لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا

بین الاقوامی تنظیم ریپریو (Reprieve)کی تازہ رپورٹ میں اس کے سوا کچھ نیا نہیں کہ ڈرون حملوں کی ہدف پر ٹھیک نشانہ لگانے کی صلاحیت صرف 21 فیصد ہے۔ You Never Die Twice کے عنوان سے رپورٹ میں وہی حقائق بتائے گئے جو اس سے پہلے کولمبیا سکول کے ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوٹ اور بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم کی رپورٹوں میں درج ہیں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ ایک امریکی ہیومن رائٹس ادارے نے جن کی بنا پر ڈرون حملوں کی بندش پر بار بار اصرار کیا۔ ایک موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون نے بھی بندش کا مطالبہ کیا مگر امریکہ نے آج تک پاکستان کی سنی‘ نہ اقوام متحدہ میں اپنے حلیفوں کی اور نہ ریپریو جیسی تنظیموں کی اور ڈرون حملے آج تک جاری ہیں۔ 
ڈرون حملوں کے حوالے سے مستند ترین تجزیہ اور تجربہ ایک امریکی ڈرون آپریٹر برنیڈن برنیٹ کا ہے جس نے چھ سال تک مختلف آپریشنوں میں حصہ لیا اور پھر اس کے ضمیر کی خلش اس قدر بڑھی کہ اس نے امریکی ایئرفورس سے استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ پُرامن‘ بے گناہ‘ بچوں‘ بچیوں‘ بوڑھوں‘ خواتین اور غیر مسلح نوجوانوں پر ڈرون طیاروں سے میزائل گراتے گراتے تھک گیا تھا۔ وہ رات کو سوتا تو اُسے کسی بچے کی چیخ سنائی دیتی یا کسی خاتون کے کٹے پھٹے جسم کی بکھری دھجیاں اس کا سکون اکارت کر دیتیں۔ ایک انٹرویو میں برنیڈن برنیٹ نے بتایا۔ 
''فائر کا حکم ملا‘ میں نے کمپیوٹر پر کلک کیا۔ ہزاروں میل دور ڈرون طیارے سے میزائل فائر ہوا اور مٹی کا گھر ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ میں نے میزائل گرنے سے پہلے کا منظر دیکھنے کے لیے فضا سے بنائی جانے والی ویڈیو کو ریوائنڈ کیا۔ گھر میں ایک کمسن بچہ چلتا پھرتا نظر آیا ''کیا ہم نے ایک ننھا بچہ مار ڈالا؟‘‘ میں نے قریب بیٹھے رفیق کار سے پوچھا ''ہاں‘‘ اس نے مختصر اور جذبات سے عاری جواب دیا۔ میں نے مانیٹر پر لکھا ''کیا ایک بچہ ہمارا ٹارگٹ تھا؟‘‘ ہزاروں میل دور بیٹھے ہدایتکار نے جواباً لکھا ''پریشان نہ ہو‘ یہ کُتا تھا‘‘۔ ہم دونوں نے ایک بار پھر یہ منظر غور سے دیکھا۔ چلتا پھرتا بچہ صاف نظر آ رہا تھا مگر ہدایتکار کا اصرار تھا یہ کتا ہے ''دو ٹانگوں والا کتا‘‘ ہم نے ایک دوسرے سے کہا‘‘۔ 
پاکستان کے قبائلی علاقوں اور افغانستان میں اس طرح کے کئی دو ٹانگوں والے جانور ان دنوں ڈرون حملوں کی زد میں ہیں۔ گزشتہ روز شمالی وزیرستان میں ایک مکان پر ڈرون حملے میں آٹھ افراد جاں بحق ہوئے جس پر حکومت پاکستان نے امریکہ سے باضابطہ احتجاج کیا اور ان حملوں کو اپنی خودمختاری کے خلاف قرار دیا مگر امریکہ نے کبھی پہلے ہمارے احتجاج کی پروا کی ہے‘ نہ اب تیار ہے۔ یہ ڈرون حملے صرف ہماری خودمختاری کے خلاف نہیں بلکہ ضرب عضب آپریشن پر عدم اعتماد کے مترادف ہیں اور اس بات کا ثبوت کہ ہم خواہ الٹے لٹک جائیں اور امریکہ کے مخالفین کو اپنا دشمن سمجھ کر اپنی آزادی‘ خودمختاری‘ سلامتی اور امن کو دائو پر لگا لیں‘ کوئی امریکی کبھی مان کر نہیں دے گا۔ پاکستان میں اس کے وظیفہ خوار‘ وفادار اور تابعدار بھی کم نہیں جو ہمیشہ اپنی فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر دو عملی کا الزام ڈھٹائی سے لگاتے ہیں۔ 
دنیا بھر کا یہ مسلمہ اصول ہے اور تعلیمات اسلام سے ماخوذ کہ اگر ایک بے گناہ کو بچانے کے لیے ننانوے (99) گناہگاروں کو معافی دینی پڑے تو کوئی حرج نہیں اور ایک انسان کا کسی جرم اور خطا کے بغیر قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ دنیا بھر میں سزائے موت کے مخالفین کا یہ استدلال رہا ہے کہ قتل‘ زنا بالجبر‘ اجتماعی آبرو ریزی‘ اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کے مرتکب شخص کو عدالتی سزا کے بعد پھانسی دے دی گئی اور بعدازاں کوئی مستند شہادت اس کے حق میں سامنے آ گئی تو اس کی زندگی کون لوٹائے گا؟ اور اس سے زیادتی کی تلافی کون کرے گا؟ لہٰذا سزائے موت کو منسوخ کیا جائے۔ مگر جب امریکہ کسی کو فرد جرم عائد کیے‘ اسے صفائی کا موقع دیئے اور کوئی ٹھوس شہادت پیش کیے بغیر‘ محض شک و شبہے کی بنا پر میزائل کا نشانہ بناتا اور ایک شخص کو سزا دینے کی نیت سے ننانوے فیصد بے قصور‘ پُرامن‘ غیر مسلح بچوں‘ عورتوں‘ ضعیف و کمزور افراد کی جان لیتا ہے تو انسانی حقوق کی پاکستانی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے رضاکار چپ سادھ لیتے ہیں‘ زیادہ درست الفاظ میں‘ خوشی سے بغلیں بجاتے ہیں۔ یہی حال حکمرانوں‘ سیاستدانوں‘ عسکرین ماہرین‘ دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا ہے۔ ان کے نزدیک دنیا کو پُرامن بنانے کا یہ واحد نسخہ ہے۔ 
سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی کتاب ''لیڈرز‘‘ میں عظیم چینی رہنما مائوزے تنگ سے ملاقات کا احوال بیان کیا ہے۔ ''مائو نے مجھ سے یہ اہم ترین سوال کیا ''امریکہ کا واحد مقصد کیا واقعی امن ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا کہ ''ہمارا مقصد امن ہے لیکن ایک ایسا امن جو محض حالت جنگ کے نہ ہونے سے کہیں بڑھ کر ہو‘ یہ عدل پر مبنی امن ہونا چاہیے‘‘۔ امریکہ نے برسوں تک افغانستان میں جو کیا‘ اب ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان میں جو ہو رہا ہے کیا وہ عدل پر مبنی امن کے قیام کی سعی ہے یا کچھ اور؟ کوئی امریکی ہی جواب دے سکتا ہے؛ تاہم اوباما نے پاکستان میں ڈرون حملے جاری رکھ کر اور افغانستان میں فوجی انخلا کے بعد اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا اعلان کر کے اپنے اور ملک کے عزائم واضح کردیئے ہیں۔ 
ریپریو نے اپنی رپورٹ میں امریکیوں کی یہی دلخراش ذہنیت واشگاف کی ہے کہ صرف 24 افراد کا تعاقب کرتے ہوئے انہوں نے 874 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں بچے اور بچیاں شامل تھیں۔ بیورو آف انویسٹی گیٹو جرنلزم نے ان ایک سو لڑکوں اور پچاس لڑکیوں کی فہرست انٹرنیٹ پر نام پتے اور عمروں کے ساتھ ڈال دی ہے۔ ان میں سے کوئی دہشت گرد تو نہیں تھا مگر چونکہ کلمہ گو تھا اس لیے لائق تعزیر‘ کیا خبر کل کو یہ بھی دہشت گردی کی راہ پر چل پڑے۔ وہی فرعون کی اپروچ کہ بنی اسرائیل کے گھروں میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو قتل کردو‘ مبادا ان میں سے کوئی موسیٰ (علیہ السلام) نکلے جو فرعون کو چیلنج کر ڈالے۔ 
امریکی اداروں کی اپنی رپورٹوں کے مطابق ڈرون ٹیکنالوجی انسانیت کے لیے تباہ کن ہے۔ آئین‘ قانون‘ اخلاقیات‘ انصاف کے منافی اور ہر گناہ گار کو صفائی کا موقع دینے کے عالمی اصولوں سے متصادم۔ چونکہ امریکہ جنگل کا بادشاہ ہے اور پاکستان میں اس کے قصیدہ خوانوں کو ہر بادشاہ کے سامنے سر جھکانے‘ اس کی شان میں مدح سرائی کرنے اور اس کے ہر جائز و ناجائز اقدام کے حق میں دلائل کے انبار لگانے کی عادت ہے‘ اس لیے ریپریو کی رپورٹ ہو یا برنیٹ کی شہادت کسی کو متاثر نہیں کرتی۔ میاں نوازشریف سال پہلے تک ڈرون حملوں کے خلاف تھے۔ انہوں نے دورہ امریکہ میں بندش پر زور دیا۔ اوباما‘ جان کیری اور چک ہیگل نے ڈرون حملوں کو پاکستانی حکام کے تعاون کا نتیجہ اور دہشت گردی کے خاتمے کی مؤثر تدبیر قرار دے کر ان کی زبان بند کرنے کی کوشش کی مگر وہ ڈٹے رہے لیکن اب وہ بھی خاموش ہیں اور دفتر خارجہ کے ہومیو پیتھک ٹائپ احتجاج کو کافی سمجھتے ہیں۔ 
امریکہ کے ایسے ہی خلافِ انسانیت اقدامات کا نتیجہ دہشت گردی کے خاتمے کے بجائے داعش جیسی تنظیموں کے ظہور کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ چک ہیگل کو اپنی حکمت عملی پر ناز تھا مگر بالآخر انہیں ناکامی کا داغ لے کر پینٹاگون سے رخصت ہونا پڑا۔ میران شاہ کے گائوں غنڈی کالا کی پانچ‘ سات‘ آٹھ سالہ بہنیں نبیلہ‘ اسما اور نعیمہ ہوں یا ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے دیگر بچے اور بوڑھے‘ ان کے وارثوں کو امریکہ میں کہیں انصاف ملا نہ پاکستان میں۔ امریکیوں نے انہیں دو ٹانگوں والا جانور سمجھا‘ یا ایک امریکی افسر کی منطق کے مطابق ''مستقبل میں دہشت گرد بننے کی صلاحیت سے مالا مال‘‘ جان کر تلف کرنے کی تدبیر کی؛ جبکہ پاکستان کے امن پسندوں کو یہ اطمینان ہے کہ ڈرون حملوں کے طفیل یہ دھرتی امن کا گہوارا بن رہی ہے۔ رہی ریپریو کی رپورٹ تو اس پر ہمیں توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔ امریکی حکمران جو کہتے ہیں وہی سچ ہے‘ کسی اور کی آواز پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں۔ 
گزشتہ روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے معلوم نہیں کس ترنگ میں آ کر کہا کہ پاکستان کو امریکہ سے تعلقات کے ضمن میں محتاط رہنا چاہیے کیونکہ ہم امریکی دوستی کی قیمت عشروں سے چکا رہے ہیں اور اس کی پالیسیاں خطے کے لیے تباہ کن ہیں۔ یہ حکومت پاکستان اور میاں نوازشریف کی پالیسی ہے یا وزیر دفاع کا غیر محتاط بیان‘ کچھ کہنا مشکل ہے؛ تاہم خواجہ صاحب کی آبزرویشن چنداں غلط بھی نہیں ؎ 
مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید 
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں