حکمران خاندان کو ووٹ ڈالیں گے،یا پھر ان ووٹوں کو آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے، لیکن واقعات نے ثابت کرنا شروع کردیا کہ راجا پاکسی ابتدائی رائونڈ ہاررہے ہیں اور انتخابی نتائج اس کے حق میں نہیں ہوں گے۔ ان رپورٹس کے مطابق انسپکٹر جنرل پولیس اور آرمی چیف کو Temple Trees میں طلب کیا گیا اور انتخابی نتائج کے اعلان کے بعدممکنہ پرتشدد مظاہروں سے نمٹنے کی پالیسی زیر ِ بحث لائی گئی۔ دونوں افسران قانونی رائے چاہتے تھے، چنانچہ اٹارنی جنرل کو بلایا گیا۔ گفتگو کی سنگینی سے گھبرا کر اُس نے Solicitor General کو فون کرکے اُس سے مشورہ چاہا۔ اس سےSolicitor General کو بھی اندازہ ہوگیا کہ Temple Trees میں کن سنگین معاملات پر بات چیت ہورہی ہے۔ ان دونوں نے صدر کو بتایا کہ آئین انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے بعد الیکشن کمشنر نے آرمی چیف اور آئی جی پولیس کو خبردار کیا کہ وہ انتخابات کے نتائج میں کسی بھی قسم کی مداخلت سے باز رہیں۔ اُس وقت تک رانیل وکرما سنگھے کو بھی اس پراسرا ملاقات کا احوال معلوم ہوچکا تھا، چنانچہ وہ بھی Temple Trees کے باہر پہنچ گئے۔
یہ تھے وہ حالات جن کے سامنے خود کو بے بس پاتے ہوئے راجا پاکسی نے جلدی شکست تسلیم کرلی ا ور Temple Trees سے نکل گئے۔۔۔ شاید ہمیشہ کے لیے ، تاوقتیکہ اُنہیں کبھی بطور مہمان مدعوکیا جائے۔ اگلے دن انتخابی نتائج کے باضابطہ اعلان کے بعد SELFکے ممبران جوق درجوق حکومت کی طرف فلور کراسنگ کرتے دکھائی دیے، کیونکہ اُنہیں امید تھی ایسا کرتے ہوئے اُنہیں اپنے جرائم کی معافی مل جائے گی۔ راجہ پاکسی فیملی کا گھر تن گیل (Tangalle) میں واقع ہے۔ ماضی میں جب بھی سابق صدر یہاں آتے تھے تو یہ ساحلی قصبہ مکمل طور پر بند کردیا جاتا۔ پراعتماد انداز میں مسکراتے ہوئے راجاپاکسی کے قدِ آدم پوسٹرز گلیوں میں ہر طرف دکھائی دیتے۔ یہاں سے اُن کا بیٹا، نمل، رکن ِ پارلیمنٹ منتخب ہوا تھااو ر خبر گردش میںتھی کہ اُسے مستقبل میں حکومت سنبھالنے کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ راجہ پاکسی کے قریبی احباب بھی جائیداد پر قبضہ کرنے میں مصروف تھے۔ ان میں سے ایک ، جو مقامی کونسل کا صدر تھا، کو ایک برطانوی شہری کو قتل کرنے کے الزام میں سزا بھی ہوئی تھی۔ یہ سزا برطانوی حکومت کے دبائو کا نتیجہ تھی ورنہ اُس کے خلاف کیس دائر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیںہوتا تھا۔
نمل کا بیان پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ اس پر غلط امور میں ملوث رہنے کے الزامات لگائے جارہے ہیں حالانکہ وہ تو صرف ملک کی خدمت کررہا تھا۔ حال ہی میں پولیس نے ان کے آبائی مکان پر چھاپا مارا۔ اسے ایک مہنگی سپورٹس کار ،Lamborghini، کی تلاش تھی جسے نمل نے امپورٹ کیا تھا۔ جب دوسال پہلے سالانہ بجٹ میں سپورٹس کاروں کی درآمد پر سے ڈیوٹی ختم کی گئی تھی تو بہت سے چہرے خوشی سے کھل اٹھے تھے۔ جس دوران سابق حکومت کی بدعنوانی اور سیاسی جرائم کی کہانیاں منظر ِ عام پر آرہی ہیں، سری لنکا اپنی سفارتی سمت بھی تبدیل کررہا ہے۔ راجاپاکسی کے اقتدارمیں ملک کا زیادہ ترجھکائو چین کی طرف تھا کیونکہ اُسے وہاںسے میگا پراجیکٹس، نہ کہ ترقیاتی منصوبوں،کے لیے بھاری قرضے مل جاتے تھے۔ یہ میگا پراجیکٹس سابق صدر کے ہوم ٹائون میں ہی نظر آتے ہیں۔ اُس دوران ان کے بھارت کے ساتھ تعلقات خراب رہے۔ کچھ عرصہ پہلے بھارت کو پیشگی اطلاع دیے بغیر چینی آبدوزیں کولمبو کی بندرگاہ پر آگئی تھیں حالانکہ ایک معاہدے کے تحت سری لنکا بھارت کو ایسے امور کی بابت مطلع کرنے کا پابند تھا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے یہ رپورٹس بہت جاندار لگتی ہیں کہ راجاپاکسی کو چلتا کرنے کے پیچھے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کا بھی ہاتھ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نئی حکومت کی سفارتی جہت میں تبدیلی دکھائی دے گی۔