میرے اندر عدو‘ میرے باہر عدو

پھول دیکھے تھے جنازوں پہ ہمیشہ میں نے 
کل مری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے 
سانحہ پشاور کا دکھ صرف پاکستان میں نہیں‘ پوری دنیا میں محسوس کیا گیا۔ ہر صاحبِ اولاد اپنے بچے‘ بچیوں‘ پوتے‘ پوتیوں‘ نواسے‘ نواسیوں کا تصور کر کے لرز اٹھا۔ اسلام کے نام لیوائوں اور عشق رسولﷺکے دعویداروں کو حضرت قاسمؓ، حضرت طیبؓ، حضرت طاہرؓ، حضرت حسن ؓاور حضرت حسین ؓسے آپؐ کی محبت‘ شفقت اور ناز برداری یاد آئی اور وہ ان سفاک لوگوں کی درندگی پر تڑپ اٹھے‘ جنہیں کسی بچے پر گولی چلاتے ترس آیا‘ نہ لہولہان بچے کی التجا و فریاد نے جن کا ہاتھ روکا۔ 
خالد احمد نے برسوں قبل جب کہا تھا ؎ 
کوئی تو روئے لپٹ کر جوان لاشوں سے 
اسی لیے تو وہ مائوں کو بیٹے دیتا ہے 
تو مرحوم کو اندازہ نہ ہوگا کہ ایک روز جوان اور کمسن لاشوں سے لپٹ کر رونے والوں میں پورا معاشرہ بلکہ پورا جہان شامل ہوگا۔ مائوں کی آہ و بکا پوری دنیا میں سنی جائے گی اور ہر بچہ خوف کے سبب پکار رہا ہوگا ؎ 
قتلِ طفلاں کی منادی ہو رہی ہے شہر میں 
ماں مجھے بھی مثل موسیٰ تو بہا دے نہر میں 
بچوں کے قتل عام پر لکھنے بیٹھو تو کلیجہ منہ کو آتا ہے اور قلم رُک جاتا ہے۔ آدمی کیا لکھے اور کس طرح۔ دماغ ساتھ نہیں دیتا‘ خیالات میں ربط نہیں رہتا‘ قلم بھٹکنے لگتا ہے اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ کبھی اتنا المناک منظر سوچا‘ نہ دیکھا۔ 
جس ماں کی گود اجڑی اور جس باپ کا نور نظر‘ لخت جگر جدا ہوا‘ اس کا کیا حال ہوگا وہی جانتے ہیں یا ان کا خدا ؎ 
خدا غارت کرے تم کو 
کہ تم نے میرے بچے مار ڈالے ہیں 
مرے گھر کو اجاڑا ہے 
مرے آنگن کی بیلوں پر 
لگے خوش رنگ خوشوں کو 
بھنبھوڑا‘ نوچ ڈالا ہے 
خدا غارت کرے تم کو
مرے بچے! 
مرے بچے جو گھر سے علم کی راہوں میں نکلے تھے 
وہ کہتے تھے بڑے ہو کر 
مسیحا یا مفکر یا کوئی انجینئر بن کر 
وہ ملک و قوم کی خدمت کریں گے 
جان واریں گے
وہ کہتے تھے کہ ہم فوجی بنیں گے 
تو پھر اس ملک کی جانب لپکتے سازشی ہاتھوں کو جڑ سے کھینچ لائیں گے
مرے بچوں کے سپنوں کو 
منوں مٹی تلے تم نے دبا ڈالا 
خدا غارت کرے تم کو
مرے بیٹے! 
مرے شاہین بیٹے تھے 
جو سپنوں میں جہازوں کو اڑاتے تھے 
قلانچیں بھرتے جاتے تھے
خوشی سے مسکراتے تھے
تمہیں معلوم ہے ان کے لبوں پہ مسکراہٹ کیسے سجتی تھی؟
تمہیں کیسے پتا ہوگا کہ تم سفاک قاتل ہو
درندے ہو
مرے گلشن میں اڑتی تتلیوں کے مارنے والو
خدا غارت کرے تم کو
مرے معصوم تو معصوم تھے، معصوم بھی ایسے
کبھی جھگڑا نہ کرتے تھے
کسی جانب سے اپنا دل کبھی میلا نہ کرتے تھے
تمہاری سوچ ہے لیکن یقیں مانو فرشتے بھی
مرے معصوم بچوں کی قسم کھاتے تو یزداں مان جاتا تھا
پر اس سے تم کو کیا مطلب
تمہیں یزداں سے کیا مطلب
تمہیں کیسے خبر ہوگی کہ تم پتھر دلوں والے
بہت سفاک قاتل ہو
خدا غارت کرے تم کو
خدا غارت کرے تم کو 
اس دکھ کو ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں محسوس کیا اور لفظوں کے قالب میں ڈھالا مثلاً: 
یہ میرے پھول صبح دم 
دعائوں کے حصار میں 
سکول کی طرف رواں دواں
لبوں پہ مسکراہٹیں، نگاہ میں شرارتیں
بہت لڑائیاں ہیں ایک دوسرے کے ساتھ
ہاں‘ مگر کسی سے دشمنی نہیں
یہ میرے پھول جن کی آنکھ سے کبھی جو اشک خاک پر گرے
تو ماں کا دل دہل اٹھے
نہ جانے کس طرح لہو کے سیل سے گزر گئے
ابھی کھلے‘ ابھی ہوا کی زد میں آگئے
انہیں تو خوشبوئوں میں تیرنا تھا اور خون میں نہا گئے
گھروں میں سجدہ ریز مائوں کی دعائیں کیا ہوئیں
مرے خدا‘ یہ شہر راکھ کیوں نہیں ہوا
زمین کیوں نہیں پھٹی‘ فلک میں بھی شگاف کیوں نہیں ہوا
کمال ہے کسی کو دکھ ذرا نہیں
تمام لوگ جی رہے‘ کوئی بھی مرا نہیں 
(قمر رضا شہزاد)
سانحۂ پشاور نے قوم کو جھنجھوڑا ہے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں نے جھرجھری سی لی ہے اور کچھ اقدامات کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ اس کے بغیر چارہ بھی نہیں ؎
اس چمن کے عدو... ہر طرف چار سو
آج موجود ہیں
جن کے ہاتھوں پہ ہے...اہل دانش کا خوں
اب بھری بزم میں...خوش بیاں‘ خوش نظر
کوئی منظرنہیں
سو یہ امکان ہے... قتل ہوتے رہے
گر یونہی چارہ گر... اہلِ علم و ہنر
آدمی معتبر... خوش بیاں‘ خوش نظر
کون لائے گا پھر
تیرگی چیر کر... جھلملاتی سحر
اے مرے راہبر... وقت ہے سوچ لو
ظلم انسان پر
یوں ہی ہوتا رہا... ہوگا منظر یہی
ہر طرف چار سو ... بے اماں زندگی
بے یقیں آبرو
(عتیق الرحمن صفی)
حفیظ تائب مرحوم نے برسوں قبل جب کہا ؎
دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو
میرے اندر عدو‘ میرے باہر عدو
ماجرائے تحیّر ہے پُرسیدنی
صورت حال ہے دیدنی یا نبیؐ
تو پاکستان کے حالات اتنے ابتر تھے نہ دشمنوں نے یوں چاروں طرف سے گھیرا ڈالا تھا کہ کسی کو کچھ سمجھ ہی نہ آئے مگر یہ ہوگیا اور اب ہر ایک کی زباں پہ فریاد ہے ؎
اک تمغۂ خیرات ہے جو زیب گلو ہے
ارزاں ہے جو سب سے وہ مسلماں کا لہو ہے
اب چاروں طرف برسرِ پیکار عدو ہے
جس جا بھی مسلماں ہیں، بہت آہ و بکا ہے
اے خاصہ خاصان رسلؐ وقت دعا ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں