کراچی پولیس کی حالت ِ زار

ایک عجیب بات لگے گی: میرے موبائل فون میں، جو بہت سمارٹ نہیں، چھ میگا پکسل کا کیمرہ ہے جبکہ کراچی کے سی سی ٹی وی کیمرے دو میگا پکسل کے ہیں۔ کسی کیمرے سے حاصل ہونے والے امیج کے واضح ہونے کا دارومدار اُس کے پکسل کی تعداد پر ہوتا ہے۔ چنانچہ کراچی کی گلیوں میں لگے ہوئے کیمرے اُن مشتبہ افراد کی واضح تصاویر اتارنے سے قاصر ہیں جن کی نگرانی کے لیے وہ لگائے گئے ہیں۔ اس طرح ان سے حاصل ہونے والے امیج کی مدد سے جرائم پیشہ افرادکو شناخت کرنا اور سزادلانا مشکل ہوتا ہے۔اس پر مستزاد ، لگائے گئے ان سستے کیمروں میں سے اکثرکسی بھی وقت خراب ہوسکتے ہیں۔ 
2010 ء میں ان کیمروں کی تنصیب کے لیے 500 ملین اور 2014 ء میں846 ملین روپے مختص کیے گئے۔ تاہم ہمیں حال ہی میں میڈیامیں شائع ہونے والی رپورٹ کے ذریعے اس ضمن میں 200 ملین روپے کی خرد برد کا علم ہوااور یہ بھی پتہ چلا کہ یہ ناقص کیمرے پولیس نے خریدے تھے۔ خیر اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں، یہ تاریک حقائق سندھ حکومت کی سکیورٹی کے حوالے سے ترجیحات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ کراچی دنیا کے سب سے زیادہ جرائم زدہ شہروں میں سے ایک ہے، اس لئے توقع تھی کہ کم از کم سکیورٹی پر بھرپور توجہ دی جاتی‘ جو پوری نہیں ہوئی۔ صوبائی حکام کی جانب سے مجرمانہ نااہلی کا ایک اور اشارہ سبین محمود کے ڈرائیور ، غلام عباس کا قتل ہے۔ وہ کراچی کی 
اس سماجی کارکن کے قتل کا اہم گواہ تھا، لیکن اُسے کوئی تحفظ فراہم نہ کیاگیا،حالانکہ سبین محمود کا قتل ہائی پروفائل تھا اور اس کی بازگشت دنیا بھر میں سنائی دی تھی ۔ 
کئی برسوںسے پرتشددجرائم کے گواہوں کو تحفظ دینے کی لاحاصل گفتگو ہورہی ہے۔ گزشتہ سال گواہوں کو تحفظ دینے والے ایکٹ کی منظوری دیکھنے میں آئی، لیکن حسب ِ معمول حکومت نے اس کے نفاذ میںکوئی دلچسپی نہیں لی۔ یہی وجہ ہے کہ نسلی، لسانی یا فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات کے بہت کم گواہان عدالت میں پیش ہوکر گواہی دیتے ہیں۔ یقینا اُنہیں اپنی جان عزیز ہوتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ایسے کیسز کی پیروی کرنے والے بہت سے وکلا، گواہ، پولیس افسر،حتیٰ کہ جج حضرات بھی گمنام گولیوں کا نشانہ بن چکے ، مگر کسی قاتل کو سزا نہ ملی۔ کراچی کی آبادی دوکروڑ کے لگ بھگ ہے، لیکن اس میں پولیس فورس کی نفری کل ملا کر 27ہزارہے۔ اس کے مقابلے میں لند ن ، جو کراچی کی نسبت انتہائی پُرامن شہر ہے، کی آبادی ستر لاکھ جبکہ وہاں پولیس کی تعداد 31 ہزار ہے۔ اس سے بھی افسوس ناک بات یہ کہ کراچی پولیس فورس کے تیس فیصد جوان وی آئی پی ڈیوٹی دینے ، جیسا کہ سفارت کاروں اور ججوں کی حفاظت، میں مصروف رہتے ہیں، تو شہریوں کے تحفظ کے لیے بہت کم نفری بچتی ہے۔ عملی صورت یہ ہے کہ وی آئی پی فرائض سرانجام دینے والوں کے علاوہ رخصت پر گئے ہوئے پولیس افسران کو نکال دیں تو اتنے بڑے شہر میں ڈیوٹی دینے کے لیے صرف چھ ہزار پولیس کے جوان بچتے ہیں۔ 
ان پولیس والوں کو جس طرح کے جرائم پیشہ افراد کی فائرپاور کا سامنا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے ان کی تعداد اور ان کے پاس دستیاب صرف پندرہ سو بلٹ پروف جیکٹس فورس کے نام پر ایک مذاق لگتا ہے۔ ان میں سے بہت سے جوانوں اور افسروں کو فرائض کی انجام دہی کے دوران جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں نے گولی مار کرہلاک کردیا، لیکن ریاست کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ زیادہ ترممالک میں اگر کسی پولیس افسر کو ہلاک کردیا جائے تو ریاست پوری قوت استعمال کرتے ہوئے اُس کے قاتل کو بے نقاب کرکے عبرت ناک سزا دیتی ہے، لیکن 
ہمارے ہاںمقتول پولیس والے کو دفن کرنے اور فاتحہ خوانی کے ساتھ ہی قتل کا کیس بھی دفن کر دیا جاتاہے۔ شہراور صوبے کی مختلف حکومتیں پولیس فورس کے بارے میں اتنی لاپرواہی سے کام کیوں لیتی رہی ہیں؟ان کی نفری بڑھانے اور ان کی لاجسٹک ضروریات پوری کرنے کی طرف توجہ کیوں نہیں دی گئی؟ ایک حوالے سے تو پولیس کا اپنا قصور دکھائی دیتا ہے۔ سینئر افسران نے اپنے محکمے کی پیشہ ورانہ ضروریات کو گزشتہ کئی برسوںسے نظر انداز کیے رکھا ہے۔ میں سترہ سال پہلے اپنے بھائی نوید پر ہونے والے حملے کی احمقانہ تحقیقات کو شاید کبھی بھلا نہیں پائوں گا۔ وہ این جی او ''شہری‘‘کے بانی اراکین میں سے ایک تھے اور اس تنظیم کے پلیٹ فارم سے ماحولیاتی معاملات اور کراچی میں تعمیر ہونے والی غیر قانونی بلند عمارتوں کے ناقد تھے۔ اُنہیں کئی مرتبہ طاقتور مافیا کی جانب سے دھمکی بھی دی گئی کہ و ہ اُن کے کاموںمیں روڑے اٹکانے سے باز رہیں۔ ایک صبح اُنہیں کسی ماہر ٹارگٹ کلر نے سر اور پیٹ میں گولیاں مار دیں، تاہم وہ چند روز زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد معجزانہ طور پر بچ گئے۔ اُن کے سٹاف نے قاتل کا حلیہ بیان کیا اور ایک فنکار نے اُ س کا خاکہ تیار کر لیا۔ جب میں نے ایک دن تفتیشی ا فسر سے پوچھا کہ تفتیش کہاں تک پہنچی اور کیا بنائے گئے خاکے کی مدد سے اُنھوں نے کسی کو پکڑا تو اُس نے جواب دیاکہ اُن کے محکمے کے پاس جرائم پیشہ افراد کی تصویروںکا بہت پرانا ریکارڈ ہے جبکہ گولیاں چلانے والا کوئی نوجوان تھا۔ بہرحال وہ قاتل کبھی گرفتار نہ ہو سکا۔ میں 
صرف اُمیدہی کر سکتا ہوں کہ صورت ِحال میں کچھ بہتری آئی ہوگی، لیکن خدشہ ہے کہ جرائم کی تفتیش میں مدد دینے والے فورسینک طریق کار، جیسا کہ فنگر پرنٹ یا جائے وقوعہ پر ملنے والے پائوں کے نشانات کا کھوج لگانا ہمارے ہاں ابھی بھی مریخ کے سفر کے مترادف ہے۔ 
بنیادی طور پر سیاست دان اور سینئر سرکاری افسران کو ان معاملات میں بہتری لانے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ایک اور بات، کراچی کے موجودہ حالات کی ذمہ دار پی پی پی اور ایم کیو ایم پر کسی نہ کسی سطح پر کراچی میں ہونے والے بہت سے جرائم میںمبینہ طور پر ملوث ہونے کا شبہ کیا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ وہ بھی کسی مجرم کا تعاقب کرتے دکھائی نہیں دیتے، اور نہ ہی اُنہیں اس میں کوئی دلچسپی ہے۔ اس مایوس کن صورت ِحال کو دیکھتے ہوئے یہ بات بلاتردد کہی جاسکتی ہے کہ جب یہ شہر نہ ختم ہونے والے جرائم کی لپیٹ میں تھا تو عوام نے رینجرز آپریشن کا خیر مقدم کیا۔ رینجرز نے یقینا بے خوف ہوکر ہیبت ناک مافیا پر بہت سخت ہاتھ ڈالا اور شہریوں نے سکون کا سانس لیا۔ اب اگر سیاستدان غصے سے تلملا رہے ہیں تو ہم اس کی وجہ بھی جان گئے ہیں۔ یہ سیاست دان تھے جنہوں نے عوام کو جان ومال کا تحفظ فراہم کرنا تھا اور جب ناکام ہوگئے تو لازمی تھا کہ وہ ایک طرف ہوجائیں اور پھر جو اس کی اہلیت رکھتا ہو، اُسے کراچی کو جرائم سے پاک کرنے دیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں