ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے دھرنا ختم کرنے کے اعلان پر حکومت نے اطمینان کا سانس لیا۔فیصل آباد اور لاہور کے جلسے کے بعد عوامی تحریک کے کارکنوں میں نیا جذبہ اور ولولہ ابھرا‘حکومت پر دبائوبڑھا اور یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ اگر بلدیاتی انتخابات کے اعلان تک دونوں دھرنے جاری رہے‘ جلسوں کے ذریعے موبلائزیشن کی پالیسی پر عمل ہوا تو پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی مشکلات دو چند ہوں گی مگر ڈاکٹر صاحب نے ان توقعات پر پانی پھیر دیا۔
محرم سے پہلے پہلے دھرنا سمیٹنے کی حکمت کیا تھی؟۔وہی لوگ جانتے ہوں گے جو ڈاکٹر طاہر القادری کے حلقہ مشاورت میں شامل ہیں۔ چودھری برادران کے قریبی حلقوں نے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دیا کہ وہ دھرنا ختم کرنے کے حق میں نہیں گویا ڈاکٹر صاحب کا ارادہ یہی ہے۔ مگر 21اکتوبر کی صبح تک ڈاکٹر صاحب اس تاثر کی نفی کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے دھرنا کے شرکاء سے الوداعی خطاب میں جو باتیں کیں وہ بلاشبہ درست ہیں مگر دھرنا انہوں نے کسی فیس سیونگ اور موثر جواز کے بغیر ختم کیا اور اپنے پرجوش‘ پرعزم‘ ایثار پیشہ اورجذباتی کارکنوں پر سکائی لیب گرا دیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کی دھرنا پالیٹکس نے سیاست کے انداز بدلے‘لوگوں کو اپنے حقوق کا شعور دیا‘ حکومت کی اخلاقی ساکھ زوال پذیر ہوئی اور گو نواز گو کے نعرے نے مقبولیت حاصل کی۔ مگر صرف اس مقصد کے لیے اتنا طویل دھرنا دینے اور خلق خدا کو مشکلات میں مبتلا کرنے کی ضرورت تھی؟ اس بارے میں دو آراء ہیں۔ یہ مقصد تو ابتدائی دو ہفتوں میں بطریق احسن حاصل ہو گیا تھا اور دھرنا کہانی کو ایک اچھا موڑ دے کر ابتدائی دو یا زیادہ سے زیادہ چار ہفتوں میں ختم کیا جا سکتا تھا ۔
مثلاً جب سراج الحق کی قیادت میں سیاسی جرگہ ان کی منت سماجت کر رہا تھا‘ یا اسحاق ڈار نے میاں جاوید شفیع سے مل کر‘دیرینہ تعلقات کا حوالہ دے کر منانے کی کوشش کی اور جب آرمی چیف میاں نواز شریف کے استعفے سے کم پر مفاہمت کے خواہشمند تھے۔ ممکن ہے اس موقع پر دبائو بڑھا کر شہدائے ماڈل ٹائون کے مرکزی ملزموں کے استعفے کا مقصد حاصل کر لیا جاتا مگرتب آخری آدمی‘ آخری گولی اور حتمی کامیابی تک جدوجہد اور دھرنا جاری رکھنے کی سوچ غالب تھی۔شائد14اگست سے قبل طے شدہ اہداف کی کامیابی کا سو فیصد یقین تھا یا باعزت و باوقار پسپائی کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
2013ء میں دھرنا جس انداز میں اختتام پذیر ہوا اور میڈیا میں ڈاکٹر طاہر القادری کا اقدام ہدف تنقید بنا یہ عوامی تحریک کی قیادت اور اتحادیوں کے لیے ڈرائونا خواب تھا اور وہی طے شدہ اہداف سے کم کے حصول پر مذاکرات اور مفاہمت کی راہ میں رکاوٹ بنا رہا وگرنہ پارلیمنٹ کی جتھے بندی اور فوجی قیادت کی سیاسی معاملات سے لاتعلقی کے بعد ایگزٹ پالیسی بنانے کی ضرورت ہر سطح پر محسوس کی جا رہی تھی اور ایثار پیشہ کارکنوں کے صبر و برداشت کا امتحان لیتے چلے جانے کی حکمت عملی کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے جس کا اگر دھرنا قیادت کو علم نہ تھا تو حیرت انگیز بات ہے۔
بعض غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اس سال بلدیاتی انتخابات اور ان کے نتائج کی روشنی میں اگلے سال عام انتخابات کا انعقاد‘ وہ مقاصد ہیں جو دھرنا قیادت نے بہرحال حاصل کر لیے ہیں۔ اگر ضامن پیچھے نہ ہٹے اور میاں نواز شریف کوئی طاقتور کارڈ کھیلنے میں کامیاب نہ ہوئے تو یہ نوشتہ دیوار ہے اور اس یقین دہانی پر دھرنا ختم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ آئی ایس آئی چیف کی تبدیلی اور فوج کی طرف سے سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی واضح پالیسی اپنی جگہ مگر 2013ء کے انتخابات مشکوک طے پا چکے ہیں اور ملتان کے بعد اگر جلالپور پیر والا کے ضمنی الیکشن میں بھی مسلم لیگ ن کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا ٹکٹ یافتہ امیدوار اسی انجام سے دوچار ہوا جو حلقہ این اے 149میں حکومت کے حمایت یافتہ امیدوار کا مقدر بنا تو مڈ ٹرم انتخابات کے لیے دبائو میں مزید اضافہ ہو گا اور ڈاکٹر طاہر القادری اس کی تیاری میں مصروف ہیں ۔
اس کے باوجود دھرنا ختم کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب کو اپنے کارکنوں کو اعتماد میں لینے اور ہفتہ دس دن قبل فضا ہموار کرنے کی ضرورت تھی تاکہ کارکن مایوس ہوں نہ مخالفین سو فیصد ناکامی کا تاثر ابھارنے میں کامیاب ۔ مگر شیخ الاسلام اور ان کے قریبی ساتھیوں نے یکطرفہ اور اچانک فیصلہ کر کے اپنے مداحوں اور حامیوں کو سرپرائز دیا جبکہ مخالفین کو پروپیگنڈے کا بھر پور موقع فراہم کیا ۔ میاں نواز شریف نے اپنے کارکنوں کو بیان بازی سے روک کر اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا تاہم یہ اندر خانے طے شدہ معاملہ ہو سکتا ہے اور دھرنا کے شرکاء کے زخموں پر مرہم رکھنے کی دانشمندانہ کوشش۔
ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے دھرنے کا اختتام اور عمران خان کا میدان میں ڈٹے رہنے کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی تحریک نے یہ فیصلہ اپنے طور پر کیا۔ اس یک طرفہ اعلان سے لندن پلان اور کسی سکرپٹ رائٹر کی موجودگی کے حکومتی دعویٰ کا بُطلان ہوا ہے؛ کیونکہ عمران خان اور طاہر القادری لاہور سے اکٹھے نکلے نہ کسی مشترکہ حکمت عملی پر آخر تک متفق ہو سکے اور نہ دھرنا جاری رکھنے یا ختم کرنے کا فیصلہ اتفاق رائے سے کر سکے۔ایک دھرنے کے اختتام سے عمران خان کے کارکنوں کا جذبہ ماند پڑ سکتا ہے وہ عوامی تحریک کے پرعزم و پرجوش کارکنوں کی موجودگی کی وجہ سے استقامت کا مظاہرہ کر رہے تھے اب انہیں اپنے زور بازو اور غیر معمولی جوش و جذبے سے کامیابی کی منزل کی طرف قدم بڑھانا پڑے گا۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے اعلان کو اگر حکومت نے اپنی دانشمندی ‘ سیاسی بصیرت جوڑ توڑ کی سیاست اور عوامی مقبولیت کا نتیجہ سمجھ کر پرانی ڈگر پر چلنے کی کوشش کی تو یہ اس کی بھیانک غلطی بلکہ حماقت ہو گی۔ دھرنوں نے سیاسی سطح پر بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ مسلم لیگی کارکنوں کی خواہشات اور توقعات بڑھ گئی ہیں۔ ارکان اسمبلی کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے۔ 2011ء کی طرح اب ان کے لیے نئے راستے کھلے ہیں ۔ عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اپنی قیادت کے رویے سے نالاں ارکان اسمبلی کے لیے حوصلہ افزا ہے جبکہ حکومت کی حلیف اور مددگار جماعتوں کے تیور بھی تبدیل ہونے لگے ہیں اور مڈٹرم الیکشن کی بات اب ہر ایک کی زبان پر ہے۔
میاں نواز شریف کا صل امتحان اب یہ نہیں کہ وہ پانچ سال کس طرح پورے کرتے ہیں۔ وہ آصف علی زرداری ہیں نہ ان کے مدمقابل کوئی فرینڈلی اپوزیشن ہے ۔ عمران خان اور طاہر القادری نے حکومت کی کشتی میں سوراخ کر دیا ہے اور اس کا احساس سراج الحق‘ آصف علی زرداری اور حکومت کے دیگر عقلمند حلیفوں کو بھی ہے۔ میاں صاحب کے لیے بہترین لائحہ عمل یہ ہے کہ وہ اب سست روی اور سہل پسندی کی موجودہ حکمت عملی کو خیر باد کہہ کر اپنے مزاج‘ انداز کار اور طرز حکمرانی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کا اشارہ دیں۔ فوج اور خفیہ ایجنسیوں سے بہتر تعلقات کار اور سازشی عناصر سے گلو خلاصی ‘ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد‘ کابینہ میں ردوبدل اور بعض وزراء کی چھٹی‘ موثر ‘ پائیدار اور نتیجہ خیز انتخابی اصلاحات‘ سانحہ ماڈل ٹائون کے تمام ملزموں کی ایوان اقتدار سے بے دخلی اور منصفانہ تحقیق و تفتیش‘ مرکز میں پنجابی بیورو کریسی کے غلبے کے منفی تاثر کی نفی‘ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور الیکشن کمیشن و نیب کی تنظیم نو‘ جس کے بعد مڈٹرم انتخابات ہوں اور تمام جماعتیں عوام سے ازسر نو مینڈیٹ لیں۔
اگر حکومت اس پر تیار نہیں تو پھر موجودہ بحران کسی نئی شکل میں سنگینی اختیار کریگا اور اس سے نمٹنا موجودہ حکمرانوں کے بس میں نہیں کیونکہ موجودہ جھٹکا اسے ادھ موا کرچکا ہے اور اگر پارلیمینٹ پشت پناہی نہ کرتی ‘ عمران خان اور طاہر القادری یکجان دو قالب ہوتے اور دھرنے کے شرکاء کی تعداد واقعی متاثر کن ہوتی تو بنجارہ ایک ہفتے میں ہی لاد چلا تھا۔ موجودہ صورتحال حال کم و بیش 1997ء سے مشابہ ہے جب میاں صاحب نے قوم کو مقتدر قوتوں کی سازش کا ہوا دکھا کر اور مقتدر قوتوں کو عوام کی طاقت سے ڈرا کر اپنے دو خود ساختہ حریفوں صدر فاروق لغاری اور چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ بعدازاں اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر کیا اور لمبی تان کر سو گئے جس کا نتیجہ 12اکتوبر کو برآمد ہوا۔ اب بھی غفلت ‘ سہل پسندی اور بے جا خود اعتمادی کسی بڑے حادثے کا موجب بن سکتی ہے ۔قدرت ہمیشہ مہربان ہوتی ہے نہ مفادات کا اشتراک سدا جتھے بندی میں مددگار ثابت ہو تا ہے۔ عمران خان ابھی میدان میں موجود ہے اور بدستور استعفے پر مُصر۔