جیسا دیس ویسا بھیس کیوں نہیں؟

برطانیہ کی پہلی خاتون شریعہ جج، عمرہ بون (Amra Bone) نے حال ہی میں ''دی ٹائمز‘‘ کو بتایا: ''برطانوی حکومت مسلمانوں کو ایک سے زائد بیویاں نہ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتی‘‘۔ کیا واقعی؟ کیوں نہیں؟ برطانوی حکومت یقیناً ایک سے زائد بیویاں نہ رکھنے کا کہہ سکتی ہے کیونکہ برطانوی مسلمان بقر عید پر مذہبی رسم کے طور پر سر عام جانور ذبح نہیں کر سکتے‘ کیونکہ یہ فعل جانوروں کو ظلم کے خلاف تحفظ دینے والے قانون کی خلاف ورزی تصور ہوتا ہے۔ اسی طرح لڑکیوں کے ختنے جیسے غیر انسانی فعل پر بھی وہاں پابندی ہے‘ لیکن افریقہ کے بہت سے علاقوں میں مذہبی رسم سمجھی جاتی ہے۔ برطانیہ میں ان پابندیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات بعید از فہم نہیں کہ مسلمان مردوں کو ایک سے زائد شادیاں کرتے ہوئے‘ اپنی مردانگی کے جوہر دکھانے سے قانونی طور پر باز رکھا جائے۔ اگرچہ انگلش قانون کے مطابق دوسری شادی قابل تعزیر جرم ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے 'مجرم‘ کو سات سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑ سکتے ہیں، اس کے باوجود برطانیہ میں ہزاروں مردوں نے ایک سے زائد شادیاں کر رکھی ہیں‘ جو غیر رجسٹرڈ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کی ستر سے پچھتر فیصد شادیاں رجسٹر نہیں ہوتیں اور بیس ہزار سے زائد افراد ایک سے زائد بیویاں رکھنے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
برطانیہ میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کا اسلام کے قدامت پسند تصور کی طرف جھکائو بڑھ رہا ہے؛ چنانچہ بہت سے نوجوان مسلمان شرعی شادیوں کو ترجیح دیتے ہوئے مقامی رجسٹریشن آفس کو نظر اندازکر دیتے ہیں۔ شرعی شادیوں کی طرف جھکائو کی ایک اور وجہ یہی ہے اور شاید عملی نقطۂ نظر سے اس میں زیادہ جان ہے کہ برطانوی قانون کے مطابق طلاق کی صورت میں اثاثے مرد اورعورت، دونوں میں برابر تقسیم ہو جاتے ہیں۔ مقامی قانون عورتوں کو مالی تحفظ دیتا ہے‘ جبکہ شرعی قوانین کے تحت شادی کرنے والی عورت اس سے محروم ہو جاتی ہے۔ بہت سے کیسز میں نوجوان لڑکیاں یہ نہیں جانتیں کہ خالصتاً شرعی شادی (جو قانون کے مطابق رجسٹر نہ ہو) کرتے ہوئے وہ استیصال اور جبر کا نشانہ بننے کے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ 
ٹائمز کے مطابق 100,000 مسلمان جوڑوں نے ایسی ہی غیر رجسٹرڈ شادیاں کر رکھی ہیں۔ وہ رجسٹرڈ شادیاں اُس وقت کرتے ہیں جب پاکستان کے کسی دور افتادہ علاقے میں رہنے والا ایک لڑکا کسی برطانوی شہریت کی حامل مسلمان لڑکی سے شادی صرف اس لیے کرتا ہے کہ وہ برطانیہ کا ویزہ اور داخل ہونے کے بعد رہائش اور شہریت حاصل کر سکے۔ یہ تصور کہ 'تارکین وطن یا اقلیتی گروہ کے مذہبی اصول میزبان ملک کے قوانین کو پامال کر دیں، کی جھلک خود مسلمان ممالک میں بھی نہیں ملتی۔ مسلمان ممالک میں غیر مسلموں کے مذہبی عقائد کو مقامی قانون پر تقدم حاصل نہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب میں اگر کسی کے پاس بائبل مل جائے تو اُسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی سخت سزا دی جائے؛ چنانچہ برطانوی مسلمانوں کی طرف سے اپنے مذہبی عقائد کو مقامی قانون پر مقدم سمجھنے کا مطالبہ مناسب نہیں۔ ایک پرانا محاورہ ہے: ''جیسا دیس، ویسا بھیس‘‘۔ یقیناً اس میں دانائی موجود ہے اور دانائی سے کنارہ کشی مہذب افراد کا شعار نہیں۔ 
تاہم کثرت ازدواج کو صرف مردوں کی شکاری فطرت کا شاخسانہ سمجھنا غلطی ہو گا۔ مردوں کی بہت سی دوسری شادیوں میں عورتوں کا بھی ''ہاتھ‘‘ ہوتا ہے۔ 2014ء میں چینل فور پر زیادہ شادیوں کے موضوع پر بنائی گئی ایک ڈاکومنٹری میں پروگرام ڈائریکٹر مسعود خان نے ایک آزاد اور پیشہ ور مسلمان عورت سے‘ جو کسی آدمی کی دوسری شرعی بیوی تھی، انٹرویو کیا۔ اُس عورت نے اس ازدواجی تعلق کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ بطور دوسری بیوی بہت خوش ہے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ ''شوہر‘‘ قرار پانے والا آدمی ہر وقت اُس کے سر پر سوار رہے۔ اس کے بجائے وہ بہتر سمجھتی تھی کہ اُس کے ساتھ ہفتے میں چند ایک شامیں گزار لے‘ جبکہ دوسری منکوحہ اُس کی خانہ داری، جیسے کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور صفائی وغیرہ کرنے کی ذمہ داری خوشی خوشی اٹھائے رکھے۔ اُس کی بات سن کر مجھے ایک سوڈانی خاتون یاد آئی‘ جسے میں کئی سال پہلے لاہور میں ملا‘ جہاں وہ ورلڈ بینک کے وفد کے ہمراہ آئی تھی۔ اُس نے پیرس اور نیویارک سے تعلیم حاصل کی تھی اور وہ ایک سفارت کار کی بیٹی تھی۔ اُس نے مجھے بتایا کہ وہ مردوںکی زیادہ شادیوں کے حق میں ہے۔ اس نے کہا کہ اُس کے شوہر کی زیادہ بیویاں ہونے کی وجہ سے اُسے اپنا کیریئر بلاروک ٹوک جاری رکھنے کا موقع مل جاتا ہے، پہلی بیوی اُس کا گھر سنبھالے رکھتی ہے۔ 
اگر برطانیہ میں مسلمان مرد زیادہ بنیاد پرست بنتے جا رہے ہیں‘ تو عورتیں بھی اُن سے پیچھے نہیں۔ آج برطانیہ میں آباد ہونے والے تیسری یا چوتھی نسل کے مسلمان اپنے آبائواجداد سے زیادہ مذہبی نہیں ہیں‘ لیکن اُنہیں اپنی مذہبی شناختوں کے اظہار کا زیادہ احساس دلایا جا چکا ہے؛ چنانچہ مسلمان عورتیں اپنے عقیدے کا اظہار برقعہ یا سر پر چادر اُوڑھ کر کرتی ہیں‘ تو مرد بڑھی ہوئی داڑھی کے ذریعے۔ ان بنیاد پرستوں کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا بھی مذہبی فریضہ ہے۔ عالمی سطح پر زیادہ شادیاں کرنا مسلمان مردوں کا مقبول معمول نہیں، صرف پانچ فیصد مسلمان مردوں کی ہی ایک زیادہ بیویاں ہیں، لیکن برطانیہ میں نوجوان مسلمان مردوں کی طرف سے اس 'شعبے‘ میں زیادہ دلچسپی لینے سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید تمام مسلمان مرد ایک آدھ بیوی کو تو خاطر میں بھی نہیں لاتے۔ 
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی طرف سے متعدد بار دیے گئے برطانوی اقدار کے حوالے اور برطانوی نوجوانوں میں فروغ پانے والے سلفی اسلام کے برملا اظہار کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔ شام میں جا کر داعش کی صفوں میں شامل ہونے والے بہت سے یورپی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے یہ قدم اس لیے اٹھایا کہ وہ مغرب کے غیر اسلامی معاشرے کی بجائے ''خالص اور پاکیزہ اسلامی ماحول‘‘ میں رہنا چاہتے تھے۔ جب وہاں بربریت اور لہو میں ڈوبی ہوئی پاکیزگی اپنی تمام تر ہیبت ناکی کے ساتھ اُن کے سامنے عیاں ہوئی تو اُنہوں نے وہاں سے بھاگنا چاہا، لیکن تب پتا چلا کہ وہاں سے فرار کا آپشن موجود نہیں ہے۔ اب تک داعش کے قاتلوں کو پاکیزہ مسلمان سمجھ کر ان کی خلافت میں آنے اور پھر اُن کی اصلیت کھلنے پر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کرنے والے درجنوں رضاکاروں کو نہایت سفاکی سے ہلاک کیا جا چکا ہے۔ بہت سے امن پسند برطانوی مسلمان محسوس کرتے ہیں کہ انتہا پسندی کا شکار ہونے والے چند ایک افراد کی حماقت کا خمیازہ انہیں بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ برطانو ی میڈیا ایسی کہانیوں سے بھرا ہوا ہے کہ کس طرح مغرب میں رہنے والے مسلمان دہشت گردی کے منصوبوں میں کسی نہ کسی طور پر ملوث ہیں۔ ایسے گھنائونے الزامات کے پس منظر میں زیادہ شادیاں بہت سنگین جرم دکھائی نہیں دیتا؛ تاہم اس سے مہذب معاشرے میں ایک تاثر تقویت پاتا ہے کہ مسلمان عورتوں کے ساتھ بدسلوکی اور استیصال کو روا سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان معاشروں میں عورتوںکے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک اس تاثرکی نفی نہیںکرتا، اس لیے ہم اسے عقلی طور پر چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں