کیا چھٹی مرتبہ خوش قسمتی ساتھ دے گی؟

آپ یہ سوچتے ہوں گے کہ پانچ آرمی چیفس کا چنائو کرنے کے بعد وزیر ِاعظم نواز شریف اس ''کام ‘‘ میں کافی مہارت حاصل کرچکے ہوں گے، تو یہ آپ کی غلطی ہے ۔ جب بھی اُنھوں نے کسی افسر کو آرمی چیف بنایا، اور یہ فہرست 1991 ء میں جنرل آصف نواز جنجوعہ سے لے کر 2013 ء میں جنرل راحیل شریف تک پھیلی ہوئی ہے ، اُنہیں اپنے ہی ا نتخاب نے مایوس کیا۔ ''اپنا بندہ ‘‘ لگانے کی دائمی کوشش میں اُن کے منتخب کردہ چیفس اُن سے زیادہ اپنے ادارے یعنی فوج کے وفادار نکلے ۔ 
نواز شریف صاحب کی کتاب میں یہ رویہ بے وفائی کے مترادف ہے ۔درحقیقت اگر کوئی ایک چیز اُن کے بطور وزیر ِاعظم تینوں ادوار میںمشترک ہے تو وہ یہی مایوسی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بے چینی ہے جو اُنہیں فوج کی اعلیٰ کمان کی طرف سے زہر مار کرنا پڑی ۔ برس ہا برس سے اُنھوں نے ملٹری اسٹبلشمنٹ کو اپنی اتھارٹی کے تابع کرنے کی کوشش کی ، مگر کامیاب نہ ہوئے ۔ اس معاملے میں وہ اکیلے نہیں، آصف علی زرداری کو بھی جلد ہی حقیقت کا آئینہ دکھادیا گیا ، جب اُنھوں آئی ایس آئی کو وزارت ِداخلہ کے ماتحت کرنے کی کوشش کی ۔ تاہم نواز شریف کی کوششوں کا دور کہیں طویل تر اور برداشت کیے جانے والے صدموں سے لبریز ہے ۔ چاہے بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کی کوشش ہو یا پاک چین معاشی راہداری کو سویلین کنٹرول میں لانے کی سعی، اُنہیں یکے بعد دیگر ے قدم پیچھے ہی ہٹانا پڑاہے ۔ 
بے شک اُنہیں اپنی کوششوں میں حال ہی عمران خان کی وجہ سے بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی کیونکہ پی ٹی آئی کے قائد حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی مسلسل مہم چلائے ہوئے ہیں ۔ 2014 ء کے دھرنوں نے نوا زشریف حکومت کو بہت حد تک کمزور کردیا تھا، چنانچہ اُنہیں کسی ممکنہ شب خون سے بچنے کے لیے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعاون کرنا پڑا۔ فوج کومداخلت کرنے پر مسلسل اکساتے ہوئے عمران خان نے اس بات کو یقینی بنایا کہ فوج کی منتخب شدہ حکومت پر بالا دستی قائم رہے ۔ ہمارا ایک اور مسئلہ پیچیدہ سول ملٹری تعلق ہے ۔ نواز شریف فوج کا ذہن پڑھنے میں غلطی کرجاتے ہیں۔ دراصل کورکمانڈروں کو ابتدائی دور سے ہی اپنے ادارے کے ساتھ حتمی وفاداری کاکبھی نہ بھولنے والا سبق سکھادیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد کمانڈنگ آفیسر اس بات کو مسلسل یقینی بناتے ہیں کہ ترقیایوں ، مراعات اور دیگر سہولیات کے مربوط نیٹ ورک کے ذریعے نئے افسران کو ہر حکم ماننا سکھایا جائے ۔ 
دوسری طرف نواز شریف صاحب کی دنیا میںمحنت، وفاداری اور مہارت کے صلے میں وزارت دینے کی روایت خال خال ہی ملتی ہے ۔ چنانچہ ہمارے بہت سے سیاست دان اپنی وفاداریاں اس طرح تبدیل کرلیتے جیسے کوئی لباس بدلتا ہے ۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ آج ق لیگ کے اہم ترین رہنما کبھی نواز شریف کی پی ایم ایل کے دستر خوان پرنمایاں جگہ رکھتے تھے ۔ اسی طرح عمران خان کے بہت سے ''قابل ِ انتخاب‘‘ سیاست دان کچھ عرصہ پہلے دیگر جماعتوں میں شامل تھے ۔ وہ صرف ممکنہ اقتدار کو شیئر کرنے کے لیے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے ۔ گویا سیاست دانوں کی دنیا میں ''رویے لچک دار ‘‘ ہوتے ہیں،اس لیے نواز شریف ایک منظم چین اینڈ کمان رکھنے والے ادارے کے سامنے سر نہیں اٹھاسکتے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوج کے اندر افسران کی آمریت پائی جاتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج کے اندر کسی بھی معاملے پر کمانڈروں اور سینئر جنرلوں کے درمیان طویل بحث ہوتی ہے ، معاملے کو پرکھا جاتا ہے ، اعتراضات کیے جاتے ہیں، لیکن جب ایک مرتبہ فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو پھر سب اس کی پابندی کرتے ہیں۔ ہر کوئی بنائی جانے والی پالیسی کی حمایت میں کھڑا ہوتا ہے ۔سیاست دانوں کی دنیا اس کے برعکس ہوتی ہے ۔ 
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ فیصلہ سازی کا تمام تر استحقاق آرمی چیف کا نہیں ہوتا، بلکہ یہ اتفاق ِرائے سے کیا جاتا ہے ۔ چنانچہ میٹنگز کے دوران آرمی چیف کو پتہ چل جاتا ہے کہ کون سے افسران سوچنے والا دماغ رکھتے ہیں۔ 1999 ء میں کارگل ایشوکے بعد جنرل مشرف کو اپنے افسران کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اس مہم کے دوران بہت سا جانی نقصان ہوا تھا۔ درحقیقت یہ نواز شریف تھے جنہوں نے فوج کی عزت محفوظ رکھنے کے لیے واشنگٹن کا سفر کیا اور بل کلنٹن سے مداخلت کی اپیل کی۔ اس کے بعد جب اُنھوں نے پرویز مشرف سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا تو مشرف پر تنقید کرنے والے افسران اُن کے ساتھ کھڑے ہوئے گئے اور یہ وزیر ِاعظم تھے جنہیں گھر ، بلکہ بیرون ملک ، جانا پڑا۔ 
اب یہاں قابل ِ غور نکتہ یہ ہے کہ فوج کے ادارے میں کورکمانڈر ز وزیر ِاعظم یا آئین کی بجائے اپنے چیف کے وفادار ہوتے ہیں۔ دنیا کی دیگر جمہوری ریاستوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں فوجی سختی سے آئین اور سویلین کنٹرول میں رہتی ہے ۔ کئی سالوں سے براہ ِ راست یا بالواسطہ مداخلت کرتے ہوئے کورکمانڈرز اس تصور کو اپنے دل میں راسخ کرلیتے ہیں کہ اُنھوں نے ہی اس ملک کو متحد رکھا ہوا ہے ۔ وہ اپنی منظم بیرکس سے سیاسی نظام آلودہ، ناقص اور کمزور ، چنانچہ ملک کے لیے نقصان دہ، دکھائی دیتا ہے ۔ اُن کے نزدیک تمام سیاست دان بدعنوان اور نااہل ہیں، جبکہ صرف اُن کے منظم اور باصلاحیت ادارے نے ہی ملک کو سنبھالا ہوا ہے ۔ جی ٹی روڈ پر رواں دواں ٹرک بھی یہی تاثر دیتے ہیں۔ 
تاہم ، جیسا کہ ہم نے بارہا دیکھا ہے ، فوج کے پاس مسائل کوئی پائیدار حل نہیں ہے ۔ کوئی مارشل ٹرینوں تک کی وقت مقرہ پر آمدورفت کو یقینی بناسکا،نہ ہی دولت مند اشرافیہ سے قانون کے مطابق ٹیکس وصول کرسکا۔ تاہم عوام کے نزدیک ''بدعنوان، نااہل اور ناکام سیاست دانوں‘‘ کے مقابلے میں دفاعی اداروں تاثر بہت بہتر ہے ۔ اس طرح آرمی چیف کو نہ صرف اپنے افسروں اور جوانوں بلکہ عوام کی حمایت کا بھی یقین ہوتا ہے ۔ چنانچہ وہ بہت قدآور دکھائی دیتا ہے ۔ چنانچہ اس سے کوئی فرق نہیںپڑتاکہ نواز شریف کسے آرمی چیف چنتے ہیں، وہ اُن کی بجائے اپنے ادارے کا ہی وفادار ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں