خون آلود امریکی خواب

امریکہ میںموجودہ صدارتی انتخابات کے لیے چلائی جانے والی مہم کے دوران روزانہ کسی نہ کسی سیاہ فام نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کی خبریں معمول بن چکی ہیں۔ اسی باقاعدگی کے ساتھ ہلاک کرنے والے افسران کو بے قصور بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ دی گارڈین کے مطابق 2015 ء میں ساڑھے گیارہ سو سیاہ فام نوجوان پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ اگرچہ سفید فام شہری بھی ہلاک ہوجاتے ہیں لیکن سیاہ فاموں کی تعداد اُن کی نسبت نوگنا زیادہ ہے۔ پولیس میں اصلاحات لانے کی حوصلہ افزا خبروں کے باوجود ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ 
جب بارک اوباما صدر بنے تو کیا ہم نے نہیں سوچا تھا کہ امریکہ میں نسل پرستی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی؟ بہت سے سادہ لوح افراد، جن میں راقم الحروف بھی شامل ہے ، کا خیال تھا کہ امریکہ اپنے داغدار ماضی سے جان چھڑا کر آگے بڑھ چکا ہے۔ ایک سیاہ فام صدر کو وائٹ ہائوس میں دیکھ کر یہی خیال ذہن میں آتا تھا۔ کیا یہ سب کچھ ایک خواب تھا؟ حقیقت وہی ہے جو ہم کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں؟ ہالی وڈ کی فلمیں دیکھ کر جوان ہوتے ہوئے یہ تاثر قائم ہوا تھا کہ امریکی دولت مند ہوتے ہیں، اُن کے شہر کے مضافاتی علاقوں میں وسیع وعریض گھر، پورچ میںدوبڑی کاریں اور نیلے شفاف پانی والے سوئمنگ پول کے کنارے باربی کیو پارٹیاں ہوتی ہیں، لیکن جب میں پہلی مرتبہ نیویارک آیا ، اور یہ کوئی تیس سال پہلے کی بات ہے ، تومفلوک الحال افراد کو پتھریلی گلیوں میں سردی میں کھلے آسمان تلے سوتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کچھ امریکی خواب دیکھتے اُس وقت بھی سرد دھند میں کہیں کھو گیا تھا۔ 
اپنی سلگتی ہوئی کتاب، ''Between The World And Me‘‘ میں تانہسی کوٹس(Ta-Nehisi Coates)اپنا موقف پور ی امریکی قوم کے سامنے رکھتا ہے ۔ یہ کتاب اُس نے ایک خط کی صورت تحریر کی ہے ، جو اُس نے اپنے پندرہ سالہ بیٹے کے نام لکھا۔ اپنے موضوع اور انداز کے حوالے سے انتہائی جاندار کتاب میں کوٹس غلامی کے دور میں ملک میں پروان چڑھنے والے متذبذب رویوں اورتشدد پسند سوچ کے بارے میںبات کرتے ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کو مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں۔۔۔''یہاں میں چاہتا ہوں کہ تم یہ بات اچھی طرح سمجھ جائو۔ امریکہ میں سیاہ جسم کو ہلاک کرنا ایک روایت کا درجہ رکھتا ہے ، یہی اس ملک کا ورثہ ہے ۔ غلامی صرف جبری مشقت کا نام ہی نہیں، یہ کسی بھی انسان کو ا س کی فطری مرضی کے تمام تقاضوں کے خلاف کام کرنے پر مجبور کرتی ہے ، لیکن یہ ایک معمولی بات ہے ۔ کسی بچ نکلنے والے سیاہ فام کا سرکچل دینا، اس کی لاش کا دریاسے ملنا، یہ سب کچھ اتنی باقاعدگی سے ہوتا ہے جیسے کوئی صنعت لگائی جارہی ہو۔ انہیں ایک سیاہ فام جسم چاہیے جس کی زبان، آنکھوں اور کانوں میں یہ کیل ٹھونک سکیں، اس کے کانوں کو کاٹ دیں۔ اس صنعت میں گاڑیاں، چابک، زنجیرں، کانٹے، آری، جو بھی ہاتھ لگے سیاہ فام جسم ،سیاہ فام خاندان، سیاہ فام قوم پر آزما کر دیکھا جائے گا۔‘‘
کوٹس دلیل کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امریکیوں کو سیاہ فاموں کی موجودگی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی برتری کے احساس کو جتا سکیں۔ وہ کیلی فورنیا کے سینیٹر جان سی کولہون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔۔۔''معاشرے کی تقسیم دولت منداور غریب افراد کے درمیان نہیں، بلکہ سفید فام اور سیاہ فام افراد کے درمیان ہے اور چونکہ سفید فام دولت مند اور سیاہ فام غریب بھی ہیں، اس لیے سفید فام اعلیٰ اور قابل ِ احترام طبقہ قرار پاتے ہیں۔‘‘مصنف اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ پولیس سیاہ فاموں کو بہت ڈھٹائی سے ، بلاخوف وخطر اس لیے ہلاک نہیں کرتی کہ وہ بہت ظالم اور جابر پولیس افسرا ن ہوتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ امریکی ریاست اور معاشرہ نسلی تعصب کی اجازت دیتا ہے ۔ چنانچہ نہتے سیاہ فام نوجوانوں کو دن دہاڑے، عوام کے سامنے گولی مار کر ہلاک کیا جاسکتا ہے، اور گولی چلانے والے پولیس افسران کا دامن صاف رہتا ہے ۔ کوٹس کا کہنا ہے ۔۔۔''حقیقت یہ ہے کہ پولیس امریکہ کی خواہش اور خوف کی عکاسی کرتی ہے ۔ ہم نے اس میں جو بھی کریمینل جسٹس پالیسی بنائی ہے، آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے تھوڑے سے ظالم پولیس والوں نے نافذ کیا ہے ۔ اس میں تمام معاشرہ شامل ہے ۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں سیاہ فاموں کی جبری قید، تشدد اور ہلاکتیں اسی جمہوری خواہش سے مطابقت رکھتی ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ پولیس متعصب ہے ، بلکہ یہ کہ تمام ملک ہی متعصب ہے‘اکثریت متعصب ہے ۔‘‘
زیادہ تر مثالوں میں دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر ان ہلاکتوں کا کیس درج ہوتو جج اورعدالت پولیس افسران کا تحفظ کرتے ہیں۔ پولیس کا اکثر اوقات یہ موقف تسلیم کیا جاتا ہے کہ شکار ہونے والے شخص پر مسلح ہونے کا شبہ تھا۔ چونکہ امریکی آسانی سے آتشیں ہتھیار خرید سکتے ہیں، اس لیے یہ موقف تسلیم کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ میں ہر سال تیس ہزار سے زائد افرادفائرنگ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ پولیس کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتیں اس لیے زیادہ توجہ حاصل کررہی ہیں کیونکہ کیمرے والے موبائل فون سے شہری اس کی ریکارڈنگ کرلیتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ ویڈیوز نیٹ پر بہت زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ ان کی موجودگی میں پولیس کو بے گناہ قرار دینا مشکل ہوجاتا ہے ۔ 
کوٹس لکھتے ہیں کہ پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں پر تشدد زندگی کی ایک حقیقت ہے ، اور یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ سیاہ فام لڑکوں کو بچپن سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ پولیس کو آگے سے جواب نہ دیں، صرف اُن کا حکم مانیں، چاہے وہ کتنا ہی توہین آمیز کیوں نہ ہو۔ سیاہ فام والدین کو خوف لاحق رہتا ہے کہ اُن کے بچوں کی زندگی کسی بھی لمحے چھین لی جائے گی۔ امریکی معاشرے اور تاریخ میں تشدد کا سیاہ باب رقم ہے ۔ اس کی بیرونی دنیامیں لڑی جانے والی جنگوں کو ہمیشہ اپنے عوام کی حمایت حاصل رہی ہے۔ یقینا اس ملک کے بانیوں نے قبائلی امریکیوں کی نسل کشی کی تھی۔ یہ سلسلہ کسی بھی دور میں رکنے نہیں پایا۔ ملک میں آسانی سے دستیاب ہتھیار اس کی سنگینی میں اضافہ کرتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں