ساقی نے کچھ ملانہ دیا ہو شراب میں

آئیڈیاز 2014ء نمائش میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تقریر ایک فوجی کمانڈر کے بجائے عسکری ، خارجہ اور علاقائی امور کے ماہر کا اظہار خیال تھا جسے کشمیر اور فلسطین جیسے تنازعات حل نہ ہونے کی صورت میں خطے میں بدامنی کا خوف ہے اور علاقائی امن کے حوالے سے بھارت کے کردار پر تحفظات ہیں۔
آرمی چیف ایک روز قبل واشنگٹن سے کامیاب اور خوش و خرم لوٹے ہیں، جہاں انہیں سربراہ حکومت و ریاست سے ملتا جلتا پروٹوکول ملا۔ پاکستان میں تو خیر اس پر چہ میگوئیاں ہونی ہی تھیں امریکی پریس کو بھی اچنبھا ہوا چنانچہ ہفتہ وار بریفنگ میں ایک تیز طرار صحافی نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان میری ہارف سے پوچھ لیا ''جب پاکستان سنگین سکیورٹی و سیاسی صورتحال کا سامنا کررہا ہے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف وطن سے دور امریکہ میں کیوں موجود ہیں‘‘۔ میری ہارف نے کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے کہا کہ چونکہ سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری یورپ کے دورے پر تھے جس پر دونوں (وزیر خاجہ اور آرمی چیف) کی ملاقات 30نومبر کو طے پائی البتہ ان کے طویل قیام پر میں کوئی تبصرہ نہیں کرسکتی۔
30نومبر کی ملاقات میں جان کیری نے آرمی چیف کی شخصیت اور خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ '' پاک فوج پاکستان کو متحد رکھنے والی حقیقی قوت(بائنڈنگ فورس) ہے‘‘ تو مجھے امریکی عسکری امور کے ماہر اور '' پاکستان آرمی‘‘ نامی کتاب کے مصنف سٹیفن پی کوہن یاد آئے۔
سٹیفن کوہن لکھتے ہیں '' سویلین حکومت کے لیے شرط یہ ہے کہ جائز اور موثر سیاسی قیادت ہو اور اس کی اہمیت بے پناہ ہے۔ پاکستانی فوج کو تشویش ہے کہ نااہل سویلین قیادت فوج کے معیار اور بحیثیت ادارہ اس کے وجود کو نقصان پہنچا سکتی ہے جس سے اس کے خیال میں بھارت کے خلاف واحد حقیقی دفاع اور مملکت کو یکجا رکھنے والی قوت (بائنڈنگ فورس) کو خطرہ لاحق ہوگا۔‘‘‘
جنرل راحیل شریف کو امریکہ میں جس انداز میں خوش آمدید کہا گیا ، صدر اوباما کے سوا ہر اہم امریکی رہنما نے ان سے ملاقات کی، ایک ہفتے کے دورے میں ایک ہفتے کی توسیع ہوئی۔ اس سے قبل صرف فیلڈ مارشل ایوب خان ہی بطور آرمی چیف اس حسن سلوک کے مستحق ٹھہرے۔ جنرل کیانی کی آئو بھگت بھی خوب ہوئی مگر ایوب خان کے دورے میں دو ہفتوں کی توسیع ہوئی تھی۔ ستمبر1953ء میں ہونے والے اس دورے کے حوالے سے گوہر ایوب خان نے ''ایوان اقتدار کے مشاہدات ‘‘میں لکھا ''سوویت یونین کو آگے بڑھنے سے روکنے اور کمیونزم کے پھیلائو پر قابو پانے کیلئے ایوب خان کی یقین دہانیوں پر اعتماد کرتے ہوئے پاکستان کو فوجی سازو سامان کے علاوہ بھرپور مالی امداد سے نوازا گیا‘‘۔
اس وقت دہشت گردی خطے کے علاوہ امریکہ، یورپ کے لیے سنگین خطرہ ہے اور امریکی‘ افغانستان سے جزوی سہی فوجی انخلا کے بعد علاقائی سکیورٹی کے ضمن میں پریشانی کا شکار ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی کے دورہ چین و پاکستان‘ آرمی چیف کے دورہ چین و افغانستان اور لندن میں افغان کانفرنس کے انعقاد کو اگر آرمی چیف کے دورہ امریکہ اور طویل قیام سے ملاکر دیکھا جائے اور اندرون ملک فروغ پذیر نسلی ، لسانی ، علاقائی ، صوبائی اور فرقہ وارانہ تعصبات اور منافرتوں کے سدباب میں سیاسی و جمہوری قوتوں کی بے بسی و بے نیازی کو مدنظر رکھا جائے تو جان کیری کی بات تلخ مگر حقیقت پر مبنی لگتی ہے کہ پاک فوج ملک کو متحد رکھنے والی حقیقی قوت ہے۔
یہی بات سٹیفن کوہن نے فوج کی اجتماعی تشویش کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھی ہے۔ یہ کتاب 1980ء کے عشرے میں لکھی گئی جب ملک میں مارشل لاء تھا اور پاکستانی قوم فوجی آمریت کے خلاف نبرد آزما تھی۔ 1988ء سے 1999ء تک ملک میں جمہوریت کا دور دورہ رہا مگر سویلین قیادت نے وہ شرط پوری نہیں کی جسے سٹیفن کوہن نے سویلین حکومت کی بنیادی شرط قرار دیا تھا‘ جو اپنے دائرہ کار میں قومی اتحاد و یکجہتی، ترقی و خوشحالی اور عوامی مفادات کے تحفظ کا فریضہ خوش اسلوبی سے ادا کرے۔ طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک سویلین قیادت‘ فوجی قیادت کی یہ تشویش دور کرنے میں ناکام رہی کہ وہ اپنی نااہلی کی بنا پر فوج کے معیار اور بحیثیت ادارہ وجود کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جس سے ملک کو یکجا رکھنے والی قوت (بائنڈنگ فورس) کو خطرہ لاحق ہوگا۔
1980ء کے عشرے میں سٹیفن کوہن کو بائنڈنگ فورس کی اصطلاح پاکستانی جرنیلوں کے منہ سے سننے کو ملی۔یہ پاکستان کے اقتدار پر قابض جرنیلوں کی سوچ تھی جو 1977ء کے مارشل لاء کے جواز میں ایسی باتیں کرتے تھے مگر اب امریکی اور پاکستانی دانشوروں، عسکری ماہرین اور عوام کو اس اصطلاح سے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے روشناس کرایا ہے جو سوچ کر بولنے اور بول کر تولنے کے عادی ایک تجربہ کار سیاستدان اور سفارت کار ہیں۔ جان کیری نے پاک فوج کے بارے میں جو کہا وہ جنرل راحیل شریف کی کسی ڈکٹیشن اور لابنگ کا نتیجہ ہے‘ نہ بائنڈنگ فورس کے لفظ اور اصطلاح کے مضمرات سے ناواقفیت کا مظہر۔
دنیا بھر میں پارلیمنٹ ، سیاسی جماعتیں ، انصاف فراہم کرنے والے ادارے اور نظریے کو ملکی اتحاد اور قومی یکجہتی کی علامت و ضمانت قرار دیا جاتا ہے، یہی عوامل کسی ریاست کو متحد رکھتے ہیں اور مختلف الخیال، مختلف مزاج اور مختلف رنگ و نسل، زبان اور لوگوں کو ایک دوسرے سے جڑے رہنے پر آمادہ کرتے ہیں مگر ہماری بیشتر سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں نے ہمیشہ اتحاد کے بجائے انتشار اور تفریق کی آبیاری کی‘ علاقائی ، نسلی، لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ابھارا اور قوم کو دھڑوں میں تقسیم کیا۔ کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ جہاں ہماری سیاسی جماعتوں میں سندھی، پنجابی، پشتون، بلوچی، سرائیکی اور مہاجر کی بنیاد پر سرپھٹول ہوتی ہے اور ہمارے سیاستدان عصبیتوں کو ہوا دے کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں وہاں پاک فوج واحد قومی ادارہ اور تنظیم ہے جہاں رنگ و نسل کی تمیز ہے نہ فرقہ و مذہب کی کوئی تفریق اور نہ خاندانی و موروثی قیادت و بالادستی کا رواج۔
فوج کے برعکس سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت نے اپنی اہلیت، صلاحیت اور قابلیت میں اضافے کے لیے کوئی شعوری کوشش نہیں کی۔ سیاسی جماعتوں میں نظم وضبط کے علاوہ جمہوری رویوں کا فقدان ، فیصلہ سازی کا عمل ناقص‘ مشاورت کی کمی اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے گریز کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کسی بڑے سیاستدان سے پوچھا جائے کہ اس نے کسی اچھے مصنف کی کوئی معروف کتاب کتنا عرصہ قبل پڑھی یا دیکھی تھی تو آنجناب سوال کنندہ کا منہ حیرت سے تکنے کے بعد یہ گھسا پٹا جواب دیں گے کہ ہم کتابوں کو نہیں انسانوں کو پڑھتے ہیں اور کتاب ہماری نہیں ہم کتابوں کی ضرورت ہیں۔ مہنگی گاڑیوں کے نئے ماڈلز‘ مخصوص علاقے میں پلاٹوں کے نرخ اور لوٹ مار کے جدید طریقے البتہ خوب ازبر ہوں گے۔ 
کسی آرمی چیف تو کیا ٹو سٹار افسر کو بھی آج تک اپنے مدمقابل کے روبرو کاغذ پر لکھی باتیں دہراتے کبھی نہیں دیکھا گیا اور کسی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں مخالف کی الزام تراشی پر آنکھیں چرانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں سیاستدانوں کے ساتھ اکثر یہ حادثہ پیش آتا ہے۔ ممتاز دولتانہ، مشتاق گورمانی، ذوالفقار علی بھٹو اور حنیف رامے ٹائپ سیاستدان کب کے رخصت ہوگئے جو نہ صرف کتابی کیڑے تھے بلکہ ان کی ذاتی لائبریریوں سے محققین استفادہ کرتے۔ سردار شیر باز خان مزاری کو اللہ تعالیٰ تادیر سلامت رکھے اسی قبیل کے پڑھے لکھے سیاستدان ہیں مگر سیاست سے توبہ تائب ہو کر گوشہ نشین ہیں۔
جان کیری نے پاک فوج کو بائنڈنگ فورس قرار دے کر اور امریکی حکام نے ہمارے آرمی چیف کی حد سے زیادہ عزت افزائی کرکے پاکستانی حکمرانوں ، سیاستدانوں اور فوجی قیادت کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ بہت سے سیاستدان پہلے ہی فوج اور اس کی قیادت سے الرجک ہیں‘ ان کی پریشانی مزید بڑھ جائے گی۔ تاہم یہ آزمائش جنرل راحیل شریف کے لیے بھی ہے۔ اتنی تعریف و توصیف اور عزت افزائی پر انہیں خوش ہونے کے بجائے فکرمند ہونا چاہیے کیونکہ امریکی چائے کا کپ بھی مفت میں پلانے کے عادی نہیں ع ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ بی بی عابدہ حسین جنرل آصف نواز کے دورۂ امریکہ کا احوال سنایا کرتی ہیں مگر پھر کبھی سہی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں