مضبوط ارادے اور زبردست انا کا مالک عمران خان 30نومبر کو شام یہ اعلان بھی نہ کرتا تو اور کیا کرتا؟ حکومت کے مقابل غیر مشروط پسپائی اور میاں نوازشریف کے سامنے سرنگوں ہونے کا فیصلہ ؟
سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے لیڈر کی خصوصیات بیان کرتے لکھا ہے '' کوئی بھی لیڈر مضبوط ارادے اور زبردست انا کے بغیر لیڈر نہیں بن سکتا‘‘ ...'' لیڈروں نے بعض اوقات غلطیاں بھی کیں لیکن انہیں ہمیشہ یہ اعتماد رہا کہ وہ صرف اپنی بصیرت اور جبلت پر عمل کرکے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ لیڈر کبھی بھی ثانوی حیثیت کے لوگوں کی پیروی نہیں کرتے۔‘‘
رحیم یار خان کے جلسے میں عمران خان نے وزیراعظم کے استعفے سے دستبرداری کا اعلان کیا تو تحریک انصاف کے لیڈر کو ضدی، ہٹ دھرم اور غیر حقیقت پسند قرار دینے والوں نے موقف میں لچک اور آبرومندانہ پسپائی پر محمول کرنے کی بجائے طنزو تضحیک کا نشانہ بنایا ۔ حکومت نے موقع غنیمت جان کر مذاکرات کی بساط بچھانے کے بجائے یوٹرن کا طعنہ دیا اور میاں صاحب کے قریبی ساتھیوں کی روایتی رعونت اور بے جا خود اعتمادی لوٹ آئی۔ حالانکہ یہ مہلت سے فائدہ اٹھانے کا موقع تھا اور سیاسی صورتحال کو نارمل کرنے کا وقت۔
پاکستان میں شہر بند کرنے کی کال پہلی بار دی گئی ہے نہ اس فیصلے کو غیر آئینی اور ملک دشمن قرار دینے کی روایت نئی ہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان ،ذوالفقار علی بھٹو ، ضیاء الحق ، بے نظیر بھٹو، میاں نوازشریف اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہر سیاسی جماعت اور لیڈر نے یہ کال دی اور حکمرانوں سے عوامی مطالبات منوانے کا کارگر آئینی نسخہ بتایا، کامیابی اور ناکامی کا تناسب مختلف رہا مگر ہر دور کے حکومتی ترجمان نے بیان ایک جیسا ہی داغا '' یہ ملکی معیشت کو تباہ، پاکستان کو برباد اور جمہوریت کی گاڑی کو ڈی ریل کرنے کی سازش ہے جس کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہے‘‘ یہ انکشاف بعد میں ہوتا ہے کہ حکمران بہادر خود غیر ملکی کندھوں پر چڑھ کر ایوان اقتدار پہنچے تھے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے ایک بار ملکی حکمرانوں کی کم عقلی اور کند ذہنی کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''یہ ظالم غلطیاں بھی ایک جیسی کرتے ہیں، مزاج میں اتنا تنوع بھی نہیں کہ کوئی نئی غلطی کریں۔‘‘ یہی حال ایوب دور سے لے کر اب تک حکومت کے ترجمانوں کا رہا ہے۔ عمران خان کی کال پر گزشتہ روز مخالفین کا ردعمل سن اور پڑھ کر تعجب ہوا کہ ان کی یاد داشت واقعی کمزور ہے؟ یا اس ملک کے عوام بالخصوص نوجوانوں کو یہ پرلے درجے کا ہونق اور بھلکڑ سمجھتے ہیں جو بحالی جمہوریت کی مختلف تحریکوں بشمول تحریک نجات اور عدلیہ بحالی تحریک کے دوران برپا ہونے والے دنگا فساد کو آسانی سے بھول چکے ہوں گے۔
سیانے بلی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسے دروازے ، کھڑکیاں اور روشن دان بند کرکے پکڑنے کی کوشش مت کرو ، ورنہ یہ نکلنے کا ہر راستہ بند دیکھ کر آپ کے منہ کو نوچنے کی کوشش کرے گی۔ یہ بحث اب عبث ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ عمران خان نے کیا یا حکومت نے۔ ساڑھے پانچ نکات مان کر پیچھے کون ہٹا؟ حکومتی ٹیم یا تحریک انصاف کا وفد ؟ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے لچک دکھائی تو حکومت اکڑ گئی اور گزشتہ ایک ماہ سے مذاکرات کا بند دروازہ کھولنے کے بجائے صبح و شام عمران خان کی سیاست ، دھرنے اور موقف کی بھد اڑائی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں اپوزیشن سیاست کرتی ہے اور حکومت گورننس پر توجہ دیتی ہے، یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ حکمرانوں کو سیاست سے فرصت نہیں اور گورننس اللہ کے حوالے۔
عمران خان کے موقف، انداز کار اور حالیہ فیصلوں پر اعتراضات بجا ! لیکن 13اگست کو انتخابی دھاندلیوں کی تفتیش کے لیے سپریم جوڈیشل کمشن کے اعلان کے بعد آج تک پیش رفت نہ ہونے کا ذمہ دار کون ہے؟ انتخابی اصلاحات کمیٹی تین ماہ میں کوئی کارنامہ انجام کیوں نہیں دے سکی؟ ماڈل ٹائون سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی میں مجرمانہ غفلت اور تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟ اور رحیم یار خان کے جلسہ عام میں عمران خان کی طرف سے وزیراعظم کے استعفے کی شرط واپس لینے کے بعد مذاکرات کی بساط بچھانے میں کیا امر مانع رہا؟ حکومت کے سوا یہ کس کی ذمہ داری تھی ؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ عوام اور تاجر، ٹرانسپورٹر برادری کو مزید کسی آزمائش میں ڈالنے کے بجائے حکومت تحریک انصاف کو مذاکرات کی دعوت دے اور جو نیک کام گزشتہ تین ساڑھے تین ماہ میں نہیں ہوسکا اب کرلیاجائے لیکن اگر حکومت اپنی ضد پر ڈٹی رہی تو اندیشہ ہے کہ لاہور ، فیصل آباد اور کراچی میں کہیں نہ کہیں تصادم کی نوبت آسکتی ہے۔ بجا کہ تحریک انصاف کے کارکن قانون شکن اور عسکری مزاج نہیں مگر انسان کو بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ خصوصاً اس انسان کو جسے ناکامی کی صورت میں ہر طرف سے بزدلی کا طعنہ ملنے کی امید ہو۔
ملک میں امن وامان کی صورتحال مخدوش ہے۔ پنجاب جو کسی زمانے میں امن کا جزیرہ سمجھا جاتا تھا ،ان دنوں جرائم پیشہ گروہوں کی زد میں ہے۔ لاہور میں اغوا برائے تاوان، آبرو ریزی اور ڈکیتی کے واقعات اس قدر تسلسل سے ہونے لگے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ آپریشن ضرب عضب کی بنا پر دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی ہے مگر خطرہ ٹلا نہیں۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے گھریلو اور تجارتی صارفین کی مت ماردی ہے اور مہنگائی و بے روز گاری سے تنگ عوام مشتعل ہیں۔ چھوٹے چھوٹے واقعات پر معاملہ دنگا فساد، لڑائی مار کٹائی اور توڑ پھوڑ تک پہنچ جاتا ہے جو قوم کی نفسیاتی اور ذہنی کیفیت کا غماز ہے۔ اگر حکومت خود بھی جلتی پر پانی ڈالنے کے بجائے خاموش تماشائی بن جائے اور اس کے وزیر مشیر تیل ڈالنے میں مشغول ہوں تو خرابی بڑھے گی اور صرف معیشت و تجارت ہی نہیں ،بری بھلی جمہوریت کا بھی خانہ خراب ہوگا، جس سے عوام ویسے ہی بدظن ہیں کہ یہ بانجھ جمہوریت بسیار خوری میں تو یکتا ہے مگر دودھ ایک تولہ نہیں دیتی جس سے کسی غریب کے بچے کا حلق تر ہوسکے۔
جمہوریت جمہوریت کھیلنے والوں کو شاید احساس نہیں کہ عوام اس سنگدل و سفاک نظام کو اپنے درد کا درماں نہیں ، دکھوں اور تکلیفوں کا اصل سبب اور حقیقی ذریعہ سمجھنے لگے ہیں کیونکہ جس نظام میں پندرہ انسانی جانوں کے ضیاع پر کوئی سنجیدہ کارروائی ہو ،نہ مرنے والوں کے لواحقین اوروارثوں کی فریاد سنی جائے، الٹا وہی قاتل اور مجرم ٹھہریں، انہی کے خلاف چالان عدالتوں میں پیش ہوں،اس کو برقرار رکھنے کی خواہش مراعات یافتہ طبقے کے سوا کسے ہوسکتی ہے۔امریکی شہر فرگوسن میں سیاہ فام مائیکل برائون کو گولی مارنے والے پولیس اہلکار ڈیرن ولسن نے جیوری سے بری ہونے کے باوجود استعفیٰ دے دیا کہ شہر کو ہنگاموں سے نجات ملے مگر یہاں سب اپنے عہدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
عمران خان کی طرف سے دسمبر میں پہلے تین شہر اور پھر پورا ملک بند کرنے کی کوشش کامیاب ہوگی یا ناکام ؟کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ کتنا ہوم ورک ہوا ؟ تاجر اور ٹرانسپورٹ برادری کس قدر تعاون کرے گی؟ یہ اہم سوالات ہیں۔ چھوٹے بڑے مراعات یافتہ طبقات کو جو سہولتیں شریف دور حکمرانی میں ملتی ہیں وہ کسی اور دور میں بایدو شاید۔ ٹیکسوں میں چھوٹ، تجاوزات ، گراں فروشی اور ناجائز منافع خوری کی اجازت وغیرہ وغیرہ جبکہ عمران خان میرٹ کی رٹ لگاتا اور پورا ٹیکس وصول کرنے کا شور مچاتا ہے جو بہت سوں کو پسند نہیں مگر لاقانونیت، بدعنوانی، لوڈشیڈنگ اور کساد بازاری سے ہر طبقہ متاثر اورتنگ ہے اور موجودہ بحران سے خوفزدہ بھی کہ معلوم نہیں کیا قیامت ڈھائے،اس لیے کامیابی کی امید کی بھی جاسکتی ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ عمران خان نے بھس میں چنگاری لگادی ہے ،اسے شعلہ بنتے زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ خدانخواستہ پولیس اور انتظامیہ کے علاوہ مسلم لیگ کے متوالوں نے زور زبردستی کی تو تصادم کا نقصان حکومت کو ہوگا، جس کی روایتی سستی ، بے نیازی اور رعونت کی بنا پر معاملات افہام و تفہیم سے طے نہیں پاسکے۔ عمران خان 30نومبر کی شام یہ اعلان نہ کرتا تو دوسری آپشن یہ تھی کہ وہ دھرنا لپیٹ کر حکمرانوں کے سامنے کورنش بجا لاتا کہ ؎
سپر دم بہ تو مایۂ خویش را
تو دانی حسابِ کم و بیش را
مگر ہمارا آزاد میڈیا، فعال سول سوسائٹی اور دانش و بصیرت کا علمبردار طبقہ اس پر عمران خان کی ساری خطائیں معاف کردیتا یا طعن و تشنیع کی ایک نئی مہم کا آغاز ہوتا؟ خدا توفیق دے تو سوچنا ضرور چاہیے۔