لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

آدھ پون گھنٹہ تک اِدھر اُدھر گھوم پھر کر، کبھی ایک سے پوچھ، کبھی دوسرے سے تکرار کے بعد دفتر پہنچ گئے مگر ہر سُو اُدھڑے پُدھڑے بے سمت و بے ڈھب اسلام آباد کو دیکھ کر رنج بہت ہوا۔ حفاظتی رکاوٹوں، انڈر پاسز اور میٹرو بس کی تعمیر نے وفاقی دارالحکومت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے ورنہ برسوں قبل یہ 'اک شہر تھا عالم میں انتخاب!‘
میر تقی میرؔ نے دہلی کو چھوڑ دیا مگر دہلی نے انہیں کبھی نہ چھوڑا، کہیں کا نہ چھوڑا۔ ایک محفل میں بیٹھے تھے کہ کسی نے منہ بنا کر دوسرے سے پوچھا یہ کون ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں؟ میرؔ کو دھچکا لگا طبیعت رواں ہوئی اور بولے ؎
کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا، عالم میں انتخاب
رہتے تھے جہاں منتخب ہی روزگار کے
اُس کو فلک نے لُوٹ کے ویرانہ کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اُسی اُجڑے دیار کے
اسلام آباد کو اللہ تعالیٰ آباد وشاد رکھے اور کسی کی نظر نہ لگے۔ منتخب روزگار لوگوں کا شہر یہ کبھی تھا نہ بن سکا۔ گریڈوں کا شہر ہے اور منتخب روزگار لوگ ہمیشہ اس سے متوحش رہے کہ جہاں احمد فراز اور افتخار عارف جب کسی بڑے منصب پر فائز نہ ہوتے تو لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے کون ہے، کہاں کا رہنے والا، بالکل میر تقی میر کی طرح۔ تاہم کم آبادی، خوبصورت لینڈسکیپنگ، سرسبز و شاداب گرین بیلٹس، جابجا درختوں کے جھنڈ ،سجے سنورے صاف ستھرے گلی کوچے اور مہذب پولیس کی وجہ سے یہ دنیا کے قابل ذکر و قابل توجہ دارالحکومتوں میں شمار ہوتا تھا۔ مگر اب کیا ہے؟ اینٹوں، سیمنٹ، سریے اور کنکریٹ کے بلاکس کا مجموعہ اور بے مروت سرکاری افسروں و سیاستدانوں کی بستی جو ہاتھ بھی چہرہ اور مرتبہ دیکھ کر ملاتے ہیں۔مفکر پاکستان اقبالؒ نے تو ہمیں بتایا تھا کہ ؎
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ وخشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
مگر اقبالؒ اور بانیان پاکستان نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ اس فکر انگیز شعر کی مٹی پلید ان کی فکری و عملی جدوجہد کے طفیل وجود میں آنے والے ملک کے دارالحکومت میں ہو گی۔ میرے خیال میں تو فیلڈ مارشل ایوب خان کے ذہن میں بھی شہر کا یہ بے ہنگم نقشہ نہ تھا۔ تجاوزات کی بھرمار، انسانوں کا ہجوم، شور شرابا، جگہ جگہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرنے والا گردوغبار۔
نیا اور خوبصورت دارالحکومت بسانے کا سودا ایوب خان کے سر میں سمایا تو ماہرین نے ڈیرہ غازی خان کے اردگرد کا علاقہ تجویز کیا... بین الاقوامی مشرقی، مغربی اور شمالی سرحدوں سے دُور، پہاڑوں میں ڈھکا، مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کا سنگم اور کوہ سلیمان و دریائے سندھ کے وسط میں واقع محفوظ مقام۔ مگر بریگیڈیئر یحییٰ خان (بعدازاں آرمی چیف، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان) نے راولپنڈی اور ریحانہ کے درمیان واقع اس خطے کو تجویز کیا جو اب اسلام آباد کہلاتا ہے... صاف پانی کی کمی کا شکار، زلزلوں کی فالٹ لائن اور بلوچستان و سندھ کیا جنوبی پنجاب سے بھی کوسوں دور۔
یحییٰ خان کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی تو پہلا الزام یہ لگا کہ کراچی کے بجائے ایوب خان کے آبائی قصبہ اور جی ایچ کیو کے قریب نیا دارالحکومت بسانے کا مقصد فیلڈ مارشل کو خوش کرنا ہے۔ پاکستان نے عالمی بنک سے پہلا قرضہ اس بے مہر شہر کو بسانے کے لئے حاصل کیا ،پھر چل سو چل !ایوب خان کے شخصی طرز حکومت اور جدید طرز کے شہر نے مشرقی پاکستان کے بنگالی قوم پرستوں کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا کہ اس کی جہازی سائز کی صاف ستھری سڑکوں سے پٹ سن کی بو آتی ہے۔ کراچی کا موسم بنگالیوں کو سازگار تھا اور وہاں انہیں اپنی طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا... مفلس و بے روزگار، لٹے پٹے، میلے کچیلے، مسائل زدہ اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار۔ اسلام آباد آکر انہیں عجیب طرح کی کوفت ہوتی۔ بابو ٹائپ حکمران اور احساس کمتری کے مارے بیوروکریٹس دونوں، اُن آقائوں کے رنگ میں رنگے جن سے آزادی حاصل کرنے کے لئے مغربی و مشرقی پاکستان کے عوام نے قربانیاں دی تھیں۔ بودوباش، لباس، گفتار اور انداز فکر میں سامراجی آقائوں کی بھدی فوٹوکاپی اور برتائو میں ہر ایک کے لئے ناقابل برداشت۔
اس کے باوجود اسلام آباد ایک محفوظ اور منفرد شہر تھا۔ پرانے شہروں میں پائی جانے والی کئی قباحتوں سے پاک اور جاذب نظر۔ ہر سُو سبزہ اور قدرتی آکسیجن کی فراوانی، شہر کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ لوگ اس طرف کا رخ کام کاج کے سلسلے میں کرتے اور سڑکوں، بازاروں میں یک گو نہ کشادگی کا احساس ہوتا۔ زیادہ چہل پہل قومی اسمبلی کے اجلاس کے دنوں میں نظر آتی یا جب کوئی غیر ملکی سربراہ پاکستان کا دورہ کرتا۔
اسلام آباد کو بسانے کے لئے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم ہوئی تو لوگ وفاقی دارالحکومت میں رہائش کو پسند نہیں کرتے تھے ،ایسے شہر میں جہاں کوئی سوشل لائف نہ تفریح کے مواقع ،کون رہنا پسند کرتا ہے۔ کراچی کے سیٹھ اور پنجاب و سندھ کے جاگیردار اسلام آباد آتے تو ایوب خان انہیں یہاں پلاٹ لینے کی ترغیب دیتے مگر کوئی آمادہ نہ ہوتا۔ یہ مشہور ہو گیا کہ ایوب خان سستے داموں پلاٹ لینے پر مجبور کرتے ہیں تو کراچی کے سیٹھوں نے ایوان صدر آنا جانا کم کر دیا کہ خواہ مخواہ پلاٹ گلے پڑ جائے گا۔ تاہم اوریجنل منصوبے میں طے تھا کہ آبادی مقررہ حد سے بڑھے گی نہ گرین ایریا، کمرشل ایریا اور رہائشی آبادی کے درمیان توازن بگڑے گا اور نہ اس کا ماسٹر پلان تبدیل ہو گا۔
بھٹو صاحب کے دور میں بگاڑ آیا اور جنرل ضیاء الحق نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد ارکان اسمبلی کو پلاٹ الاٹ کرنے کی اجازت دی تو اس خوبصورت شہر کا حلیہ بگڑنے لگا۔ دوسرے شہروں کی طرح پلاٹوں کا کاروبار عروج پر پہنچا اور شہر نے پھیلنا شروع کر دیا۔ فاصلے بڑھتے گئے، درخت کٹتے گئے اور گرین ایریا گھٹتا چلا گیا۔ سڑکوں کے کنارے اب درخت اور سبزہ نہیں، سربفلک پلازے اور کھوکھے نظر آتے ہیں اور اشتہاری ہورڈنگز نے شہر کا قدرتی حسن برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ مصنوعی روشنیوں میں رات کوچاند تارے دیکھنا نصیب نہ ٹریفک کا شور اور بلندوبالا عمارتوں کے طفیل کھلا آسمان دیکھنا آسان۔
مجھے وہ دن یاد آئے جب اس محفوظ شہر میں قومی اسمبلی کا اجلاس دیکھنے والوں کو پورے سیشن کے لئے کارڈ جاری ہوتا اور کسی کا جب جی کرے کسی تلاشی اور پوچھ گچھ کے بغیر کارڈ دکھا کر اسمبلی ہال میں جاسکتا تھا۔ ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ میں پرانے کارڈ پر اگلے پورے سیشن میں شریک ہوتا رہا ،کسی نے پوچھا تک نہیں۔حافظ عبدالخالق مرحوم کے گھر سے ہم مٹرگشت کرتے پارلیمنٹ ہائوس اور پاک بلاک چلے جاتے، راستے میں روک ٹوک نہ ان عمارتوں میں داخلہ مشکل۔ یہ بتانا کافی ہوتا کہ کس اخبار سے تعلق ہے ،زیادہ سے زیادہ اخبار کا شناختی کارڈ دکھانا پڑتا اور دروازہ کھل جاتا۔ کسی دوست کی گاڑی مل جاتی تو گھومنا پھرنا مزید آسان۔ اجنبی بھی چند بڑی عمارتوں کی شناخت کے سہارے شہر کے طول و عرض سے بآسانی واقف ہو جاتا۔
مگر گزشتہ روز میں جس شہر میں داخل ہوا وہ لاہور، ملتان اور کراچی کا ایک حصہ معلوم پڑا۔ لاہور کے کئی علاقے اب اسلام آباد کو شرماتے ہیں جو ابھی قلعہ بند نہیں، جہاں سبزہ بھی نظر آتا ہے، آمدورفت میں ترتیب اور منزل پر پہنچنا آسان بھی۔ جنگل کاٹ کر اسلام آباد کو سنگ وخشت کے ملبے میں تبدیل کر دیا گیا ہے جس میں گھومنا پھرنا آسان نہ ماہر ڈرائیور یا گائیڈ کے بغیر کہیں پہنچنا سہل۔ یہ گریڈوں کا شہر روز اوّل سے تھا، کمرشل پلازوں، تجاوزات، بے ہنگم رکاوٹوں کا شہر اب بنا ہے۔ ایوب خان نے بیوروکریسی کو تاجروں اور ٹھیکیداروں کے اثرورسوخ سے بچانے کے لئے نیا شہر آباد کیا مگر یہاں بیوروکریسی اور حکمرانوں نے تاجروں اور ٹھیکیداروں کا روپ دھار کر اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ صرف اسلام آباد کیا پورے ملک بلکہ اپنے سیاسی، سماجی، معاشی اور اقتصادی نظام کی شکل و صورت بھی ؎
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں