ہمسایوں کے ساتھ ترکی کے مسائل

کئی برسوںسے ترکی میں پیش آنے والے موجودہ واقعات کا جائزہ لینے میں میری دلچسپی تھی۔ میں ''ٹوڈے زمان‘‘ کی ویب سائٹ پر جاتا تھا اور ترکی زبان کے سب سے مقبول اخبار کی یہ انگریزی ویب سائٹ مجھے بہت کچھ بتاتی تھی۔ حکومت نے گزشتہ دنوں اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اب حکومت کی طرف سے متعین کردہ صحافتی پینل اسے شائع کررہا ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ اب یہ اخبار محض سرکاری پارٹی کا ترجمان بن کررہ گیا ہے ۔ ان دنوں جب میں نے زمان ٹوڈے آن لائن تک رسائی کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اس کا سرور ڈائون ہے۔ 
زمان ٹوڈے پر قبضہ ترک صدر ، طیب اردوان کی تازہ ترین پیش رفت ہے، جس کا مقصد ترکی کے متحرک اور جاندار اپوزیشن میڈیا کو کنٹرول کرنا ہے۔حکومت پر تنقید کرنے والے ٹی وی چینلزکو ہدف بنانے، رپورٹروں اور ایڈیٹروں کو جیل میں ڈالنے اورملک بھر کے نیوز رومز کو خوفزدہ کرنے کی مہم میں شدت اور تیزی آتی جارہی ہے۔ زمان پر قبضے کے لیے کی گئی کارروائی کے دوران آنسوگیس اور واٹر گن کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اخبار کے ساتھ اظہار ِ یک جہتی کا مظاہرہ کرنے والے کارکنوں کو منتشر کیا گیا۔اس جابرانہ کارروائی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ اس اخبار کا تعلق معروف مذہبی شخصیت ، فتح اﷲ گولن سے ہے۔ اسلام کی ترقی پسند سوچ کی نمائندگی کرنے فتح اﷲ گولن ترک حکمران پارٹی سے تنائو کے بعد آج کل امریکہ میں قیام پذیر ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ طیب اردوان کے اتحادی تھے لیکن پھر ان کے درمیان 2013ء میں کشیدگی آگئی۔ ترک صدر نے گولن تحریک سے وا بستگی رکھنے والے ہزاروں سرکاری ملازمین اور افسران کے خلاف تحقیقات شروع کرادیں۔ جن کاروباری گروہوں کا گولن تحریک سے تعلق ہونے کا شبہ ہوتا، اُن کا تعاقب کیا جاتا۔ جب زمان پر قبضہ ہوا، اسی روز ترکی کے سب سے بڑے کاروباری ادارے ''بوڈیک ہولڈنگ‘‘ کے ڈائریکٹرز کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔ 
طیب اردوان کی میڈیا کو خوفزدہ کرنے کی حالیہ کوشش دراصل آئینی کورٹ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب تک یہ واحد ریاستی ادارہ تھا جس پر اُن کا مکمل کنٹرول نہ تھا۔ یہ کورٹ ترکی کے سب سے پرانے اخبار ''کم حریت‘‘ (Cumhuriyet)، کے ایڈیٹر انچیف، کم دندار اور آردم گل کو، جو اس اخبار کے انقرہ کے یبوروچیف تھے، رہا کرنے کا حکم دے چکی ہے۔جن دوصحافیوں نے یہ سٹوری بریک کی تھی کہ ترک انٹیلی جنس مبینہ طور پرشام میں داعش کو ہتھیار فراہم کررہی ہے،اُنہیں جیل میں ڈالا گیا تو عدالت نے اُنہیں بھی رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ اس پر طیب اردوان کا کہنا تھا کہ اُنہیں اس عدالت کی کوئی پروا نہیں۔ ایک اور بیان میں اُنھوں نے کہا۔۔۔''مجھے امید ہے کہ آئینی کورٹ آئندہ ایسے افعال کا اعادہ نہیں کرے گی جس سے اُس کے وجود اور ا س کی آئینی حیثیت پر سوالات کھڑے ہونے لگیں۔‘‘
ترکی میںیہ جابرانہ اقدامات اور دھمکیاں اُس وقت دیکھنے میں آرہی ہیں جب یورپ میں مہاجرین کا بحران گہراہوتا جارہا ہے۔ شام سے آنے والے لاکھوں مہاجرین ترکی سے ہوتے ہوئے یونان کی طرف جارہے ہیں تاکہ وہاںسے وہ اپنی حتمی منزل، جرمنی، ناروے یا سویڈن تک رسائی حاصل کرسکیں۔ کئی ماہ سے یورپی یونین ترکی پر زور دے رہی ہے کہ وہ مہاجرین کے سیلاب کو آگے بڑھنے سے روکے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان ڈیل طے پاچکی ہے کہ ترکی یونان میں جانے والے مہاجرین کو واپس لے گا، اوراس کے بدلے ترکی کو بھاری مراعات ملیںگی۔ ہوسکتا ہے کہ مہاجرین کو زبردستی واپس لینے کا عمل عالمی قانون کے خلاف ہو لیکن جرمن چانسلر انجلا مرکل مہاجرین کے بہائو کو کم کرنے کے لیے اتنی بے چین ہیں کہ وہ ترک منصوبے کی دیگر متنازع شقوں کو بھی تسلیم کرچکی ہیں۔ ان میں سے ایک ترکی کو6 بلین یورو کی فراہمی کے علاوہ ترک شہریوں کے لیے ویزے کے بغیر تین ماہ تک کے لیے Schengen zone میں سفر کی سہولت بھی شامل تھی ۔ اس کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کا معاملہ بھی تیزی سے طے پانے کا امکان پیدا ہو چلا ہے۔ 
یورپی یونین کے کئی ایک ممبران نے انسانی حقوق کی پامالی، میڈیا پر سختی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ترکی پر کی جانے والی مہربانی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے ۔کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ طیب اردوان مہاجرین کے بہائو کو اپنے مقاصد کی بجا آوری کے لیے کم یا زیادہ کردیتے ہیں۔ ترک رہنما یورپی یونین میں پھیلنے والی بے چینی کو بھانپتے ہوئے مال حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں گنوائیں گے۔ فی الحال ترکوں کو ویزے کے بغیر یورپ میں سفر کرنے کی اجازت مل گئی ہے لیکن اُنہیں کام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تاہم جب ہزاروں نوجوان افراد مختلف مقامات کا رخ کریںگے تو یہ دیکھنا عملی طو رپر ممکن نہ ہوگا کہ اُن میںسے کوئی کام تو نہیں کررہا ۔ اس کے علاوہ یورپی حکومتوں کا انتظامی ڈھانچہ پہلے ہی ہزاروں مہاجرین کی آمد کی وجہ سے دبائو کاشکارہے۔ 
جہاں تک ترکوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے صدر کے سخت گیر اقدامات کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اردوان کا مقصد دوتہائی اکثریت حاصل کرنا ہے جس کے بعد وہ ایگزیکٹو صدارت کی راہ ہموا ر کرسکتے ہیں۔ اُنھوں نے بعض مواقع پر جرمن آمر ، ہٹلر کے لیے توصیفی کلمات ادا کیے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہٹلر کی فعالیت کی وجہ اُنہیں حاصل حتمی طاقت تھی۔ تاہم گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں، جو دوسری مرتبہ ہونے والے تھے، اُن کی ''اے کے پارٹی ‘‘بمشکل ہی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ مطلوبہ دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے سلسلے کا ایک قدم کرد وں کے موقف کی ترجمانی کرنے والی ''ایچ ڈی پی‘‘کو،جس نے ڈالے گئے ووٹوں کا دس فیصد حاصل کیاتھا، کالعدم قرار دینا ہے۔ حکومت اس پارٹی کے ارکان کو یہ کہہ کر پارلیمنٹ کی نشستوں سے محروم کرتی دکھائی دیتی ہے کہ اُن کے علیحدگی پسندگروہ ''پی کے کے ‘‘ کے ساتھ روابط ہیں ۔ اس وقت تک کردوں کے خلاف فوجی کارروائی میں تیزی آتی جارہی ہے۔ 
داخلی مسائل کا شکار ترکی اب جنگ کو اپنی سرحدوں کے قریب دیکھ رہا ہے۔ اس نے شام کے صدر ، بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لیے اسلامی انتہا پسندوں کی حمایت میں اپنا وزن ڈالا۔ اب ترک فورسز داعش کے خلاف لڑنے والے شامی کردوں پر گولہ باری کررہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے اس اقدام کی مخالفت کی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے داعش کے خلاف لڑنے والے دستے کمزور ہورہے ہیں۔اس دوران ترکوں نے روسی طیارہ گرا کر روس کو بھی اشتعال دلا دیا۔ اطلاعات کے مطابق یہ طیارہ محض چند سیکنڈز کے لیے ترکی کی فضا ئی حدود میں داخل ہوا تھا۔ اس پر پیوٹن نے اپنے غصے پر قابو تو رکھا لیکن اپنے شہریوں کو ترکی کا سفر اختیار کرنے سے روک دیا۔ چونکہ ترکی روس کے سیاحوں کے لیے سب سے من پسند منزل ہے، اس لیے اس پابندی سے ترک معیشت کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔ جب چودہ سال پہلے اے کے پارٹی اقتدار میں آئی تو اس کے وزیر ِ داخلہ ، احمد دائوداوگلو نے، جو اس وقت ملک کے وزیر ِ اعظم ہیں، کہا تھا کہ ترکی اپنے ہمسایوں کے ساتھ تمام مسائل حل کرے گا ، لیکن اس وقت ترکی اپنے ہمسایوں کے ساتھ محاذآرائی پر کمر بستہ ہے۔ اس کی وجہ صرف صدر اردوان کا جارحانہ رویہ ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں