بھلی کرے آیا

یہ فروری 2008ء کی بات ہے۔ عام انتخابات سے چار پانچ روز قبل میاں شہباز شریف نے چند اخبار نویسوں اور کالم نگاروں کو ڈیفنس والے گھر میں چائے پر مدعو کیا اور متوقع انتخابی نتائج کے حوالے سے اپنا اپنا تجزیہ پیش کرنے کو کہا۔ ایسے مواقع پر میں عموماً کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کو سنتا اور معلومات سے مستفید ہوتا ہوں۔ 
میاں شہبازشریف کے اصرار پر میں نے رائے دی کہ اگر میاں نوازشریف محترمہ کے انتقال کے بعد اپنی انتخابی مہم معطل نہ کرتے‘ سندھ میں رابطۂ عوام کی بھرپور مہم چلاتے اور محترمہ کی عدم موجودگی میں واحد تجربہ کار اور مقبول لیڈر کے طور پر اپنا تشخص ابھارتے تو نتائج مسلم لیگ کے حق میں برآمد ہوتے؛ تاہم پنجاب میں صورتحال اب بھی آپ کے حق میں ہے آپ کو صوبائی حکومت بنانے کی تیاری کر لینی چاہیے۔ عطاء الحق قاسمی اور عطاء الرحمن نے حیرت سے پوچھا کیا واقعی؟ میں نے وثوق سے کہا کیوں نہیں؟ 
میاں شہبازشریف کا خیال تھا کہ اندرون سندھ کی 45 میں سے 43 نشستیں پیپلز پارٹی جیتے گی جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ ق دبائو اور ترغیب کے علاوہ دھاندلی کا ہر حربہ اختیار کر کے اکثریت حاصل کرے گی۔ میں نے مودبانہ اختلاف کیا۔ 18 فروری کو سندھ کی طرح پنجاب میں بھی نتائج عمومی سوچ کے برعکس برآمد ہوئے۔ 2013ء کے انتخابات میں بھی سندھ کے نتائج پیپلز پارٹی کی خواہش کے مطابق برآمد ہونے کی کوئی امید نہ تھی اس بنا پر لیاقت جتوئی اور دیگر سندھی رہنما الزام عائد کرتے ہیں کہ آر اوز نے پیپلز پارٹی کی مدد کی۔ 
سندھ میں پیپلز پارٹی 1970ء سے اب تک چھٹی بار برسراقتدار ہے۔ پیپلز پارٹی کو مرکز میں بھی پانچ بار موقع ملا وہ چاہتی تو اس صوبے کو رشک پیرس نہ سہی‘ پنجاب کی طرح جہازی سائز سڑکوں‘ انڈر پاسز‘ اوور ہیڈ برجز‘ چمکتی دمکتی عمارتوں‘ کھمبیوں کی طرح اگنے والی ہائوسنگ سوسائٹیوں اور دانش سکولوں کا گڑھ بنا سکتی تھی مگر اس نے سستے اور جذباتی نعروں پر اکتفا کیا اور اپنے منشور کو بھول کر جاگیرداروں‘ وڈیروں اور سرداروں کے مفادات کی حفاظت میں جُت گئی۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ میں وڈیروں کی نجی جیلیں بدستور قائم ہیں۔ غیر قانونی جرگے لوگوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کرتے ہیں‘ خواتین اور مردوں کو کاروکاری کرنے کا فرسودہ رواج ہے‘ ہاری غلاموں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ریاستی ادارے ان سرداروں کے سامنے کورنش بجا لاتے ہیں اور نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لے کر جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ 
غالباً 2006ء میں لاڑکانہ کے ایک سردار نے جرگے سے کاروکاری ہونے والی دو خواتین کو بچوں سمیت اپنے حرم میں ڈال لیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے شور مچانے پر کئی سال بعد عدالت نے برآمدگی کا حکم دیا پولیس زیر تحویل خواتین کو برآمد کرنے کے لیے سردار صاحب کے ڈیرے پر گئی تو کارندوں نے پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر بند کردیا اور چار پانچ گھنٹے بعد اس شرط پر چھوڑا کہ وہ آئندہ اس طرف کا رُخ نہیں کریں گے اور حکام بالا کو خواتین کی عدم موجودگی کی رپورٹ دی جائے گی۔ جان بچانے کے لیے غریب پولیس اہلکاروں نے وہی کیا جو سردار کی خواہش اور علاقے کی روایت تھی۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ جو حکومتیں قائم ہوئیں ان کا مطمح نظر بھی اسلام آباد کی خوشنودی اور اپنے اقتدار کی حفاظت و طوالت تھا اس لیے غریب سندھیوں کا کبھی بھلا نہ ہوا۔ 
میاں نوازشریف نے اپنے پہلے اور دوسرے ادوار میں اندرون سندھ عوام سے رابطہ کیا ان کا دکھ درد بانٹنے کی کوشش بھی کی مگر ان کے ساتھیوں میں سے کوئی نہ تو بڑا جاگیردار تھا نہ میاں صاحب کی طرح متحرک اور نہ پیپلز پارٹی کی قیادت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال۔ اس لیے کوئی خاص نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ 2008ء کے بعد میاں صاحب نے ویسے ہی سندھ کو آصف علی زرداری کے حوالے کر کے اپنی توجہ پنجاب پر مرکوز کی اور مرکز میں حکومت بنا کر اپنے ساتھیوں غوث علیشاہ‘ لیاقت جتوئی‘ شیرازی برادران اور ممتاز بھٹو کی طرح سندھ کو بھول گئے۔ شاید این آر او کی ایک شق یہ بھی تھی کہ پنجاب ہمارا سندھ تمہارا۔ ورنہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران میاں صاحب لاڑکانہ‘ سکھر‘ نواب شاہ‘ میرپور خاص اور ٹھٹھہ میں سے کسی جگہ عوام کو دیدار ضرور کراتے۔ 
عمران خان کو لاڑکانہ سے پندرہ کلو میٹر دور علی آباد اُنہڑ میں محتاط ترین اندازوں کے مطابق پچیس تیس ہزار افراد سننے اس بنا پر آئے کہ آصف علی زرداری اور ان کے چیلوں چانٹوں سے مایوس ہیں اور عمران کے سوا ان کے پاس کوئی سیاسی آپشن نہیں۔ عام آدمی تو درکنار پیپلز پارٹی سے اختلاف کرنے والے اُنہڑ‘ چانڈیو‘ لغاری‘ سید‘ لنڈ‘ جتوئی اور مہر قبائل سے تعلق رکھنے والے جاگیردار بھی صوبائی حکومت‘ پولیس اور انتظامیہ کی زیادتیوں کا شکار ہیں۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ایم پی ایز اور ایم این ایز فلور آف دی ہائوس پر زیادتیوں کا رونا روتے ہیں مگر کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ دیہی علاقوں میں ڈاکوئوں اور قصبوں‘ شہروں میں سرکار دربار سے وابستہ وڈیروں کے کارندوں کے علاوہ پولیس نے عام شہریوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان‘ چٹی دلالی اور بہو بیٹیوں کو زبردستی حرم میں ڈال لینے کا کلچر فروغ پزیر ہے اور کوئی ریاستی ادارہ دستگیری پر آمادہ نہیں۔ غربت و افلاس‘ بے روزگاری‘ مہنگائی‘ چوری‘ ڈکیتی‘ کرپشن اور راہزنی کا تدارک کرنے کی کوئی سنجیدہ تدبیر نہ عوام کو تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کا منصوبہ۔ نعرے بازی البتہ بہت ہوئی ہے۔ 
بھٹو صاحب اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پرکشش شخصیت‘ عوامی مقبولیت اور ملک گیر قد کاٹھ کی وجہ سے جاگیرداروں اور وڈیروں کو اختلاف کی جرأت تھی نہ کسی اور طرف دیکھنے کی ضرورت۔ سندھی عوام بھی محکوم و مظلوم ضرور ہیں بے شعور نہیں ورنہ قوم پرست جماعتیں انہیں کب کا اُلو بنا کر ایک وفاقی پارٹی کو شکست سے دوچار کر چکی ہوتیں۔ تاہم اب عوام اور جاگیردار دونوں آصف علی زرداری اور ان کے ساتھیوں کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور اسی بنا پر عمران خان کی پہلی کاوش ناکامی سے دوچار نہیں ہوئی۔ اگر عمران خان نے ایسے ہی چار چھ جلسے سندھ کے دیگر شہروں میں کر دیئے تو عرصہ دراز سے متبادل کی تلاش میں سرگرداں الیکٹ ایبلز کے علاوہ حکومت‘ پولیس‘ انتظامیہ اور ڈاکو کے مظالم سے تنگ عوام بالخصوص نوجوان عمران خان کی طرف سرپٹ دوڑتے نظر آئیں گے۔ 
مسلم لیگ ن کی عدم دلچسپی‘ مسلم لیگ ق اور ف کی بے عملی اور آصف علی زرداری کے مخالف قبائل و سرداروں کی بے نیازی کا فائدہ عمران خان اٹھا سکتے ہیں اور انہیں پنجاب کے مقابلے میں بہتر نتائج کی توقع کرنی چاہیے کیونکہ ہزار اختلاف کے باوجود شریف برادران کی حکمرانی سے لوگ اتنے زیادہ مایوس اور تنگ نہیں جتنے سندھ کے عوام زرداری ٹولے سے۔ ان کے اردگرد خونخوار وڈیرے جمع ہیں نہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں غربت و افلاس‘ بے روزگاری اور محکومی و بے بسی کا وہ عالم ہے جو سندھ کے ہاری‘ مزدور‘ ہنر مند اور نوجوان کا مقدر ہے۔ عمران خان نے گزشتہ روز کے جلسے میں معلوم نہیں کیوں ڈاکوئوں اور ان کے سرپرست پتھاریداروں کے ذکر سے گریز کیا حالانکہ یہ سندھ کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ ہے ڈاکوئوں کے غول کے غول ان جاگیرداروں نے اپنی کیٹیوں میں جمع کر رکھے ہیں اور یہی بیشتر کا ذریعہ آمدنی ہے۔ ڈہرکی میں جن ڈاکوئوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا وہ بھی کسی نہ کسی پیر‘ مہر‘ وڈیرے اور پتھاریدار کے کارندے ہوں گے۔ نجی جیلیں اور بیگار کیمپ بھی ان ظالموں کے دم قدم سے آباد ہیں اور من پسند خواتین پر کاروکاری کا الزام لگا کر انہیں زندگی بھر کے لیے اپنے ڈیرے کی داسی بنا لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے جس کا ذکر عمران خان کی تقریر میں ہونا چاہیے تھا۔ 
سندھ ایسی قیادت کے لیے چشم براہ ہے جو جبر و استحصال‘ ناانصافی اور دھونس دھاندلی کے موجودہ کلچر سے عوام کو نجات دلا سکے یہ ایک چیلنج ہے میاں صاحب نے یہ پتھر اٹھایا مگر چوما اور بھاری سمجھ کر رکھ دیا۔ اب عمران خان بھٹو کا نام لے کر آگے بڑھے ہیں۔ تعداد کی بحث فضول ہے لاڑکانہ کی آبادی بمشکل تین لاکھ ہے اور علی آباد اُنہڑ ایک چھوٹا سا گوٹھ پھر بھی پچیس تیس ہزار افراد جمع ہو گئے۔ سندھی عوام نے دیوانہ وار انہیں خوش آمدید کہا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ لاڑکانہ کے بعد کہاں کا رُخ کرتے ہیں اور سندھی نوجوانوں کی توقعات پر کہاں تک پورا اترتے ہیں۔ 
دیکھیے پاتے ہیں، عشاق بُتوں سے کیا فیض 
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں