شاید ہی کوئی قوم اپنی تاریخ اور روایات کو اس تزک و احتشام سے مناتی ہو جیسے برطانیہ ۔ گزشتہ ہفتے سے بہت سے اہم واقعات کی یاد منائی جارہی ہے۔ واٹرلو میں نپولین کی شکست کا 200 واں سال ، میگنا کارٹا کا800 واں سال اور سالانہ رائل اسکوٹ ہارس ریس (Royal Ascot horse races)۔ بلجیم میں واقع واٹرلو کے میدان میں بظاہر دیکھنے کے لیے اب کچھ نہیں بس ایک خشک، بے کیف اور ناہموار زمین کا ٹکرا ، اور اگر کسی اجنبی کو اس کی تاریخی اہمیت کا علم نہ ہو کہ یہ وہ میدان ہے جہاں یورپ کی قسمت کا فیصلہ ہوا تھا، تووہ اس کی طرف دیکھے بغیر اپنے دھیان میں اس کے پاس سے گزرجائے گا۔ تاہم یہی میدان ہے جہاں وہ معرکتہ الآرا جنگ ہوئی جس میں نپولین کی طاقت ور فرانسیسی فوج کویاتو موسم کی خرابی یا نپولین کی کچھ غلطیوںکی وجہ سے، شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس شکست نے نپولین کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔
اُس شکست کا مطلب انقلاب ِ فرانس(1789) کی دہکتی ہوئی بھٹی سے ٹیکسال ہونے والے تصورات کے پھیلائو میں ایک طویل وقفہ تھا۔اگرچہ نپولین کوئی انقلابی نہیں بلکہ اپنے ذاتی مقاصد رکھنے والا جنرل تھا، لیکن انقلاب سے ابھرنے والی لہر نے بادشاہت اور چرچ کو لرزہ براندام کرنا شروع کردیا تھا۔ لاگلوٹن(جسے چارلس ڈکنز نیشنل ریزرو قراردیتا ہے)نے گردنوں کے ساتھ ساتھ لاکھوں افراد کے عقائد پر بھی کاری ضرب لگائی تھی۔اگر لارڈ ولنگٹن کے قیادت میں برطانیہ اور نپولین مخالف فورسز کوشکست ہوجاتی تو آج یورپ کی تاریخ بہت مختلف ہوتی۔ بہت سی سلطنتوں کے برج الٹ جاتے اور انقلاب ِ فرانس کے اہم ترین تصورات، جمہوریت اور سیکولرازم، پوری دنیا میں پھیل جاتے۔ تاہم انقلاب کے رد ِعمل میں تقویت پانے والے حفاظتی اقدامات کے ذریعے بہت سے حکمران خاندان ایک اور صدی تک اپنا بچائو کرنے میں کامیاب رہے یہاںتک کہ پہلی جنگ ِ عظیم کی صورت میں ہونے والی بربادی کی لہر اُنہیں بہا لے گئی۔
تاہم برطانیہ وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے جمہوری اصولوں کومتعارف کرانا شروع کیا۔ 15 جون 1215ء کوونڈسر کے نزدیک ایک دلدلی میدان رینی میڈ (Runneymeade) کے مقام پر کنگ جان نے میگناکارٹا پر مہر لگائی۔ اس عظیم چارٹر نے بادشاہوں کی طاقت کی حد مقرر کردی۔ اُ س وقت یہ بہت ہی انقلابی تصور تھا کیونکہ بادشاہوں کے بارے میں فرض کیا جاتا تھا کہ وہ ''خدا کے عطاکردہ حق‘‘ کے تحت بادشاہت کرتے ہیں (divine right of kings)۔ اگرچہ میگنا کارٹاکوبمشکل ہی شہری آزادیوں کا اعلامیہ قراردیا جاسکتا ہے، لیکن اس نے چرچ کے حقوق میں کمی، فوری انصاف کے اصول اور تاج برطانیہ کو وصول ہونے والے خراج کی حدود طے کردیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے برطانوی اشرافیہ میں نچلی سطح کے نوابوں(barons) کو جبری گرفتاری سے آزادی دلادی۔ اس معاہدے کو بہت جلد پوپ انوسنٹ سوئم(Pope Innocent III) نے منسوخ کردیا لیکن کنگ جان کے جانشیں، ہنری سوئم نے اسے پھر بحال کردیا۔ 1297ء میں کہیں جاکر میگنا کارٹاکو انگلش قانون تسلیم کیا گیا۔ یہ برطانیہ کی آہستہ آہستہ ارتقاپذیر جمہوریت کا سنگ ِ میل تھا۔
چنانچہ جب ہم شکایت کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت میں بہت خامیاں ہیںتو ہمیںیادرکھنا چاہیے کہ جمہوری قدروں کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں وقت لگتا ہے۔ مساوی انسانی حقوق کو یقینی بنانے والی جمہوریت کی فعالیت کے لیے صرف آئین اور باقاعدگی سے کرائے جانے والے انتخابات ہی کافی نہیں، کیا ہمارے پاس کوئی میگنا کارٹا ہے جو شخصیت پرستی کے بت توڑ سکے؟دنیا کے ہمارے حصے میں جمہوریت کو اقتدار حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے،لیکن یہ احتساب اور اچھی گورننس کو یقینی نہیںبناتی۔ برطانیہ میں صدیوں سے جمہوری حکومتوں کی کامیابی کے باوجودموجودہ پارلیمانی نظام ، خاص طور پر موجودہ عام انتخابات کے بعد، کی افادیت پر درحقیقت تشویش کے بادل چھانا شروع ہوگئے ہیں۔ دیکھنے میں آیا کہ UKIP تیرہ فیصد ووٹ لے کر صرف ایک نشست حاصل کرپائی جبکہ کنزرویٹو پارٹی 37 فیصد ووٹ لے کر 331 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ زیادہ ووٹ لینے کی بنیاد پر کسی ممبر کے کامیاب ہونے کے اصول کی وجہ سے عجیب وغریب نتائج دیکھنے کو ملے۔دیکھا گیا کہ سکاٹش نیشنل پارٹی نے فی نشست کامیابی کے لیے 26 ہزار ووٹ حاصل کیے، ٹوریز نے فی نشست 33 ہزار اور لیبر پارٹی نے فی نشست 39 ہزار ووٹ حاصل کیے۔ تاہم گرینز پارٹی نے ایک نشست پر 1.1 ملین اور UKIP نے اپنی اکلوتی نشست کے لیے 3.8 ملین ووٹ حاصل کیے۔
اس نظام میں خطرہ یہ ہے کہ لاکھوں افراد دیکھتے ہیں کہ ان کے ڈالے گئے ووٹوں کا کوئی فائدہ نہیںہوتاتو وہ اس نظام کے تحت ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے سے گریز کی راہ اختیار کرنا شروع کردیںگے۔ ایک اور لائق ِ تشویش معاملہ نوجوانوں کا انتخابی عمل سے دور رہنے کا رجحان ہے۔ موجودہ انتخابات میں تقریباً 60 فیصد ووٹروں کی عمر اٹھارہ سے چوبیس کے درمیان تھی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اعدادوشمار حوصلہ افزا دکھائی دیتے ہوئے میرے بیان کردہ خدشے کی نفی کرتے ہوں، لیکن ٹھہریں، ووٹنگ ٹرن آئوٹ 71 فیصد تھا۔ برطانیہ میں، خاص طورپر لبرل ڈیموکریٹس انتخابی اصلاحات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ اس جماعت کو اُس وقت شدید سیاسی جھٹکا لگا تھا جب وہ 2011ء میں ہونے والا ریفرنڈم بھاری مارجن سے ہار گئی۔ بہرحال حالیہ عام انتخابات کے عجیب و غریب نتائج نے انتخابی اصلاحات کی ضرورت کو بڑھا دیا ہے۔ دیکھا گیا کہ چھوٹی پارٹیاںاچھی خاصی حمایت رکھتی تھیں لیکن بکھری ہوئی حمایت موجودہ نظام میں انتخابی کامیابی میں تبدیل نہ ہوسکی۔
UKIP اور گرین پارٹی کے لیے مایوس کن نتائج کے باوجود کسی نے انتخابات میں دھاندلی کی شکایت نہیں کی ہے۔ صرف جارج گیلوے کی Respect Party ، جو فرد ِ واحد پر مشتمل ہے، نے اپیل دائر کی ہے لیکن ان کے حریف کی لیڈ اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بھی مسٹر گیلوے کی اپیل کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ لیبر پارٹی کے نئے لیڈر کے انتخاب کے لیے ہونے والا مقابلہ حقیقی جمہوریت کا ایک اور ثبوت ہے۔ پارٹی کے داخلی طریق کار کے مطابق قیادت کے امیدوار کے پاس کم از کم35 ارکان ِ پارلیمنٹ کی حمایت موجود ہونی چاہیے۔ اب تک چار ارکان اس حمایت کے لیے اپنی اہلیت ثابت کرچکے ہیں۔ اس طرح وہ پارٹی کی رکنیت سازی کی اپنی اپنی کوشش کریں گے تاکہ اُنہیں زیادہ ووٹ مل سکیں۔ اس طرح کے انتخابات کی ہماری خاندانی اور موروثی سیاست میں گنجائش نہیں۔ صر ف جماعت ِاسلامی ہی ایسی پارٹی ہے جو اپنا امیر اور عہدیدار چننے کے لیے داخلی انتخابات کراتی ہے۔اگر جنوبی ایشیا میں موروثی سیاست ہے تو امریکہ بھی اس سے مبرّا نہیں۔ امکان ہے کہ 2016ء کے صدارتی انتخابات کسی ''کلنٹن ‘‘ یا کسی ''بش‘‘ کے درمیان ہوں گے۔