حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

لکھنے کا ارادہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین تازہ چپقلش اور آج کے اجتماع پر تھا جو حکومت اور عمران خان دونوں کے لیے آزمائش ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود سومرو کے بہیمانہ قتل نے بھی ملکی سیاست کو مزید گرما دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن بجا طور پر برافروختہ ہیں۔ ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں اور سڑکیں جام کرنے کی کال ریاست اور حکومت سے اظہار ناراضی ہے اور ا من وامان کے حوالے سے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی کارگزاری پر عدم اعتماد مگر صوئے آصل میں چار بچوں کی ہلاکت نے دل و دماغ اور قلم کو جکڑ لیا۔ یہ ہر صاحب اولاد کے لیے دلخراش و دلگداز سانحہ‘ توجہ طلب واقعہ ہے۔ انتخابی دھاندلی اور ناانصافی کے خلاف تحریک انصاف‘ ڈاکٹر خالد محمود کے قتل پر مولانا فضل الرحمن کے احتجاج اور صوئے آصل کے المناک سانحہ میں ایک بات قدر مشترک ہے کہ یہاں جنگل کا قانون ہے اور بڑی سے بڑی زیادتی‘ ناانصافی‘ کوتاہی پر کوئی کسی سے پوچھنے والا نہیں۔ 
کسی کھٹارا بس کا یہ پہلا اور انوکھا حادثہ ہے‘ نہ سکول کے کمسن بچے پہلی بار یوں ہنستے کھیلتے ایک دوسرے سے اٹکھیلیاں کرتے موت کے منہ میں چلے گئے۔ چند روز قبل سندھ میں بس حادثے نے درجنوں افراد کی جان لے لی۔ ڈیڑھ سال قبل کلرکلہار میں سکول وین میں آگ لگی اور بچے اپنی استانی سمیعہ نذیر کے ساتھ رزق خاک ہوئے۔ گویا یہ معمول ہے۔ جس معاشرے میں انسانی جان کی قدر و قیمت نہ ہو وہاں اس طرح کے حادثے معمول ہوتے ہیں۔ جن حرماں نصیب والدین کو اپنے بچوں کی موت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ان کے لیے البتہ یہ سنگین اوردلگداز حادثہ ہے۔ باقی سب کے لیے‘ خاص طور پر حکمرانوں کے لیے روزمرہ کا معمول ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ بس ازکاررفتہ اور اَن فٹ تھی۔ انجر پنجر ہل چکے تھے‘ ڈرائیور یک چشم اور اناڑی تھا۔ بس قابو میں نہ رہی تو نالے میں جاگری جس سے چار معصوم بچے موقع پر جاں بحق ہوگئے، کچھ بچوں کی زندگی اب بھی خطرے میں ہے ۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے، انکوائری کا حکم بھی دیدیا ہے اور مفرور ڈرائیور کی گرفتاری کی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔ مگر کیا بار بار حادثات بالخصوص سکول بسوں کے حادثات اور بچوں کی ہلاکت کے بعد صرف اتنا ہی کافی ہے؟
پنجاب کیا پورے پاکستان کے مختلف اضلاع کی انتظامیہ ، پولیس ، ٹرانسپورٹ اتھارٹی اور ٹریفک پولیس خوش قسمت ہے کہ انہیں عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اور محفوظ سفر کی ذمہ داری سلطانیٔ جمہور کے زمانے میں سونپی گئی ہے جب کسی کو کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ کوئی اپنے آپ کو قانون اور عوام تو کجا خدا کے سامنے جوابدہ سمجھتا ہے۔ اس لیے بڑے سے بڑے سانحے ، حادثے اور غلطی بلکہ دانستہ کوتاہی کے بعد بھی ان کے عیش و آرام میں خلل پڑتا ہے نہ مالی مراعات اور سہولتوں میں کمی واقع ہوتی ہے۔ہر انفرادی غلطی اور اجتماعی کوتاہی کو اتفاقی حادثہ قرار دے کر بھلا دیا جاتا ہے کوئی نہیں سوچتا کہ ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں 
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
فرض کیجیے اگر یہ شیر شاہ سوری کا دور حکومت ہوتا تو پھر بھی جاں بحق ہونے والے بچوں کا خون یوں ضائع ہوجاتا؟ کھٹارا بس کو سڑک پر چلانے اور معصوم بچوں کو بٹھا کر تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے والے مالکان، ڈرائیور، ٹریفک و موٹروے پولیس اور بس کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے سرکاری اہلکاروں کی جان آسانی سے چھوٹ جاتی؟ کچھ دے دلاکر یا کسی طاقتور کی سفارش سے ہر ایک اپنی ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر رہا ہوجاتا؟ ہرگز نہیں۔توبہ توبہ خدا خدا کیجے۔ 
شیر شاہ ہر چھوٹے بڑے جرم کی ذمہ داری کوتوال شہر پر ڈالنے کا عادی تھا۔ یوں کوتوال شہر اپنے علاقے کے شرفا، رئوسا ، عوامی نمائندوں اور ان کے عزیز و اقارب کی خوشامد ، مٹھی چاپی میں مصروف رہنے کی بجائے اپنے ماتحتوں کی موثر نگرانی ، حفاظتی انتظامات کی جانچ پڑتال اور اطلاع رسانی کے ذرائع میں بہتری لانے کے لیے مستعد و چوکس رہتا۔ 
شیر شاہ کے زمانے میں اس طرح کا واقعہ ظہور پذیر ہوتا تو بس ڈرائیور ، مالک ، پولیس سارجنٹ ، ڈی سی او ، ڈی پی او ، آر ٹی اے افسران اور فٹنس جاری کرنے والے بدعنوان اہلکار پھرتیاں دکھانے کے بجائے کسی تھانے ، حوالات میں پڑے اعترافی بیانات لکھنے‘ لکھوانے میں مشغول ہوتے کہ ان سے اور ان کے ماتحتوں سے کہاں کہاں ، کیا کیا کوتاہی سرزد ہوئی۔ ڈرائیونگ لائسنس، گاڑی کی فٹنس ، رفتار اور ڈرائیور کی ذہنی و جسمانی حالت چیک نہ کرنے کی وجہ محض غفلت تھی، منتھلی وصول کرنے کی عادت یا کسی با اثر کا دبائو‘ جس کی وجہ سے چار خاندان زندگی بھر تڑپنے پر مجبور ہوئے۔
صوئے آصل اگرچہ زیادہ دور نہیں پھر بھی لاہور سے باہر ہے مگر پنجاب کے دارالحکومت سمیت ہر شہر اور قصبے میں اس طرح کی بسیں اور ویگنیں دھڑلے سے چل رہی ہیں۔ جس طرح ملک بھر میں قاتلوں‘ ڈاکوئوں‘ دہشت گردوں کو کھلی چھٹی ہے‘ اسی طرح کھٹارا ویگنوں اور بسوں کو بھی کوئی پوچھنے والا نہیں۔ لاہور میں ایک طرف شاہکار میٹروبس چل رہی ہے تو اس کے ساتھ ہی ساتھ بوریوالا کی بنی پیٹر انجن سے چلنے والی گاڑیاں اور چنگ چی رکشے بھی رواں دواں ہیں۔ یہ گاڑیاں کیا ہیں؟ موت بانٹنے والی مشینیں ہیں اور ان کے ڈرائیور؟ چودہ پندرہ سال کے چھوکرے جنہیں ڈرائیونگ کا تجربہ نہ سیوک سینس ،لیکن چلے جارہے ہیں خدا کے سہارے۔
یہ گاڑیاں اور رکشے کسی خلائی سیارے پر چلتے ہیں‘ نہ ان کے ڈرائیوروں نے سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے کہ کسی کو نظر نہ آئیں۔ مگر چونکہ سفارش اور رشوت نے سب کو اندھا کردیا ہے اور حکمرانوں کی ترجیح سگنل فری، جہازی سائز سڑکیں ، فلائی اوور ، انڈر پاسز اور بلٹ پروف گاڑیاں ہیں‘ لہٰذا کسی کو ان جہازی سائز سڑکوں پر چلنے اور انڈر پاسز ، فلائی اوورز سے گزرنے والی انسانی جانوں کے لیے خطرہ بنی غیر قانونی گاڑیوں اور ناتجربہ کار ڈرائیوروں کی فکر نہیں کہ یہ محفوظ سفر کا ذریعہ بھی ہیں یا صرف موت بانٹ رہے ہیں۔ جنہیں بلٹ پروف گاڑیاں اور تجربہ کار ڈرائیور سرکاری خرچ پر دستیاب ہیں انہیں فکر مند ہونے کی ضرورت شاید نہیں۔
گئے زمانے کا کوئی شیرشاہ سوری حکمران ہوتا تو ڈرائیور اور وین مالکان کی گرفتاری سے بھی پہلے ضلع کے تمام چھوٹے بڑے افسروں ، اہلکاروں کا دھان بچہ کولہو پلواتا‘ کہ حرام خورو! درجنوں بچوں کی زندگی کے لیے خطرہ بنی یہ بس اور اس طرح کی سینکڑوں بسیں‘ ویگنیں سڑکوں پر رواں دواں ہیں، کسی کو گاڑی کی ابتر حالت نظر آئی‘ نہ نشئی اور ناتجربہ ڈرائیور اور نہ گاڑی کی فٹنس ۔اس لیے تم سب ذمہ دار ہو اور گردن زدنی، پھر وہ ڈرائیور سے پوچھتا کہ کس کس کو منتھلی دے کر یہ کھٹارا بس چلاتے رہے اور چند ہزار کی نوکری کے عوض مالکان کے سامنے زبان کیوں بند رکھی۔ پرانے زمانے کے حکمران خلق خدا کی حفاظت ایسے ہی '' فرسودہ ‘‘ طریقوں سے کرتے اور امن وامان ، جان و مال کا تحفظ برقرار رکھتے۔ رضا شاہ پہلوی کے والد نے ریل کی پٹڑی بچھائی تو جہاں جہاں پل بنے‘ ان کے نیچے انجینئرز اور کاریگروں کو بیوی بچوں سمیت کھڑا کرکے ٹرین گزاری تاکہ خدانخواستہ اگر کوئی حا دثہ ہوتو ناقص کارگزاری کی سزا کوئی دوسرا نہیں یہ خود بھگتیں۔
جس ملک میں خودکش بمبار اور دہشت گرد ہزاروں مقامات پر لگے پولیس ناکوں، خفیہ کیمروں اور گشتی پولیس کی نظروں سے گزر کر واہگہ کی پریڈ تک جاسکتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی وہاں انسانی جانوں کے لیے خطرہ بنے ان فٹ‘ غیر قانونی وہیکلز ، ناتجربہ کار ڈرائیوروں کو کون دیکھے؟ اور معمولی رقم کے عوض فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے اور اپنی آنکھوں کے سامنے موت کے کنوئوں کو گزرتے دیکھ کرنہ روکنے والے سنگدل افسروں اور اہلکاروں سے باز پرس کون کرے؟ حکمران اور عوامی نمائندے بھی اندھے نہیں کہ مہنگی گاڑیوں میں گزرتے ہوئے نگاہ غلط انداز ان پر نہ پڑتی ہو مگر انہوں نے بھی متعلقہ اہلکاروں اور محکموں سے باز پرس کبھی نہیں کی۔ غریب کی قسمت میں یہاں اذیت ناک انداز میں مرنا ہے ، بھوک ، بیماری اور سخت گرمی سے مرے ،خودکش دھماکے کی نذر ہو یا کسی چلتی وین اور بس میں خاکستر ہوجائے‘ حکمرانوں اور ان کی حفاظت ، پروٹوکول پر مامور افسروں اور اہلکاروں کی بلا سے۔ 
پہلے کچھ نہیں ہوا تو اب کون غریب کے بچوں کی فکرکرے گا‘ انہیں محفوظ سفر کی ضمانت دے گا۔ تبدیلی کا خواہش مند ''باشعور‘‘ اور ستم رسیدہ غریب بھی نہیں۔ وہ بھی راضی برضا ہے اور ظلم سہنے کا خوگر۔ اتفاقی حادثے اس معاشرے کا معمول ہیں‘ سنگدل سماج کی روایت۔ چند دن میں لوگ رودھو کر سب بھول جائیں گے۔ غریبوں کو کون یاد رکھتا ہے کہ ان کے پھول جیسے بچوں کے ہنستے کھیلتے‘ ہم جولیوں سے شرارتیں کرتے موت کے منہ میں چلے جانے پر زیادہ دیر تک سوگوار رہے۔ ماں باپ کے لیے البتہ زندگی بھر کا روگ ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں