اوباما مودی بھائی بھائی

اس بار امریکی صدر بارک حسین اوباما کے دورۂ بھارت پر پاکستان میں شور مچا،نہ اسے امریکہ کا غیر دوستانہ عمل قرار دیا گیا حتیٰ کہ امریکی صدر کے انڈیا ٹو ڈے کو دیئے گئے بیان پر بھی تشویش کا اظہار نہیں ہوا جس میں بارک اوباما نے بھارت کو گلوبل پارٹنر قرار دے کر پاکستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں پر تشویش ظاہر کی تھی ۔ اہم ترین پیش رفت پر پاکستان میں ٹھہرائو غیر معمولی اعتماد کا مظہر ہے ، بے نیازی کا عکس یا اندرون خانہ پاک امریکہ ،کامیاب سفارت کاری کا نتیجہ ہے۔ اسلام آباد میں بیک وقت کئی سازشی تھیوریاں گردش کر رہی ہیں ۔ 
ایک مضبوط اور قابل فہم نقطہ نظر یہ ہے کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں بہتری آئی ہے ، شکوک و شبہات کا ازالہ ہوا ہے اور امریکہ نے افغانستان کے معاملات میں پاکستان کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے بھارت کو الگ رکھنے کا فیصلہ کیا جس کا سب سے بڑا ثبوت برطانیہ میں منعقد ہونے والی سہ فریقی کانفرنس میں بھارت کی عدم شرکت اور افغانستان کے نو منتخب صدر اشرف غنی کی چین کے بعد پاکستان آمد ہے ۔ چین ، پاکستان اور سعودی عرب کا دورہ کرکے افغان صدر نے واضح پیغام دیا کہ وہ اپنے ملک اور خطہ میں قیام امن کیلئے جن ممالک اور قوتوں پر اعتماد کر سکتے ہیں ان میں بھارت شامل نہیں ۔ ظاہر شاہ سے لے کر ڈاکٹر نجیب اللہ اور برہان الدین ربانی سے لے کر حامد کرزئی تک ہر افغان صدر کا قبلہ و کعبہ دہلی رہا اور انہوں نے بھارت کو ہمیشہ پاکستان پر ترجیح دی ۔ برہان الدین ربانی اور حامد کرزئی نے تو پاکستان میں قیام کو یاد رکھا، نہ مختلف پاکستانی حکمرانوں کی مہربانیوں کو اور نہ حق نمک ادا کرنے کی ضرورت محسوس کی ۔ 
امریکہ نے افغانستان سے انخلا کے بعد قیام امن کیلئے پاکستان کے مضبوط ، موثر اور قائدانہ کردار کی ضرورت کیوں محسوس کی، یہ ایک الجھا ہوا سوال ہے تاہم آپریشن ضرب عضب میں پاک فوج کی کارگزاری ، ہر طرح کے دہشتگردوں سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے عزم اور پاکستان کے خلاف لڑنے والوں کی بھارت کی طرف سے مالی و اسلحی امداد کے واضح ثبوت سامنے آنے کے بعد امریکہ کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ جنرل راحیل شریف کو واشنگٹن بلا کر اپنے بھر پور تعاون کا یقین بھی دلائے اور بھارت کو بھی مشرق سرحدوں پر کوئی شرارت نہ کرنے کی تلقین کرے ۔ اس ضمن میں چین کا کردار ناقابل فراموش ہے جس کی وزارت خارجہ نے ایک طرف تویہ ، دو ٹوک بیان جاری کیا کہ پاکستان کی آزادی اور سلامتی کو درپیش خطرات کے سد باب کیلئے ابھرتی ہوئی دفاعی قوت بھر پور کردار ادا کرے گی اور کسی کو پاکستان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی اجازت نہیں دے گی، دوسری طرف افغان صدر اشرف غنی کو یہ یقین دہانی کرائی کہ اگر وہ اندرون ملک استحکام کیلئے پاکستان کا تعاون حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور افغان طالبان کو بھی آن بورڈ لیتے ہیں تو تباہ حال ریاست کی تعمیر نو اور اقتصادی ، تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کیلئے چین بھر پور سرمایہ کاری پرآمادہ ہے جو چالیس پچاس ارب ڈالر پر مشتمل ہو گی ۔ 
جہاں تک افغان طالبان کا تعلق ہے وہ امریکی انخلا کے بعد قومی اور سیاسی دھارے میں آنے پر تیار ہیں تاہم وہ اپنا موثر کردار اور حصہ بقدر جثہ مانگتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کی شرط ماننے پر وہ فی الحال تیار نہیں اور ان کا اصرار ہے کہ جس طرح عبداللہ عبداللہ کو انتخابات میں شکست کے باوجود اقتدار میں حصہ ملا ہے اس طرح پختونوں کے نمائندے اور ایک موثر قوت کے طور پر طالبان کا حق دیا جائے۔ چین، سعودی عرب اور دیگر ہمسایہ ممالک طالبان کے اس موقف میں وزن محسوس کرتے ہیں کیونکہ افغانستان میں قیام امن کی کنجی اب بھی ملا عمر کے پاس ہے اور چین سرمایہ کاری کے حوالے سے افغانستان کا اہم ترین کھلاڑی ہے۔ 
اندرون ملک میں جو بھی سوچ ہو مگر بیرون ملک اہم دارالحکومتوں میں جنرل راحیل شریف کے کردار کو خوش دلی سے تسلیم کیا جا رہا ہے اور عام خیال یہ ہے کہ امریکی صدر کا دورہ نئی دہلی بنیادی طور پر بھارت کو صدمے کی اس کیفیت سے نکالنے کی کڑی ہے‘ جس میں بھارت افغانستان میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار، پاکستان میں دہشتگردی اور تخریب کاری کے واقعات میں ملوث بھارت نواز عناصر پر افغان حکومت، امریکی فورسز اور برطانیہ و دیگر ممالک کے دبائو اور مولوی فضل اللہ، حیربیار مری، براہمداغ بگٹی و دیگر کو پاکستان کے حوالے کرنے کے منطقی مطالبہ کی پزیرائی کی بنا پر مبتلا ہے۔ 
پاکستان کے سرکاری حلقوں کو یہ خوش فہمی بھی لاحق ہے کہ شاید بھارت کو ایٹمی کلب اور سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کی امریکی کوششیں، چینی ویٹو کے خطرے کی بنا پر پاکستان کے لئے مفید ثابت ہوں اور بالآخر عالمی برادری بھارت کے ساتھ پاکستان کا وہ سٹیٹس تسلیم کرنے پر آمادہ ہو جو امریکہ بھارت کو ایک بڑی جمہوریہ اور تجارتی منڈی کے طور پر دینے کا خواہش مند ہے۔ اسی بنا پر حالیہ دنوں میں چینی وزارت خارجہ نے خطے میں قیام امن کو نہ صرف مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کیا ہے بلکہ پاکستان کی آزادی و سلامتی کو درپیش خطرات پر مل جل کر مقابلہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی ہے ۔ 
امریکی صدر کے دورہ بھارت کے موقع پر پاکستان آرمی چیف کا دورہ چین بنیادی طور پر خطے میں متوقع تبدیلیوں کے حوالے سے دونوں ممالک کے موقف میں ہم آہنگی کا جائزہ لینے کی غرض سے ہے تا کہ مستقبل کے سیاسی، اقتصادی اور دفاعی چیلنجز سے نمٹنے کی مشترکہ حکمت عملی وضع کی جا سکے۔ بیجنگ کی اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں اوباما مودی خوش گپیوں اور امریکہ بھارت معاہدوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا اور امریکی انخلا کے بعد پاک چین پارٹنرشپ کو خطے میں سیاسی، اقتصادی، معاشی و دفاعی استحکام کیلئے مزید مفید بنانے کی تجاویز زیر غور آئیں، تاہم پاکستان کو ان دنوں بڑا خطرہ بیرونی جارحیت سے زیادہ بھارتی تعاون و سرپرستی کے ساتھ جنم لینے والی دہشتگردی کے ساتھ اندرون ملک سیاسی عدم استحکام، ریاستی اداروں کی نااہلی اور آئے روز کے بحرانوں سے ہے‘ جس سے ضرب عضب آپریشن پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پاکستان کے سیاسی نظام پر بھی سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھتے ہیں۔ 
پٹرول کے بعد بجلی کا بحران، اکیسویں ترمیم اور ملٹری کورٹس پر پائے جانے والے قومی اتفاق رائے میں دراڑیں اور وفاقی کابینہ کے ارکان کی باہمی چپقلش کے علاوہ وزیر اعظم کی کمزور قوت فیصلہ جس کی وجہ سے وہ اب تک نااہل اور پٹرول بحران میں ملوث وزراء کا احتساب کر سکے ہیں نہ بحرانوں میں مبتلا کرنے والے ساتھیوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب اور نہ ہی ابھی تک اپنے سیاسی مخالفین بالخصوص تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ پائیدار مفاہمت میں کامیاب ہوئے جو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں یکسوئی کا تقاضا اور قومی اتفاق رائے برقرار رکھنے کیلئے از بس لازم ہے۔ اس کے برعکس میاں صاحب کے بعض قریبی ساتھی محاذ آرائی کی آگ پر تیل چھڑکنے اور تلخی و نفرت کے شعلوں پر ہاتھ سینکنے کے شوق فضول میں مبتلا ہیں جو قومی سلامتی اور دفاع کے ذمہ دار اداروں کیلئے حیران کن بات ہے۔ 
خطے میں پاکستان، چین، افغانستان اور سعودی عرب اہم کھلاڑیوں کے طور پر ایک دوسرے کے ہاتھ سے ہاتھ ملا کر آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی خاموش مگر خوش دلانہ تائید و حمایت انہیں حاصل ہے جبکہ چین افغانستان میں محفوظ سرمایہ کاری کیلئے نہ صرف اپنی آزمودہ اور قابل اعتماد نیوکلیئر ریاست پر انحصار کر رہا ہے بلکہ وہ افغان قیادت کو بھی یہ باور کرانے میں کامیاب رہا ہے کہ پُرامن افغانستان کا دارومدار مضبوط و مستحکم پاکستان پر ہے جو نہ صرف اپنے ہاں دہشتگردی کے خاتمہ میں مصروف ہے بلکہ افغانستان کو درپیش خطرات کا مقابلہ بھی بے جگری سے کر رہا ہے۔ 
اسلام آباد امریکی صدر کے دورہ بھارت پر غیر معمولی ہیجان اور پریشانی کا شکار نظر نہیں آتا اور سمجھتا ہے کہ بھارت اس دورے سے غیر معمولی فوائد حاصل کرنے میں شاید کامیاب نہ ہو سکے۔ وہ اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے بل بوتے پر ایٹمی کلب اور سلامتی کونسل کی ممبرشپ کا خواہش مند ہے تو اس خواہش کی تکمیل کیلئے چین اور پاکستان کی خوش دلانہ تائید و حمائت اور مسئلہ کشمیر کا قابل قبول حل ضروری ہے اور اگر وہ دہشتگردی کے خطرات کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کے خلاف ریشہ دوانیوں سے لاتعلق ہونا پڑے گا اور سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ ختم کرنی پڑے گی تا کہ پاکستان یکسوئی سے دہشتگردوں کا مقابلہ کر سکے؛ تاہم خوش فہمی کی گنجائش نہیں اور محض چین کی پشت پناہی کے سہارے محفوظ مستقبل کی ضمانت نہیں مل سکتی کیونکہ اگر ہم امریکہ کی طرح چین کے تعلقات پر پورے نہ اترے، پاکستان افغانستان میں قیام امن کی شاہ کلید ثابت نہ ہوا اور دہشت گردی کے خلاف جنرل راحیل شریف کا عزم حکومت کی اندرونی کمزوریوں، ناقص طرز حکمرانی، شتر گربہ پالیسیوں اور سیاستدانوں کی باہمی چپقلش کی بھینٹ چڑھ گیا تو تجزیوں، تبصروں اور امکانات کی عمارت محض ریت کی دیوار ثابت ہو سکتی ہے اور چالاک مودی ساری صورتحال کو بھارت کے حق میں ہموار کر سکتے ہیں جس کا قبل از وقت احساس و ادراک ہمارے فیصلہ سازوں کو ہونا چاہئے فی الحال تو کوئی بات یقین و اعتماد کے ساتھ کہنا مشکل ہے ؎
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیاں ہے زندگی 
میں قریب ہوں کسی اور کے‘ مجھے جانتا کوئی اور 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں