جب حکومت پی آئی اے کا کنٹرول کسی ماہر سرمایہ کار کے حوالے کرنے جا رہی ہے تو اس پر پی پی پی کا موقف کہ وہ اس کی سینیٹ میں بھرپور مخالفت کرے گی، ایک مرتبہ پھر بھٹو کی موجودہ پارٹی کے فکری دیوالیہ پن کو ظاہر کرتا ہے۔ جب بھی اسے پالیسی سازی میں مشکل فیصلوں کا سامنا ہو تو یہ گھسے پٹے اور بے کار نعروں کا سہارا ڈھونڈنے لگتی ہے۔ تسلیم کہ اس ایشو پر پی ایم ایل (ن) کا رویہ سخت سہی لیکن اس سے مسائل کی سنگینی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہاں مسئلہ ایئرلائن کا ہے جو کئی عشروں سے خسارے میں جا رہی ہے۔ ضرورت سے زیادہ ملازمین کے بوجھ تلے دبی ہے اور جس کے ذمے تین سو بلین روپے واجب الادا ہیں، جبکہ اسے محو پرواز رکھنے کے لیے مسلسل کیش فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ انتظامیہ کے پاس نہ کیش کے بھاری ذخائر ہیں اور نہ ہی یہ روزانہ کی بنیاد پر رقم کا انتظام کرنے کے قابل ہے۔
اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ پی آئی اے اور پی پی پی کی یونینز کے مطابق اس کا حل یہی ہے کہ موجودہ صورت حال کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت اسے رقم فراہم کرتی رہے تاکہ اس کا عملہ بے روزگار نہ ہو۔ اس وقت پی آئی اے دنیا بھر کی ایئرلائنز میں سب سے بھاری سٹاف رکھتی ہے۔ اس کے ایک ایک طیارے کے لیے سات سو افراد کا سٹاف ہے۔ اس کے مقابلے میں امارات ایئرلائنز کے فی طیارے پر ملازمین کی تعداد دو سو بیس ہے۔ پی آئی اے کے بہت سے قابل انجینئرز اور ماہرین کام چھوڑ کر جا چکے ہیں، اور جو باقی رہ گئے ہیں، وہ اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان ہیں۔ ملک کے ایک اہم انگریزی اخبار کے آن لائن ایڈیشن نے حالیہ دنوں پی آئی اے پر ایک نیوز سٹوری شائع کی۔ اس پر بہت سے قارئین کے تبصرے پڑھنے کے لائق تھے۔ زیادہ تر کی رائے تھی کہ وہ اس بیمار اور خسارے میں جانے والے ادارے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے غیر ضروری سٹاف پر اپنے ٹیکس کی رقم ضائع کرنے کے حق میں نہیں۔ کچھ قارئین نے جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پی آئی اے کے سٹاف نے ہڑتال کی تو اُنہیں برطرف کر دیا جائے۔ یہ بات واضح تھی کہ قارئین نے پی آئی اے کے ملازمین کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں جتائی۔
اداروں کی نج کاری کا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے ٹیکس دہندگان کی رقم ضائع ہونے سے بچا کر خسارے کو ادارہ خریدنے والے شیئر ہولڈرز پر ڈالا جا سکتا ہے۔ اس وقت عام پاکستانی ، اور ان میں سے زیادہ تر نے اس ایئرلائن کو کبھی استعمال نہیں کرنا، بھی اس کے نقصانات برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ پی پی پی صرف پی آئی اے یونین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس کے چھبیس فیصد شیئرز کی فروخت کی مخالفت کر رہی ہے‘ حالانکہ اس کا خسارہ ہم، عام پاکستانیوں، نے برداشت کرنا ہے۔ اگرچہ پی آئی اے کے موجودہ چیئرمین ایک قابل احترام بزنس مین ہیں‘ لیکن ان کے زیادہ تر پیش رو ایئرفورس کے ریٹائرڈ افسران تھے۔ وہ کسی ایئرلائن کو پیشہ ور بنیادوں پر چلانے کے طریق کار سے قطعی نابلد تھے؛ تاہم اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ اس کا انتظامی کنٹرول وزارت دفاع کے پاس تھا۔
پاکستان سٹیل ملز کا بھی یہی حال ہے۔ اس ناکارہ اور انتہائی خستہ حال پلانٹ پر تین سو پچاس بلین روپے کا بوجھ ہے۔ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ رقوم پچاسی بلین روپے کے قریب ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ سے اس کا پیداواری عمل معطل ہو چکا ہے۔ اس وقت دنیا میں سٹیل وافر مقدار میں تیار ہو رہا ہے، اور شاید اسے عالمی مارکیٹ سے خریدنا خود تیار کرنے سے سستا پڑے‘ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ اس ادارے کو بھی ایک ''سٹریٹیجک اثاثہ‘‘ سمجھتی ہے۔ درحقیقت سرکاری کارپوریشنز کے زیادہ تر سی ای اوز کا تعلق بعض اداروں کے ریٹائرڈ افسران سے ہوتا ہے۔ دفاعی امور میں ان کی مہارت مسلّم لیکن وہ یقینا کاروبار کا تجربہ نہیں رکھتے۔ پاکستان سٹیل میں کئی سال تک فنانس ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہوئے میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ سٹیل ملز کو کبھی بھی ایک نفع بخش ادارہ نہیں بنایا جا سکتا۔ بنیادی طور پر سوویت دور میں لگائے جانے والی اس مل کو سالانہ دو ملین ٹن سٹیل کی پیداوار کے لیے لگایا گیا تھا، لیکن اس سے ایک ملین ٹن سٹیل تیار کیا جاتا رہا۔ اس طرح اس کی پیداواری لاگت بڑھ گئی اور یہ ادارہ خسارے میں چلتا رہا۔ اس دوران بھی اس پر ملازمین کا بوجھ ڈالا گیا۔
اس پر سرمایہ کاری کرنے کی متعدد کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اب ایک مرتبہ پھر اسے زندہ رہنے کے لیے بھاری رقم درکار ہے۔ ہمارے پاس اس سفید ہاتھی کو 362 ملین ڈالر میں فروخت کرنے کا سنہرا موقع تھا لیکن یہ کسی طرح ضائع ہو گیا۔ پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز اس حقیقت کا برملا اظہار ہیں کہ حکومتوں کو کیوں کاروبار سے دور رہنا چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک میں ایسا ہوتا ہے کہ بھاری منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے نجی شعبہ تیار نہیں ہوتا؛ چنانچہ حکومتوں کو سرمایہ کاری کرنا ہوتی ہے، لیکن پھر دھیرے دھیرے وہ اسے چلا کر اس سے سرمایہ نکال کر اسے نجی شعبے کے حوالے کر دیتی ہیں۔ اس کے لیے بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ ادارے نفع میں جا رہے ہوں تاکہ ریاست ان کو بھاری رقم کے عوض فروخت کر سکے؛ تاہم افسر شاہی نج کاری کی سب سے بڑی مخالف ہے کیونکہ وہ ان کے اداروں کے بل بوتے پر بھاری تنخواہیں اور مراعات لے رہی ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری محکموں میں ملازمت کرنے کا تصور ہی یہی ہے کہ وہاں کچھ نہیں کرنا پڑتا‘ اور مفت کی تنخواہ مل جاتی ہے۔ دوسری طرف نجی شعبے میں کام کرنے کے لیے پوری صلاحیتوںکے مطابق جان مارنا پڑتی ہے۔ اس پس منظر میں توقع تھی کہ پی پی پی ریاست پر پڑا ہوا بوجھ کم کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کرے گی‘ لیکن اس نے کل کے گھسے پٹے نعروں کا سہارا لے کر اس موقع کو گنوا دیا ہے۔