یہ بات حیرت انگیز ہے کہ دہشت گردی کی کوئی کارروائی پاکستانیوں کے ذہنوں کو بہت سرعت سے متاثر کرتی ہے، لیکن افسوس، یہ اثر دیرپا ثابت نہیں ہوتا۔ گزشتہ ہفتے کوئٹہ کے ایک ہسپتال میں ستر سے زائد افراد کی شہادت اس سلسلے میں ایک سٹڈی کیس ہے۔ طویل عرصے سے طاقِ نسیاں پر پڑے نیشنل ایکشن پلان، جو دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعد بنایا گیا، کی گرد جھاڑی گئی، اس کے نفاذ کا جائزہ لینے کے لیے ایک ریٹائرڈ افسر، جنرل جنجوعہ کی خدمات حاصل کی گئیں اور ان کے نیچے ایک اور کمیٹی بنا دی گئی۔
لیکن ہمارے ہاں مسئلہ کمیٹیوں کی قلت نہیں۔ ہمارے پاس نیکٹا (نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی) ہے۔ اس کے علاوہ پندرہ سے زائد کمیٹیاں نیشنل ایکشن پلان کے مختلف مراحل کا جائزہ لے رہی ہیں۔ ان میں سے گیارہ کے قریب کی سربراہی وزیر داخلہ کر رہے ہیں۔ یہ تمام مشق ''کمیٹی کے ہاتھوں موت‘‘ کی کلاسک مثال ہے۔ جب بیوروکریسی کام نہیں کرنا چاہتی، تو ایک کمیٹی بنا دی جاتی ہے۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ ایکشن لے لیا گیا ہے۔ جلد ہی عوام اُس واقعے کو بھول جاتے ہیں، اتنی دیر میں کوئی اور بحران سر اٹھا لیتا ہے۔ اس کے لیے ایک اور کمیٹی بنا دی جاتی ہے۔ چونکہ ناصر جنجوعہ صاحب براہ راست وزیر اعظم کو رپورٹ پیش کریں گے، اس لیے اس سلسلے میں وزیر داخلہ کا کردار مزید کم ہو جائے گا۔ ان کا وقت بھی سمٹ جائے گا، اور جیسا کہ زاہد حسین نے اپنے حالیہ کالم میں نشاندہی کی، ان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار پہلے ہی افسوسناک حد تک ناکام رہا ہے۔ اُنہوں نے پنجاب میں جہادی تنظیموں کے خلاف ایکشن لینے کی کوشش کی‘ لیکن نیشنل ایکشن پلان کے تحت معلومات کو مربوط کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئے؛ تاہم اُن کی سب سے بڑی ناکامی دہشت گردی کے نظریاتی پہلو کی بابت تھی۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت تمام مدرسوں کو رجسٹرڈ اور ریگولیٹ کیا جانا تھا۔ نفرت انگیز تقاریر پر پابندی لگانا تھی۔ پُرعزم اینٹی ٹیررازم فورس قائم کرنا تھی۔ کالعدم تنظیموں کو دوبارہ مختلف ناموں سے ابھرنے سے روکنا تھا۔ دہشت گردی کے نیٹ ورک کی فنانسنگ روکنا تھی۔ فاٹا میں انتظامی اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھانا، نصاب پر نظرثانی کرتے ہوئے اس سے انتہا پسندی پھیلانے والے مواد کو نکالنا اور کریمنل جسٹس سسٹم کو موثر، فعال اور جاندار بنانا تھا۔
اٹھارہ ماہ قبل تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق رائے سے یہ تجاویز نیشنل ایکشن پلان میں مربوط کی تھیں، لیکن ان میں سے ایک پر بھی عمل نہیں کیا گیا؛ چنانچہ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ جنرل راحیل شریف نے حالیہ دنوں نیشنل ایکشن پلان کے عدم نفاذ پر ناراضی اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جب اس جنگ میں سیکڑوں فوجی اپنی جانوں کی قربانی پیش کر چکے ہوں تو فوج سیاست دانوں کی نااہلی پر تنقید کرنے میں حق بجانب ہے۔ ہتھیار اٹھانے والوں کو ہلاک کرنا مسئلے کا حل نہیں، کیونکہ، جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، اس وسیع و عریض نیٹ ورک میں کھیپ کی کوئی کمی نہیں۔ یہ ایک نظریاتی جنگ ہے اور اسے کلاس روم، کورٹ رومز اور روایتی اور سوشل میڈیا کے میدانوں میں لڑا جانا ہے۔ لیکن چوہدری نثار علی خان ان تمام امور میں مجسم ناکامی ثابت ہوئے ہیں۔
دوسرے ممالک میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں حکومتوں کی نیندیں اُڑا کر اُن میں توانائی کی بجلیاں سی بھر دیتی ہیں۔ وہ اپنے عوام کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتی ہیں۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد ہوم لینڈ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ قائم کیا گیا تاکہ انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو مربوط کیا جا سکے؛ چنانچہ انتہا پسندی کی حمایت کا ہلکا سا شبہ بھی ہو جائے تو فوری ایکشن دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ کچھ مسلمانوں کو بلاجواز ہدف بنانے کی بھی اطلاعات ہیں‘ لیکن اُس معاشرے نے فیصلہ کر لیا ہے کہ دہشت گردی کو مطلق برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس کے برعکس پاکستان میں سیاسی تصورات پر بے حسی اور عدم فعالیت کی گرد اُڑنے کا نام نہیں لیتی۔ بنیادی طور پر حکمران جماعت پی ایم ایل (ن) مدرسوں پر کریک ڈائون کرکے بنیاد پرستوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے علاوہ یہ پنجاب میں جہادی نظریات کا پرچار کرنے والے میڈیا کے خلاف ایکشن لینے کے لیے تیار نہیں۔ دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عمران خان سے درپیش چیلنج کی وجہ سے وزیر اعظم نواز شریف بھی بہتر سمجھتے ہیں کہ سخت فیصلے کرنے کے بجائے ٹال مٹول کی پالیسی سے کام لے کر وقت گزارا جائے۔ ہم سب جانتے کہ ان کے بھائی، وزیر اعلیٰ پنجاب، شہباز شریف نے طالبان سے درخواست کی تھی کہ وہ پنجاب کو چھوڑ دیں۔ اس ''حکمت عملی‘‘ نے کام بھی کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ ایسے ملک میں مذہبی طبقے کے خلاف کارروائی کرنا ممکن نہیں جس میں ضیا دور کے بعد کی نسلوں نے انتہا پسندی اور عدم برداشت کے ماحول میں آنکھ کھولی ہو۔ معاشرے میں انتہا پسند عناصر اور ان کے حامیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے‘ جو عام طور پر خیال کی جاتی ہے۔ پچیس ہزار سے زائد مدرسوں سے ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے لاکھوں نوجوان آج کی اس پیچیدہ دنیا میں ملازمت تلاش کرنے کے لیے تیار نہیں کیے گئے۔ اس کے علاوہ جذباتی اور نوآموختہ الیکٹرانک میڈیا تیزی سے لاکھوں افراد کو مس گائیڈ کر رہا ہے۔ اس طبقے کا دبائو اتنا شدید ہے کہ پرویز مشرف بھی پاکستان کو لبرل اور جدید معاشرہ بنانے کے عزم سے الٹے قدموں پھر گئے تھے۔ اُنہیں بھی سیاسی بچائو کے لیے مذہبی طبقے کی حمایت کی ضرورت تھی؛ چنانچہ اُنھوں نے اپنا ہاتھ سیکولرازم اور کمالزم سے کھینچ لیا۔
شاید قیام کے وقت سے پاکستان کو جس سب سے اہم معاملے کا سامنا ہے وہ یہی ہے کہ اس کی تخلیق ایک عقیدے کے نام پر ہوئی ہے۔ اس کے بعد ہمارے سامنے کوئی جائے مفر بچتی ہی نہیں۔ کئی عشروںکی برین واشنگ کے بعد اب زیادہ تر پاکستانی مسٹر جناح کے تصورات سے بہت دور نکل چکے ہیں۔ آج تو یہ بات کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں کہ مسٹر جناح ایک سیکولر تھے۔