اگر ڈیوڈ کیمرون کا خیال تھا کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے مسئلے پر ہونے والی بحث تہذیب اور شائستگی کے دائرے میں رہے گی تو اب تک اُن کے لیے صورت ِحال حیران کن رخ اختیار کررہی ہوگی ۔اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کہ برطانیہ یورپی یونین کا رکن رہے گا یا نہیں 23جون کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے اُنھوں نے ایک طرح سے زہریلے کیڑوں سے بھر ے ہوئے مرتبان پر سے ڈھکنا ہٹا دیا ہے۔ اب وہ کیڑے ہر طرف زہر پھیلارہے ہیں، اور یہ سلسلہ ریفرنڈم کے بعد بھی جاری رہے گا۔
اس اعلان نے کنزرویٹو پارٹی اور اس کی کابینہ کی صفوں میں انتشار سا برپا کردیا ہے۔ اس کے ارکان اب دونوں کیمپوں کی طرف سے مخالف موقف کی کامیابی کے لیے تحریک چلائے ہوئے ہیں۔ رائے جاننے والے پول سرویز کے مطابق یورپی یونین سے باہر نکلنے والے کیمپ کو اس کی رکنیت کی حمایت کرنے والے کیمپ پرمعمولی سی سبقت حاصل ہے، لیکن فی الحال بڑی تعداد میں ووٹروں نے اس بات کا فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کس موقف کی حمایت کریں گے۔ اس لیے ابھی نتائج کی پیش گوئی ممکن نہیں۔YouGove پول سروے کے مطابق یورپی یونین کی رکنیت چھوڑنے کی حمایت کرنے والوں کی تعداد 38 فیصد، رکنیت رکھنے کے موقف کی حمایت کرنے والوں کی تعداد 37 فیصد ہے ، جبکہ25 فیصد نے تاحال کوئی موقف اختیار نہیں کیا۔ دونوں کیمپوں میں یہ معمولی سا فرق بھی بہت سے معاشی انڈیکیٹرز پر اثر انداز ہورہا ہے۔ کچھ پول سروے ظاہر کرتے ہیں کہ اگر برطانیہ نے یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا تو اسے بہت سے منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ اگرچہ عام انتخابات میں حکمران جماعت کو اقتدار سے رخصت ہوتے دیکھا جاتا ہے لیکن ریفرنڈمز میں شہری روایتی تصورات کی ہی حمایت کرتے ہیں۔
اپنے ابتدائی اندازے میں ڈیوڈ کیمرون کا خیال تھا کہ یونین سے نکلنے کی مہم''یو کے آئی پی‘‘(یونائیٹڈ کنگڈم انڈی پنڈنٹ پارٹی) کے قائد نگل فاریج (Nigel Farage)نے شروع کررکھی ہے۔ نگل فاریج سنجیدہ برطانوی سیاست میںقدرے ''کھلنڈرے‘‘ کردار کے مالک سمجھے جاتے ہیں، چنانچہ وزیر ِ اعظم کا خیال تھا کہ بہت سے لوگ اُنہیں سنجیدگی سے نہیں لیں گے،تاہم لندن کے میئر ، بورس جانسن کی طرف سے یونین سے نکلنے کے موقف کی حمایت نے اچانک اس مہم کو ایک نیا موڑ دے دیا ہے۔ اس سے یہ کیمپ توانا ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ جسٹس سیکرٹری ، مائیکل گوو(Michael Gove) کی یونین چھوڑنے کے مطالبے کی حمایت کرنے والے کیمپ کی طرف روانگی سے بھی وزیر ِاعظم کو دھچکا لگاہے کیونکہ وہ ٹوری کابینہ کے سب سے اہم رکن تھے۔ مائیکل گوو نے بہت جاندار بیان میں اس بات کی وضاحت کی کہ اُنھوں نے وزیر ِاعظم کا ساتھ چھوڑ کر مخالف کیمپ میں شمولیت کیوں اختیار کی۔ اُن کا کہنا تھا۔۔۔''میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ وہ فیصلے جن کا براہ ِ راست تعلق ہماری زندگی سے ہے، کرنے کا حق صرف اور صرف عوام کا ہے۔ یورپی یونین کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ ایسے قوانین جن کا تعلق اس ملک کے عوام سے ہے، کا فیصلہ بھی دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کرتے ہیں۔ ‘‘
خود مختاری کا ایشوبھی بہت سے برطانوی شہریوں کو برہم کرتا ہے کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اُن کی پارلیمنٹ، عدلیہ اور ایگزیکٹو کے بہت سے فیصلوں کو برسلز روند دیتا ہے۔ یورپی یونین کے بھاری تنخواہ لینے والے افسران کے بنائے ہوئے قوانین، جنہیں مقامی سماجی روایات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، کے سامنے روایتی آئینی ادارے بے معنی ہوتے جارہے ہیں ۔ مثال کے طور پر جب یورپی یونین کی رولنگ نے برطانیہ کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو نظر انداز کردیا تو بہت سے برطانوی افرادمشتعل ہوگئے۔ عام طور پر ان فیصلوں میںیورپی یونین کے انسانی حقوق کے قوانین کا حوالہ دیا جاتا ہے، لیکن بہت سے برطانوی شہری اس بات پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کی اپنی عدالتیں بھی یورپی یونین کی مداخلت کے بغیر برطانوی قوانین کی تشریح کرنے کے لیے آزاد نہیں۔
ان مسائل سے کہیں بڑھ کر تارکین ِوطن کا مسئلہ ہے۔ زیادہ تر برطانوی شہری محسوس کرتے ہیں کہ پہلے ہی یورپی یونین اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے بہت سے تارکین ِوطن اُن کے ہاں آباد ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں آٹھ ملین کے قریب تارکین ِوطن آباد ہیں۔ ان میں سے 5.18 ملین کا تعلق یورپی یونین کی حدود سے باہر کی ریاستوں سے ہے، جبکہ 2.74 ملین یورپی یونین کی مختلف ریاستوںسے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ چونکہ بیرونی دنیا سے آنے والے افراد زیادہ تر شہروں میں آباد ہوتے ہیں اس لیے اُن کی موجودگی آنکھوں کو واضح دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت، جبکہ ملازمت کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں، مقامی شہری اپنے معاشرے میں غیر ملکیوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی کو یقینا ناپسند کریںگے۔
چونکہ آج کل یورپ میں پناہ کی تلاش میں آنے والوں کا زیادہ تر تعلق مشرقی ِوسطیٰ کی غیر فعال ریاستوںسے ہے، اس لیے برطانوی شہری یہ خدشہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اُن میں سے بہت سے اُن کے ملک تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائیںگے۔ جرمن چانسلر انجلا مرکل پہلے ہی اپنے ارادے ظاہر کرچکی ہیں کہ وہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں کو اپنے اپنے کوٹے کے تارکین ِوطن کوپناہ دینے پر راضی کرنے کے لیے اُن پر دبائو ڈالیں گی۔ ڈیوڈ کیمرون نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایسے کسی دبائو میں آنے کے لیے تیار نہیں جس سے اُن کے شہریوں کا نقصان ہو،لیکن اگر برطانیہ نے یورپی یونین میں رہنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر مزید تارکین ِوطن کو پناہ فراہم بھی کرنا پڑے گی۔ تاہم اگر یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا گیاتو پھر سکاٹ لینڈ کی علیحدگی کے لیے ایک اور ریفرنڈم کے انعقاد کے لیے دبائو بڑھ جائے گا۔ اس سے پہلے سکاٹ نیشنل پارٹی(ایس این پی) نے اعلان کیا ہے کہ اگربرطانیہ نے یورپی یونین سے نکلنے کا فیصلہ کرلیا تو بھی وہ یورپی یونین کے ساتھ ٹھہرنے کا فیصلہ کریںگے۔
اس بحث میں ایک پہلو کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ اس وقت برطانیہ کے بائیس لاکھ افراد یورپ کی مختلف ریاستوں میں رہتے ہیں۔ ان میں دس لاکھ کے قریب نے سپین میں رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔ یہ افراد زیادہ تر ریٹائرڈ ہیں جبکہ کچھ پیرس سے لے کر پیراگوئے تک ، مختلف مقامات پر ملازمت کرتے ہیں۔ انھوں نے ان مقامات پر مکان اور جائیداد خرید رکھی ہے، اور وہ وہاں مفت طبی سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ یورپی یونین کی رکنیت چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا گیا تو اُن پر ٹیکسز میں اضافہ ہوجائے گا اور سہولیات کم ہوجائیںگی۔ رکنیت چھوڑنے کا فیصلہ ڈیوڈ کیمرون کا سیاسی مستقبل تاریک کردے گا۔ اگرچہ اُن کاکہنا ہے کہ ریفرنڈم کا جو بھی نتیجہ ہو، وہ مستعفی نہیں ہوںگے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُنھوں نے اس ریفرنڈم میں اپنا تمام ترسیاسی سرمایہ جھونک دیا ہے۔ یقینا زیادہ تر یورپی یونین کی ریاستوں کی خواہش ہے کہ برطانیہ اس کی رکنیت ترک نہ کرے، لیکن جس طرح کی رعایت ڈیو ڈ کیمرون مانگ رہے ہیں، وہ کوئی دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگلے چار ماہ تک دنیا دم سادھے دیکھے گی کہ برطانیہ میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔