وزیر کمرہ امتحان میں

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب میاں نوازشریف دوسری بار ملک کے وزیراعظم بنے اور انہوں نے کشتوں کے پشتے لگائے۔ ایک ایک کرکے اس وقت کے صدر فاروق لغاری ، چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ اور آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو استعفے دینے پر مجبور کیا۔ حجرہ شاہ مقیم کی جٹی کی جو خواہش پوری نہ ہوسکی تھی یعنی گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے ، وہ اس دور میں پوری ہوتی نظر آئی۔
اپنا صدر، اپنا چیف جسٹس اور اپنا آرمی چیف '' بھیا بنے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘‘ چنانچہ کابینہ سے ان وزیروں کو فارغ کرنے کی سوجھی جو بڑبولے اور خودسر تھے ۔ جس اخبار میں ، میں ان دنوں کام کرتا تھا‘ اس کے صفحہ اول پر کراچی کی ڈیٹ لائن سے سنگل کالم خبر چھپی کہ وزیراعظم نوازشریف نے جھنگ میں سٹڈ فارم پر بجلی چوری کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے وفاقی وزیر عابدہ حسین سے استعفیٰ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ خبر پڑھ کر مجھے شک گزرا کہ کراچی کی ڈیٹ لائن سے یہ خبر اسلام آباد کے ایما پر لاہور سے لگوائی گئی ہے۔ میں نے ریذیڈنٹ ایڈیٹر سجاد میر صاحب سے چیک کیا تو انہوں نے تصدیق کی۔ ساری کہانی سمجھ آگئی۔
ہوا یوں تھا کہ میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف نے فوج کو مصروف رکھنے کے لیے مختلف اہم ادارے اور منصوبے فوجی جرنیلوں کے حوالے کردیے تھے۔ جرنیل کی سربراہی میں فوجی اہلکار واپڈا کے میٹر ریڈر کے طور پر کام کررہے تھے۔ گھوسٹ سکولوں کی تلاش، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر اور ٹرینوں کی آمدورفت اور پٹڑیوں کی مرمت بھی حاضر سروس جرنیلوں کی ذمہ داری تھی۔ جنرل (ر) ذوالفقار واپڈا کے سربراہ تھے اور ان کے عملے نے جھنگ میں بیگم عابدہ حسین کے زرعی فارم پر بجلی چوری کی واردات پکڑی تھی۔ بیگم عابدہ حسین وضاحتیں ہی کرتی رہ گئیں کہ اگر میرے کسی ملازم نے واقعی جرم کیا ہے تو مستوجب سزا ہے‘ اس میں میرا کیا قصور ؟ لیکن ان دنوں سانحہ ماڈل ٹائون نہیں ہوا تھا جس میں قتل کے مجرم بھی ادنیٰ اہلکار ٹھہرتے ہیں‘ حکم دینے اور منصوبہ بندی کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ بھی شریک جرم ہیں ۔ چنانچہ یہ خبر شائع ہونے کے دوسرے یا تیسرے روز عابدہ حسین نے اپنے منصب سے استعفیٰ دیدیا اور وفاقی کابینہ ایک بجلی چور وزیر سے پاک ہوگئی۔
وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کا تین روزہ اجلاس طلب کیا ہے، جس میں وفاقی وزراء، اور وزراء مملکت کی ڈیڑھ سالہ کارگزاری کا جائزہ لے کر انہیں اپنے منصب پر برقرار رکھنے یا سبکدوش کرنے کا فیصلہ ہوگا۔ ایک ٹی وی چینل پر بعض وزراء کی کارگزاری، کمزوریوں ، خامیوں ، من مانی اور نااہلی و کرپشن کے حوالے سے رپورٹ چلی تو مجھے یہ واقعہ یاد آیا۔ وزیراعظم کو اپنی کابینہ میں ردوبدل، کسی وزیر کی رخصتی اور اپنے پسندیدہ رکن پارلیمنٹ کو کابینہ میں شامل کرنے کا کلی اور صوابدیدی اختیار ہے۔ بھٹو صاحب ہر سال ، ڈیڑھ سال بعد کابینہ میں ردوبدل کیاکرتے تھے ۔ محمد خان جونیجو ، بے نظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی نے بھی اپنے ادوار میں یہ کام کیا۔ محمد خان جونیجو مرحوم نے اپنے بعض طاقتور وزراء کو فارغ کیا اور جنرل ضیاء الحق کی ناراضگی مول لی مگر کسی دور میں کابینہ کا اجلاس بلاکر وزراء کو سکول کے بچوں کی طرح آموختہ دہرانے اور چھٹیوں میں دیاجانے والا ہوم ورک پیش کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ ان کی عزت نفس ملحوظ رکھی گئی اور عذر معذرت سے کام چلایاگیا۔
میاں صاحب بظاہر دھرنوں کے دبائو سے نکل چکے ہیں اور انہیں اپنے ساتھیوں کی غیر فعالیت، نااہلی اور غیر سیاسی رویے کا تجربہ ہوچکا ہے۔ بحران کے دوران ان میں سے بیشتر میاں صاحب کی کشتی کا بوجھ بنے‘ بحران کو سنگین کرنے میں حصہ بقدر جشہ ڈالتے رہے۔ میاں صاحب اپنے وزیروں ، مشیروں میں سے ہر ایک کو اپنی اوقات یاد دلاکر کابینہ سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ؎
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشان نکلا
ایک دوست کا خیال ہے کہ اس انداز میں جن ارکان کو فارغ خطی ملے گی وہ توہین کے شدید جذبے اور احساس کے تحت میاں صاحب کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں مگر میں اس رائے سے متفق نہیں ۔ جس طرح کسی دور میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ پیپلزپارٹی سے نکل کر ہر وزیر، مشیر اور عہدیدار ٹکے ٹوکری ہوجاتا ہے‘ چوب مسجد سو ختنی نہ فروختنی ، اسی طرح میاں صاحب کو بھی حالیہ بحران سے عہدہ برآ ہونے کے بعد ان کے مشیروں نے یہ باور کرا دیا ہے کہ آپ مقدر کے سکندر ہیں اور قسمت کے دھنی۔ اب آپ سیاہ کریں یا سفید، کسی طاقتور وزیر کو بیک بینی و دوگوش کابینہ سے نکالیں یا سید غوث علی شاہ ، لیاقت جتوئی اور ممتاز بھٹو جیسے قدآور رہنمائوں سے بے نیازی برتیں‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مسلم لیگ آپ کے جیب کی گھڑی اور حکومت ہاتھ کی چھڑی ہے۔ خوب مشق ناز کریں کسی کی کیا مجال کہ سرتابی کرے۔
جمہوری نظام کو مضبوط و مستحکم دیکھنے اور موجودہ شاہانہ طرز حکمرانی میں تبدیلیوں کے خواہش مند عناصر عرصہ دراز سے یہ چاہتے تھے اور مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی ، کارکنوں اور خیر خواہوں کی یہ آرزو تھی کہ وفاقی کابینہ کو اس کاٹھ کباڑ سے پاک کیا جائے جس نے حکومت اور پارلیمنٹ کے مسائل میں اضافہ کیا، اداروں میں لڑائی کرائی اور ہر موقع پر پھپھے کٹنی کا کردار ادا کیا مگر جنہیں نکالنا مقصود ہے ان سے معذرت کرنے کے بجائے گندم کے ساتھ گھن کو پیسنے کی حکمت عملی چنداں مفید اور قابل رشک نہیں۔ مسائل تین چار وزیروں کے پیدا کردہ ہیں‘ باقی وزیروں کی ناقص کارگزاری میاں صاحب کے طرز حکمرانی کا منطقی نتیجہ ہے۔ کہیں سیکرٹری زیادہ بااختیار اور وزیراعظم کا چہیتا ہے اور کہیں وزیر مملکت یا پارلیمانی سیکرٹری وزیر کی بات نہیں سنتا، من مانی کرتا ہے۔ لیکن یہ خرابیاں دور کرنے کے بجائے وزیراعظم نے ساری کابینہ کو کمرہ امتحان میں بٹھا دیا ہے۔
اندیشہ یہ ہے کہ چرب زبان اور چکر دینے کے ماہر وزیر اس موقع پر بھی زبان اور ہاتھ کی صفائی دکھائیں گے اور اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیں گے مگر شرمیلے، نسبتاً شریف اور چاپلوسی کے فن سے ناآشنا وزیر، مشیر بھل صفائی کے اس عمل کا شکار ہوجائیں گے۔ اس کے باوجود وزیراعظم نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر عمل ہونا چاہیے۔ لوگ موجودہ چہروں سے اکتا گئے ہیں۔ لیکن وہ موجودہ بعض کوڑھ مغز اور فتنہ پرور وزیروں کی جگہ ایسے لوگوں کو بھی وزارتوں میں دیکھنا نہیں چاہتے جن کا کل اثاثہ ٹی وی چینلز پر اچھل کود، مخالفین کی کردار کشی ، مد مقابل سے الجھنا، جھگڑنا اور زبان کے زخم لگانا ہے۔ میاں صاحب کو احساس ہونا چاہیے کہ اپنے کام سے کام رکھنے اور حسن کار گزاری سے اپنا اور حکومت کا امیج بہتر بنانے والے لوگ ہی ان کے حقیقی خیر خواہ اور سرمایہ ہیں۔ کبھی پرویز مشرف، کبھی پرویز الٰہی کبھی کسی دوسرے کے دستر خوان کی ریزہ چینی اور شان میں قصیدہ گوئی کے عادی بحران کی سنگینی اور شدت کو ختم یا کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے نہ حسن انتظام میں کامیاب و کامران۔
وزیروں کو کابینہ سے نکالنے کی تدبیر بہرحال خوب ہے۔ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے۔ عابدہ حسین آج تک یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی ہیں کہ انہیں فارغ کرنے کا انوکھا طریقہ کس کو سوجھا۔ میرا قصور سردار فاروق لغاری سے تعلقداری اور میاں صاحب سے سمجھوتہ کرانا تھا یا واقعی بجلی چوری ؟ جس کا علم مجھے میڈیا کے ذریعے ہوا۔ اب خواجہ صاحب سمیت بہت سوں کے سوچنے کی باری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں