ترکی میں بغاوت کی ناکامی اور کریک ڈائون

ترکی میں ہونے والی ناکامی فوجی بغاوت سے اٹھنے والی ارتعاش کی لہریںملک کو بدستور لرزہ براندام کیے ہوئے ہیں۔ ترکی کی ''تطہیر ‘‘ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ شہریوں کی دھلائی جاری ہے ۔ اس وقت تک نوہزار پولیس مین، اکیس ہزار نجی سکولوں کے اساتذہ، سترہ سو وزارت ِ تعلیم کے اہل کار اور پندرہ سو فنانس منسٹری کے افسران کو برطرف کیا جاچکا ہے ۔ایک سو چالیس جنرلوںاور ایڈمرلوں (گویا نصف کے قریب ہائی کمان) سمیت مسلح افواج کے دس ہزار اہل کارحراست میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ چوبیس سو سے زائد ججوں اور پندرسوکے قریب یونیورسٹی اساتذہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا ہے ۔ سیکڑوں میڈیا آئوٹ لٹس کو بند اور صحافیوں کو قید کردیا گیا ہے ۔ کم از کم ساٹھ ہزار سے زائد افراد جیل میں ہیں یا اُنہیںملازمت سے نکال دیا گیا ہے۔ 
ان سب کے خلاف گولن نیٹ ورک کے ساتھ تعلق رکھنے اور فوجی بغاوت کا کسی نہ کسی طور پر حصہ ہونے کا الزا م ہے ۔ فتح اﷲ گولن ، جو کہ جدید تصورات رکھنے والے عالم ِ دین ہیں اورجن کے جدید علوم حاصل کے پیغام نے مسلمانوں کو تحریک دی ہے ، اس الزام کی ترید کرتے ہیں۔ درحقیقت 2013 ء تک طیب اردوان اور فتح اﷲ گولن آپس میں اتحادی تھے ۔ اُنھوں نے کئی عشروں سے ملک پر چھائے ہوئے کمال اتاترک کے لبرل سیکولرازم کا اثر زائل کیا اور طاقتور فوج کا سیاسی کردار ختم کرتے ہوئے اسے واپس بیرکس میں بھیجا۔ تاہم اب ترک صدرکو شک ہے کہ اُن کے قریبی عزیزو اقارب اور ساتھیوں کی ہوشربا بدعنوانی کے سوشل میڈیا پر ہونے والے انکشافات کے پیچھے گولن، جو کہ امریکہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، کا ہاتھ تھا ۔ اُن انکشافات کے بعد بہت سے پولیس افسران، پبلک پراسکیوٹر اور انٹیلی جنس افسران کو برطرف بھی کیا گیا، لیکن وہ تطہیر موجودہ کریک ڈائون کی نسبت بہت معمولی تھی۔ 
ترکی کے ناکام شب خون کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے ۔ ترکی نے حکومت ِ پاکستان سے پاک ترک انٹرنیشل سکولوں کی چھبیس برانچوں کو بند کرنے کامطالبہ کیاہے ۔ 1993 ء میں قائم کی گئی یہ تنظیم، جسے کچھ بزنس مین بلا نفع چلا رہے ہیں، کی ساکھ بہت عمدہ تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کی ہے ۔ آج کل ان چھبیس سکولوں میں کم وبیش دس ہزار بچے زیر ِ تعلیم ہیں۔ ان سکولوں کے ڈائریکٹرز کا موقف ہے کہ ان کا گولن تحریک سے کوئی تعلق نہیں۔ اُن کا اصرار ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے سکولوں کو بند کرنے کی کوشش کے خلاف قانونی مزاحمت کریں گے ۔ 
گولن کی خدمت تحریک تعلیمی کاوشوں میں سرگرم ِعمل ہے ، اور 2009 ء میں یہ امریکہ سمیت پوری دنیا میں ایک ہزار کے قریب سکول چلارہی تھی جن میں دوملین کے قریب طلبہ پڑھتے تھے ۔ اس کوشش میں مسلمان بزنس مین نے ان کا ساتھ دیا اور طلبہ کو وظائف مہیا کیے ۔خدمت تنظیم دنیا بھر میں فلاحی کام بھی کرتی ہے ۔ جس چیز نے بہت سے مبصرین کو حیران کردیا وہ بغاوت کے فوراً بعد ہزاروں افراد پر خدمت تنظیم سے وابستہ ہونے کا الزام لگاکر گرفتار کرلیا گیا اور اسے تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔ افشا ہونے والی کچھ رپورٹس کے مطابق اس تنظیم کا نیٹ ورک ایک سمارٹ فون ایپ سے ایک دوسرے سے رابطے میں تھا، اور اس ایپ کی سکیورٹی بہت ناقص تھی۔ تاہم عقل نہیں مانتی کہ جنرل اور ایڈمرل لیول کے افسران ایسی حماقت کرسکتے ہیں کہ وہ محض ایک سمارٹ فون ایپ پر بھروسہ کرتے ہوئے اتنا خطرناک اقدام کرڈالیں۔ 
یہ بات واضح ہے کہ طیب اردوان کی وفادار سکیورٹی ایجنسیوں نے اُن کے مخالف مشتبہ افراد کی فہرست تیار کر رکھی تھی، اورپھر ہونے والی ناکا م بغاوت نے اُنہیں ملک بھر سے اردوان مخالفین کا صفایا کرنے کا موقع فراہم کردیا۔ چونکہ ترکی میں ایمر جنسی نافذ ہے ،اس لیے کوئی شہری بھی ترک حکومت کے اقدامات کو چیلنج نہیں کرسکتا، خاص طور پر جب عدلیہ کو ہلا کر رکھ دیا گیا ہو۔ اگرچہ ترکی نیٹو کا رکن ہے لیکن گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ہونے والی برطرفیوں اور گرفتاریوں نے ملک کو ہلا کررکھ دیا ہے ۔ اگرچہ طیب اردوان کا طرز ِحکومت پہلے ہی آمریت کے رنگ میں ڈھلتادکھائی دے رہا تھا لیکن ان کے موجودہ سیاسی عزائم اور طاقت کے اظہار نے بہت سوں کو حیرت میں مبتلا کردیا ہے ۔ یورپ میں بہت سے حلقے یہ سوال اٹھانا شروع ہوگئے ہیں کہ کیا موجودہ صورت ِحال کے باوجود ترکی کو ایک ڈیل کے تحت Schengen ایریا میں بلاویزہ سفری سہولیات دی جاسکتی ہیں؟جہاں تک طیب اردوان کا تعلق ہے تو وہ اُن کا موقف ہے کہ فی الحال ترکی کو تین بلین یورو ڈیل میں سے صرف ایک ملین یورو ملے ہیں۔ اس ڈیل کے تحت ترکی نے یورپ جانے والے مہاجرین کو روکنا، یا کم از کم اُن کی رفتار کو سست رکھنا تھا۔ اگر یہ ڈیل ناکام ہوگئی تو شامی مہاجرین کا ایک زبردست ریلا یورپ کی طرف بڑھتا دکھائی دے گا ، خاص طور پر اُس وقت جب حلب زبردست بمباری کی زد میں ہے ۔ 
شب خون اور اس کے رد ِعمل میں ہونے والی کارروائی کیا ظاہر کرتی ہے ؟ ایک بات تو طے ہے کہ ترک فوج کا مورال بہت ڈائون ہوچکا ہے۔ اس کی نصف کے قریب ہائی کمان جیل میں ہے ، جبکہ ہزاروں جوان بھی گرفتار اور مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُن میں سے بہت سے شب خون میں گولن کا ہاتھ ہونے کا اعتراف کیا ہے ۔ تاہم ترک سکیورٹی اور تحقیقاتی ادارے قیدیوں سے اعتراف ِ جرم کراتے وقت نرمی برتنے یا انکار سننے کے عادی نہیں ہیں۔ تشدد سے بہت سے اعترافات کرائے جاسکتے ہیں۔ منظر ِعام پر آنے والے بہت سی تصاویر ظاہر کرتی ہیں کہ گرفتار شدہ فوجیوں پر بے پناہ تشدد کیا جارہا ہے ۔ 
طیب اردوان غیر ملکی حریفوں پر بھی بغاوت کی پشت پناہی کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اُنھوں نے خصوصی طور پر اپنے دیرینہ حلیف ، امریکہ کو گولن کو پناہ دینے پر آڑے ہاتھوں لیا ہے ۔ واشنگٹن کاکہنا ہے کہ اُس کا اس تمام معاملے میں کوئی ہاتھ نہیں، اور یہ کہ گولن کو بہت جلد ترکی کے حوالے کردیا جائے گا۔ سیکرٹری آف سٹیٹ ، جان کیری کا کہنا ہے کہ انقرہ گولن کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت فراہم کرے ۔فی الحال ترکی کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ یقینا گولن خود کو ڈی پورٹ کرنے کے خلاف مزاحمت کریں گے ۔ اگر ترکی قانونی جنگ ہار گیا تو ہم دیکھیں گے کہ سازش کی تھیوریاں گھڑنے والے ، جن کی ہمارے ہاں کمی نہیں، امریکہ کو ہی اصل قصور وار ٹھہرائیںگے ۔ اگرچہ طیب اردوان خو د کو توانا کرتے جارہے ہیںلیکن ان کوششوں کی وجہ سے ترکی عالمی تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کی معیشت ، خاص طور پر سیاحت کا شعبہ بہت متاثر ہوںگے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں