لیبر پارٹی کی نئی قیادت کا چنائو

جب ٹونی بلیئر نے جرمی کوربین پر چڑھائی کی جو لیبر پارٹی کی قیادت کے چار امیدواروں میں سے ایک ہیں تو سابق وزیراعظم نے ایک طرح سے اُن کی حمایت ہی کی۔ پارٹی کے خاص و عام میں ٹونی بلیئر کی داغدار شہرت کی وجہ سے اُن کی طرف سے کی جانے والی تنقید جرمی کوربین کی حمایت میں اضافے کا باعث بن گئی۔ دی گارڈین میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ آرٹیکل میںٹونی بلیئر کا کہنا ہے کہ جرمی کی حمایت کرنے والے لیبر پارٹی کو اتھاہ گہرائیوں میں گرانا چاہتے ہیں۔اُنہوں نے پارٹی لیڈروں کو خبردار کیا کہ ایسا کرکے پارٹی نہ صرف 2020ء کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگی بلکہ اس کا مکمل صفایا بھی ہوسکتا ہے۔ 
الیسٹیر کیمبل سے لے کر جیک سٹرا تک پارٹی کے سینئر رہنما بھی اسی طرح کے شدید جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ الیسٹیر کیمبل نے غیر واضح فارمولہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوربین کی بجائے کوئی بھی کامیاب ہوجائے، اُنہیں قبول ہوگا؛ تاہم اب تک 68 سالہ جرمی کوربین نے اپنے حق میں رائے عامہ کو بہت جاندار طریقے سے متحرک کرتے ہوئے ہزاروں نوجوان افراد کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ ایک پول سروے کے مطابق اُنہیں 53 فیصد لیبر ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ اُن کے تینوں حریف اُن سے بہت پیچھے ہیں۔ قانون کے مطابق پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے لیے انہیں سادہ اکثریت سے کامیابی حاصل کرناہوگی، لیکن اگر کوئی بھی پچاس فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کر پاتا تو سب سے کم ووٹ حاصل کرنے والے امیدواروں کو مقابلے سے خارج کرکے دوبارہ انتخابات کرائے جاتے ہیں۔ اس وقت پول سروے اور بک میکرز کے مطابق کوربین کامیابی کے لیے فیورٹ ہیں۔ جب انتخابی مہم کا آغاز ہوا تو ان کی کامیابی کا بک مارکیٹ میں نرخ100-1 تھا۔ میں اب بھی خود کوکوس رہاہوں کہ اگر میں بھی ان پر دس پائونڈ لگادیتا توکیا حرج تھا۔ 
تصویرکا دوسرا رخ یہ ہے کہ تمام تر جوش وخروش پیدا کرنے کے باوجود جرمی کوربین خاموش اور دل کشی سے عاری رہنما ہیں۔اگرچہ وہ 1983ء سے پارلیمنٹ میں اسلنگٹن (Islington) کی نمائندگی کررہے ہیں، لیکن پارلیمنٹ میں اُن کاکردار پچھلی نشستوں پر بیٹھنے والے رہنمائوںوالا تھا، وہ کبھی کھل کر سامنے نہیں آئے۔ ان کی وجہ شہرت ایک ایسے لیبر ممبرکی تھی جو اپنی پارٹی سے اختلاف کر گزرتے تھے۔ اُنہوں نے کم از کم پانچ سو مواقع پر اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دیا؛ تاہم وہ کبھی فرنٹ لائن رہنما کے طور پر سامنے نہیں آئے۔ اب ایساکیا ہوا کہ وہ گمنامی کے گوشے سے نکل کر پارٹی کی مرکزی قیادت سنبھالنے والے سب سے طاقتور امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں؟ اس کی وجہ بہت سادہ ہے۔ لیبر کے ووٹر دیگر امیدواروں کے مرکز مائل پیغامات اور نظریات سے تنگ آ چکے ہیں، لہٰذا وہ کچھ تبدیلی اور ہوا 
کاتازہ جھونکا چاہتے ہیں۔ درحقیقت وہ تینوں رہنما لیبر پارٹی کی دقیانوسی پالیسیوںکے ہی گن گاتے سنائی دیتے ہیں۔ لیبر کے ووٹر یہ پیغام مسترد کرتے ہوئے تبدیلی اور اختلاف ِرائے کی طرف جھکائو محسوس کرتے ہیں۔ 
اینڈی برنم (Andy Burnham) اور ویٹ کوپر (Yvette Cooper)، دونوں لیبر کی سابق حکومت میں شامل تھے۔ اُن کی طرف سے لیبر کی ٹوریز پالیسیوں کے حوالے سے تھوڑا بہت اختلاف سامنے آیا۔ تیسرے امیدوار لزکنڈل (Liz Kendall) ماضی کی لیبر جماعت کے زیادہ قریب ہیں۔ اس پس ِمنظرمیں کوربین واحد امیدوار ہیں جنہوں نے کنزرویٹو کی چارج شیٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ 2008ء میں بینکوں کو بیل آئوٹ کیا گیا لیکن ان کے کریش ہونے کی وجہ سے عام شہریوں کو جن کا کوئی قصور نہیں تھا، فلاحی پروگرامز، جیسا کہ ہائوسنگ اور تعلیم کی سپورٹ پرکٹوتی کرتے ہوئے سزا دی گئی۔ اب کوربین وعدہ کر رہے ہیں کہ وہ ان سہولیات کو ترجیحی بنیادوں پر بحال کرائیں گے۔ اس کے علاوہ وہ ٹرائی ڈنٹ آبدوزوں کا انتہائی مہنگا منصوبہ منسوخ اور برطانیہ کا ایٹمی ڈیٹیرنس یک طرفہ طور پر ختم کرنے کا ایجنڈا دے رہے ہیں۔ 
ان کے الفاظ نے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو خوفزدہ کر دیا، لیکن لیبر پارٹی کے ہزاروں نئے ووٹروں نے ان کا خیر مقدم کیا ہے۔ درحقیقت سینئر رہنما حالیہ دنوں انتخابی قوانین تبدیل کرنے کے فیصلے پر پچھتا رہے ہیں۔ اس سے پہلے ٹریڈ یونینز، جہاںسے پارٹی کومالی وسائل حاصل ہوتے تھے، پارٹی انتخابات پر اثر انداز ہوتی تھیں۔ اب تین پائونڈ ادا کرکے اورلیبر پارٹی کے ڈیکلریشن پر دستخط کرکے کوئی بھی شہری خود کو بطور ووٹر رجسٹر کراسکتا ہے۔ قوانین کو سادہ بنائے جانے کے نتیجے میں چھ لاکھ سے زائد افراد نے خود کوبطور لیبر ووٹر رجسٹر کرالیا ہے۔ درحقیقت دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے اپنے قارئین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خود کو بطور لیبر ووٹر رجسٹر کرائیں اور کوربین کو ووٹ دیں تاکہ لیبر پارٹی مکمل طور پر تباہ ہوجائے۔ دوسرے تینوں امیدواروںکا کہنا ہے کہ بائیں بازوکے کارکن اُن کی صفوں میں شامل ہوکرکوربین کی حمایت کر رہے ہیں۔ اب ڈالے گئے ووٹوںکی گنتی ستمبر کے وسط میں ہوگی۔ کوربین کے حریفوںکا کہنا ہے کہ ان کے پرانی طرز کے سوشلسٹ نظریات عام انتخابات میں ووٹروں کو برگشتہ کرسکتے ہیں۔ 
کوربین پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ فلسطین کی طرف جھکائو رکھتے ہوئے اسرائیل مخالف سوچ کے حامل ہیں۔ یہ کریڈٹ بہرحال اُن کو جاتا ہے کہ وہ خود پر ہونے والے حملوں کے موقع پر نہ تو الزامات کی تردید میں الجھتے ہیں اور نہ ہی جوابی حملہ کرتے ہیں۔ اس کی بجائے وہ صرف اپنی پالیسیوں کی بات کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ان کی یہ پالیسی بھی کامیاب جا رہی ہے۔ ان کے بہت سے نقادوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ کوربین نوجوان افراد کے لیے کشش رکھتے ہیں لیکن وہ عام انتخابات میں اُن لوگوں کو متاثر نہیں کرسکیں گے جنہوں نے گزشتہ انتخابات میں ووٹ دے کر ٹوریزکو اقتدار کے ایوان میں پہنچایا تھا۔اس طرح پارٹی انتخابات میں کوربین کوووٹ دینے کا مطلب 2020ء کے عام انتخابات میں شکست کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ 
کوربین کے ناقدین ایک نقطہ بہرکیف نظر انداز کر رہے ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں لیبر ووٹروں نے اس کی پالیسیوں سے ناراض ہوکر سکاٹش نیشنل پارٹی کو انتخابی حمایت فراہم کی تھی، اس لیے کوربین کی فتح کی صورت میں وہ ناراض ووٹر واپس آجائیںگے۔ گزشتہ انتخابات میں ہم نے دیکھا تھاکہ سکاٹ لینڈ سے لیبر پارٹی کا صفایا ہوگیا تھا؛ تاہم کوربین کے نظریات وہاں سے کھوئی ہوئی نشستیںجیتنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ قیاس کافی حد تک درست ہے کیونکہ اس وقت کوربین ہی وہ واحد لیبر رہنما ہیں جو سکاٹش ووٹر وں کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ درحقیقت اُن کے جنگ مخالف اور کٹر اخلاقی قدروں سے روگردانی کے نظریات نوجوان ووٹروں میں مقبول ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں