خود کش حملہ آور کیسے وجود میں آتے ہیں؟

ہرذی روح کے ڈی این اے میں موجود ''حکم نامے‘‘ کی سب سے بنیادی ہدایت اپنا بچائو کرنا ہوتا ہے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوجوانوں، خاص طور پر لڑکیوں کو خود کش بمبار کون بنا دیتا ہے؟ یقینا اس بنیادی حیوانی جبلت اور اہم مذاہب کی ہدایت (جان بچانے) کا اثر زائل کرنے کے لیے کسی طاقت ور محرک اور طویل 'ذہنی صفائی‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یقینا انتقام کا جذبہ ایک طاقتور محرک ہے، اور اسی طرح نفرت بھی۔ ذاتی یا قومی تضحیک کسی پرجنون طاری کرتے ہوئے اُس پر ہلاکت خیز جذبہ طاری کرسکتی ہے۔ محرکات کا ادغام مایوسی کے شکار افراد کو دوسروں کو نقصان پہچانے کے لیے اپنی جان دینے کی طرف مائل کرسکتا ہے۔ شاید سمپسن وہ پہلا تاریخی ہیرو تھا جس نے خود کش مشن اختیار کیا۔ جاپانی فورسز اپنے پائلٹوں کو خود کش مشن پر بھیجتی تھیں۔ جب جنگ کا پانسہ اُن کے خلاف پلٹنے لگا تو جاپانی خودکش پائلٹوں نے اپنے جہاز امریکی بحری جہازوں پر گرانے شروع کر دیے۔ اسی طرح تامل جنگجو بھی سری لنکن فوج کے خلاف خود کش حملے کرتے رہے ہیں۔ دور ِحاضر میں کچھ اہم شخصیات کو خود کش حملہ آوروں نے ہلاک کیا، اُن میں بھارت کے سابق وزیر ِا عظم، راجیو گاندھی کا نام ممتاز ہے۔ 
تاہم آپ کو ماضی میں جاتے ہوئے دیکھنا پڑے گا کہ کس طرح گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں صدیوں کے دوران 
مشرق ِوسطیٰ کے نوجوان افراد کو برین واش کرتے ہوئے عیسائیوں، جنرلوں اور عرب شہزادوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ایران کے البروز پہاڑوں کے مشکل مقامات پر حسن الصباح نے خنجر بردار فدائی تیار کیے اور بے پناہ قتل و غارت کی۔ اُس کا قلعہ یا جنت قرار دیا جانے والا مقام ناقابل ِ تسخیر دکھائی دیتا تھا۔ اُس نے خوبصورت لڑکیوں کو استعمال کرتے ہوئے جنت کا ماحول قائم کیا۔ وہاں نوجوان لڑکوں کو لاکر حشیش کے زیر ِ اثر مدہوش کرکے تاثر دیا جاتا کہ وہ جنت میں عارضی مدت کے لیے آئے ہیں، لیکن مستقل قیام کے لیے اُنہیں کچھ ہدایات پر عمل کرنا ہو گا۔ اس طرح اُنہیں فدائی بناکر بہت سے افراد کو خنجر سے ہلاک کرنے کے مشن پر روانہ کر دیا جاتا۔ چونکہ وہ لڑکے ایک رات ''جنت‘‘ کے مزے لُوٹ چکے ہوتے تھے، اس لیے وہ اپنے شیخ کی ہدایت پر عمل کرتے تاکہ وہ دوبارہ جنت میں داخل ہوکر حوروں کی صحبت سے لطف اٹھا سکیں۔ تاہم یہ لڑکے جب اپنے اہداف کو ٹھکانے لگاچکے ہوتے تو وہ بھی کسی اور جنت کے متلاشی کا ہدف بن جاتے اور کبھی اپنی من پسند منزل تک نہ پہنچ پاتے۔ کئی سالوں تک پہاڑوں میں مقیم حسن بن صباح بغداد سے لے کر قاہرہ اور دیگر سلطنتوں کے حکمرانوں کے لیے خوف کی علامت بنا رہا، یہاں تک کہ تارتاری لشکر کے ہاتھوں اپنے انجام تک پہنچا۔ 
یہ ہے ذہن کو کنٹرول کرنے کا وہ ماڈل جو جہادی تنظیمیں استعمال کرتی ہیں۔ چونکہ ان تنظیموںکے پاس ٹینک، طیارے اور جدید ہتھیار نہیں ہوتے، چنانچہ وہ حساب برابر کرنے کے لیے چلتے پھرتے خود کش بمبار استعمال کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ بیت اﷲ محسود نے امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت سے پہلے بڑے فخر سے کہا تھا کہ اُس کے فدائی حملہ آور، جو کم عمر لڑکے تھے، چلتے پھرتے ایٹم بم ہیں۔ دہشت گردی کے عروج کے زمانے میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں لڑکوں کو خود کش حملہ آور بنانا ایک انتہائی نفع بخش ''گھریلو صنعت ‘‘ بن چکی تھی۔ ایک مرتبہ جب''مال ‘‘تیار ہوجاتا تھا تو پھر اُسے جہادی تنظیموں کے ہاتھوں فروخت کر کے بھاری رقم کمائی جاتی۔ وہ جہادی تنظیمیں اُسے پاکستان کے مختلف حصوں میں شہریوں یا سکیورٹی فورسز کو جانی نقصان پہنچانے کے لیے روانہ کردیتیں۔ 
جب پاک فوج نے ان علاقوں میں آپریشن کیا تو اُنہیں ایک مقام پر ایک ایسا ٹریننگ سنٹر ملا جہاں دیواروں پر پینٹ کرکے جنت کا نقشہ بناگیا تھا۔ اگرچہ یہ ''جنت‘‘ اتنی پُرکشش نہیں تھی جتنی حسن بن صباح کی ، لیکن پھر بھی نوجوان لڑکوں کے لیے دلکش لڑکیوں کی تصاویر میں بہت کشش تھی۔ اُنہیں تاثر دیا جاتا کہ مشن کی تکمیل کے ساتھ ہی ایسی بہت سی کنواری لڑکیاں اُن کی منتظر ہوں گی ۔ ایک مرتبہ ایک خود کش بمبارکی جیکٹ نہ پھٹ سکی اور وہ سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے زخمی ہو گیا۔ جب اُس کی آنکھ کھلی تو وہ راولپنڈی کے کسی ہسپتال میں تھا۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ اُس نے خو د کوہلاک کرنے کی کوشش کیوں کی تو اُس نے ایک نوجوان نرس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔''استاد نے مجھے بتایا تھا کہ میں جیسے ہی جیکٹ کی ڈور کھینچوں گا تو ایک راکٹ میں جنت کی طرف پرواز کرجائوں گا، جہاں ایسی( اُس نرس جیسی) بہت سی حوریں میرااستقبال کریں گی۔‘‘
اس طرح مذہب کی غلط تشریح کرتے ہوئے نوجوانوں کے ذہن انتہا پسندی سے بھر دیے جاتے ہیں۔ کچھ عرصے سے اس نفرت کا رخ مغرب اور اس کے مسلمان اتحادیوں کی طرف ہے۔ گزشتہ چار صدیوں سے اسلامی دنیا کمزوری کا شکار ہے، اس دوران مغرب اور دیگر مہذب ممالک سائنسی اور فنی تعلیم میں بہت آگے جا چکے ہیں۔ اس دوران مسلمان ممالک اپنی جدید تعلیم اور جمہوریت سے دور رہنے کی وجہ سے دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ اب وہ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے اپنی پسماندگی کو مغرب کی سازش قرار دیتے ہیں۔ نوجوانوں کو برین واش کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ فلسطین، چیچنیا اور دیگر علاقوں میں سیاسی بنیادوں پر ہونے والی ناانصافی کو بھی مذہبی پیرائے میں بیان کرکے مغرب کی اسلام دشمنی کا ثبوت پیش کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان بچوں کو پڑھایا جانے والا نصاب اسی ناانصافی کی بات کرتا ہے، لیکن کہیں بھی اپنی غلطی کو تسلیم نہیںجاتا۔ 
جہادی تنظیمیں خود کش حملہ آوروں کو شہید قراردیتی ہیں۔ چنانچہ جو لوگ مرنے کو اپنی زندگی کی معراج سمجھتے ہوں، اُن کی موجودگی میں دنیا کاامن ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی میں ایسی پرتعیش زندگی کی جھلک دکھائی جاتی ہے جو اس دنیا میں اُن کے لیے شجر ِ ممنوعہ ہے۔ داعش نے شام میں اپنے جہادیوں کے لیے لاتعداد بیویوں کا وعدہ کررکھا ہے۔چنانچہ مفتوحہ علاقوںسے پکڑی جانے والی لڑکیوں کو جہادی دلہنیں قرار دے کر ریپ کیا جاتا ہے‘ اس پر دعویٰ ہے کہ وہ دنیا پر اسلامی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں