کپتان کا ڈر ہے

کراچی میں اپنی نوعیت کے منفرد‘ پُرامن احتجاجی دھرنوں کے موقع پر وزیراعظم میاں نوازشریف نے بجلی کی قیمتوں میں دو روپے بتیس پیسے کمی کا اعلان کیا تو مجھے 1977ء کی تحریک اور بھٹو صاحب کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آیا جس کے راوی میاں افضل حیات ہیں۔ یہ 9 اپریل 1977ء کی شام کا ذکر ہے‘ دھاندلی زدہ الیکشن کی پیداوار صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر لاہور کی مال روڈ پر سارا دن پولیس اور سیاسی کارکنوں کے مابین آنکھ مچولی ہوتی رہی‘ پولیس نے لاٹھی‘ گولی‘ آنسو گیس‘ لاتوں‘ مُکوں‘ گھونسوں سے مظاہرین کی درگت بنائی‘ لاشیں گریں‘ زخمیوں سے قریبی ہسپتال بھر گیا جبکہ سیاسی و مذہبی کارکنوں نے بھی جوابی پتھرائو‘ نعرے بازی اور ہاتھ لگنے والے پولیس اہلکاروں کی پٹائی سے اپنی بھڑاس نکالی‘ پولیس کی وردی میں ملبوس خواتین اسی روز خواتین کارکنوں پر حملہ آور ہوئیں اور انہیں لاٹھیوں کے علاوہ مخصوص زبان و بیان سے زدوکوب کیا‘ مخالفین نے پہلی اور آخری بار نمودار ہونے والی اس زنانہ پولیس کو نتھ فورس کا نام دیا۔ 
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اس روز لاہور میں تھے اور گورنر ہائوس میں مقیم۔ شام کو بی بی سی کی نشریات میں بھٹو صاحب کی لاہور میں موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے بی بی سی کے نیوز کاسٹر نے کہا‘ شہر سارا دن ہنگاموں کی زد میں رہا مگر وزیراعظم کہیں دکھائی دیئے نہ سنائی۔ بدترین ریاستی تشدد اور کئی ہلاکتوں کی بنا پر لاہور سوگوار تھا‘ وزیراعظم کے اعزاز میں وزیراعلیٰ کے عشائیہ کو پارٹی میٹنگ کا نام دیا گیا تاکہ میڈیا اس کھانے کو کوئی اور رنگ دینے کی کوشش نہ کرے‘ اس دور میں سیاستدان اور حکمران ان نزاکتوں کا خیال رکھتے اور مخالفین کے زخموں پر بھی نمک چھڑکنے سے گریز کرتے۔ آج کی طرح پولیس یا اپنے اسلحہ بردار کارکنوں کی گولیوں کا نشانہ بننے والے کسی حق نواز یا تنزیلہ کا قاتل مخالفین کو قرار دینے کا رواج نہیں پڑا تھا اور مقتولوں کے ورثاء کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی روایت بھی نہ تھی۔ 
بھٹو صاحب نے تحریک سے نمٹنے اور پرتشدد احتجاج ختم کرانے کے لیے تجاویز طلب کیں۔ پیپلز پارٹی میں تازہ تازہ داخل ہونے والے بعض مسلم لیگی ارکان اسمبلی نے مشورہ دیا کہ شراب اور جوئے پر پابندی لگا دی جائے تاکہ نظام مصطفیؐ کا نعرہ لگا کر احتجاجی تحریک چلانے والوں کے غبارے سے ہوا نکلے اور بھٹو صاحب کی مقبولیت میں اضافہ ہو۔ ایک تجویز یہ آئی کہ مذہبی معاملات میں پڑنے کے بجائے عوام کو ریلیف دیا جائے‘ مالکانہ حقوق‘ روزگار کے مواقع اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی‘ تاکہ پارٹی پر مذہبی چھاپ نہ لگے اور حکومت عوام کی ہمدردیاں بھی حاصل کر لے۔ دوسری تجویز پیش کرنے والوں میں حفیظ کاردار مرحوم پیش پیش تھے جن کا خیال تھا کہ اول الذکر تجویز پر عملدرآمد سے ہم مذہبی طبقے کو راضی نہیں کر سکتے اور اپنے حمایتیوں کو ناراض کر بیٹھیں گے۔ 
بھٹو صاحب نے بالآخر شراب اور قمار بازی پر پابندی عائد کردی مگر اس وقت تک حکومت کے خلاف جذبات اس قدر بھڑک چکے تھے کہ عوام نے کریڈٹ حکومت کو دینے کے بجائے اسے پی این اے کی تحریک اور دبائو کا نتیجہ قرار دیا اور کسی نے جھوٹے منہ حکومت کی تعریف نہ کی‘ ہر حکمران کی ہاں میں ہاں ملانے اور اس کے ہر فیصلے کی تعریف میں زمین‘ آسمان کے قلابے ملانے والے عادی قصیدہ خوانوں نے البتہ داد و تحسین کے ڈونگرے خوب برسائے۔ 
دراصل احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں عوامی نفسیات تبدیل ہوتی ہے۔ ہیجانی کیفیت میں آدمی فیصلہ حقائق دیکھ کر نہیں‘ تاثر کی بنیاد پر کرتا ہے۔ تاثر کو حقیقت پر اسی باعث غالب قرار دیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب مقبولیت کی انتہا پر تھے تو لوگوں نے مخالفین کی طرف سے شراب نوشی کے الزام کو پرکاہ کی وقعت نہ دی جب بھٹو صاحب نے کہا ''تھکاوٹ کے بعد میں تھوڑی سی پی لیتا ہوں مگر عوام کا خون نہیں پیتا‘‘ تو جیالوں نے بھنگڑا ڈالا مگر اسی مقبول رہنما نے پُرزور و پُرجوش تحریک کے دوران شراب پر پابندی لگائی تو کسی نے نوٹس ہی نہ لیا‘ اُلٹا حبیب جالب نے کہا ؎ 
بہت کم ظرف تھا جو محفلوں کو کر گیا ویراں 
نہ پوچھو حالِ یاراں شام کو جب سائے ڈھلتے ہیں 
بھٹو صاحب حبیب جالب کے مداح تھے اور سیاسی اختلافات کے باوجود عوامی شاعر کی کڑوی کسیلی سن لیتے تھے۔ 1971ء میں ایک بار بھٹو صاحب نے جالب کو اپنی رہائش گاہ 70 کلفٹن پر مدعو کیا۔ بھٹو صاحب الیکشن جیت چکے تھے اور جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں‘ صنعت کاروں نے 70 کلفٹن پر ہجوم در ہجوم حاضری کا آغاز کیا تھا۔ جالب پہنچے تو خوب آئو بھگت اور خاطر تواضع کے بعد بھٹو صاحب نے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔ جالب نے مشہور نظم سنائی ؎ 
کھیت وڈیروں سے لے لو 
ملیں لٹیروں سے لے لو 
ملک اندھیروں سے لے لو 
رہے نہ کوئی عالیجاہ 
پاکستان کا مطلب کیا 
لا الٰہ الا اللہ 
بھٹو نے بے تکلفی سے روکا اور کہا! ''جالب صاحب کوئی اور نظم سنائو‘ اس وقت سندھ اور پنجاب کے سارے وڈیرے‘ جاگیردار میرے ساتھ بیٹھے ہیں‘ مجھے ابھی ان کی ضرورت ہے‘‘۔ 
جالب کا جواب دلیرانہ تھا ''جناب آپ چاہتے ہیں کہ جب نواب سلطان چانڈیو اور نواب صادق قریشی بیٹھے ہوں تو میں پڑھوں ''کھیت وڈیروں کو دے دو‘‘ 
سہگل اور آدم جی آئیں تو میں پڑھوں ''ملیں لٹیروں کو دے دو‘‘ 
اور عزیز احمد اور روئیداد خاں کو آپ کے پہلو میں دیکھ کر کہوں ''ملک اندھیروں کو دے دو‘‘ 
جناب میں تو ''لے لو‘‘ والا ہوں۔ بھٹو صاحب نے جالب کو گلے لگا لیا اور کہا ''اچھا بابا جو چاہو پڑھو مگر آخر میں سبز باغ‘ کالاباغ والی نظم ضرور سنانا‘‘۔ 
بجلی کے نرخوں میں کمی سے پہلے وزیراعظم دو بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر چکے ہیں‘ اس کمی کا عالمی مارکیٹ میں تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے کیا تعلق ہے اور جس شرح سے تیل کی فی بیرل قیمت کم ہوئی اس تناسب سے پاکستانی عوام کو ریلیف ملا یا نہیں؟ یہ ایک الگ ایشو ہے جس پر ماہرین معاشیات اور تجزیہ نگار خوب روشنی ڈال رہے ہیں۔ یہ پہلی خوشخبری ہے جو عوام کو ملی مگر چونکہ یہ درست فیصلہ غلط وقت پر ہوا‘ تحریک انصاف نے احتجاجی دھرنے کے دوران مسلسل بجلی‘ تیل اور اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافے کو غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کی چکی میں پسنے والے عوام کے ساتھ ناانصافی اور ظلم قرار دیا‘ لہٰذا وزیراعظم کے اعلانات کو کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہر ایک نے اسے عمران خان کی کامیابی اور حکومت کی کمزوری سے تعبیر کیا۔ 
میاں صاحب کے متوالوں کو تو ہڑتالیں ناکام کرنے سے فرصت نہیں یا پھر بے چاروں کو صبح و شام سانحہ ماڈل ٹائون اور سانحہ فیصل آباد کی صفائیاں دینی پڑتی ہیں جبکہ تحریک انصاف کے خوردوکلاں نے پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر خوب چڑھائی کر رکھی ہے۔ جب یہ کہتے ہیں کہ بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں کمی ان کے دھرنوں‘ جلسوں اور ہڑتالوں کا کمال ہے تو عام آدمی سچ سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ 14 اگست سے قبل حکومت کے تیور یہ نہ تھے‘ تب تک تو اضافہ ہی اضافہ تھا۔ 
عمران خان نے رحیم یار خان کے جلسہ میں وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تو بہت سوں کا خیال تھا کہ اس پسپائی پر عمران خان اپنے کارکنوں کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا‘ ملتان میں چھ سات افراد کی ہلاکت پر بھی مخالفین کا ردعمل یہی تھا کہ یہ واقعہ تحریک انصاف کو لے بیٹھے گا مگر عمران خان کی مقبولیت میں کوئی فرق پڑا نہ کسی نے مخالفین کے منفی پروپیگنڈے پر کان دھرا۔ البتہ عمران خان کی مخالفت پر سیاست کے سٹار جاوید ہاشمی کا ستارہ ڈوب گیا۔ جاوید ہاشمی آج بھی اپنی شکست کو عمران خان کی مقبولیت کا سحر سمجھتے ہیں ورنہ عامر ڈوگر مسلم لیگ کے ٹکٹ پر بھی بہادر ہاشمی کو نہ ہرا سکتا۔ 
بامقصد مذاکرات کے ذریعے مفاہمت کا دبائو بڑھ رہا ہے‘ حکومت مجبور ہے کیونکہ دھاندلی کے الزامات کی منصفانہ تحقیق و تفتیش اور ملوث افراد کا مواخذہ کیے بغیر سیاست کی گاڑی آگے بڑھ سکتی ہے نہ جمہوریت کو درپیش خطرات کا خاتمہ ممکن ہے۔ اونٹ پر بیٹھنے کا شوق ہے تو کوہان سے کیا ڈرنا! کابل جانا ہے تو افغان بھی ہوگا اور مقابلے میں کپتان تو ہوگا۔ 
خورشید شاہ صاحب نے پتے کی بات کہی ہے کہ ان دنوں عمران خان کے چنے بھی باداموں کے بھائو بک رہے ہیں شاہ صاحب کو توقع ہے کہ چھ ماہ بعد صورتحال یہ نہ ہوگی‘ بجا‘ لیکن اگر چھ ماہ بعد یہ چنے سونے کے بھائو بکنے لگے تو پھر؟ بہتر یہی ہے کہ موہوم امیدوں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ چنے موجودہ بھائو پر خرید لیں۔ اس دوران عوام کو ریلیف دیتے جائیں‘ کون جانے کب عوام کا دل پسیج جائے اور وہ حکومت کی خطائیں معاف کر کے اسے سر پہ اٹھا لیں۔ دنیا باُمید قائم۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں