کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

لاہور میں نئے کمانڈوز کی پاسنگ آئوٹ پریڈ کا منظر دیکھ کر برادرم رئوف کلاسرا خواہ مخواہ پریشان ہو گئے ۔انہیں حیرت ہوئی کہ دہشت گردوں کا سراغ لگانے کے لیے حکومت نے جو منصوبہ بندی کی ہے اورہر گلی کوچے میں مختلف رنگ‘ روپ‘ بہروپ میں جو جاسوس چھوڑے گئے ہیں، اس کا بھانڈا ایک خاکے کے ذریعے پریڈ کے منتظمین نے خود ہی پھوڑ دیا اور تقریب کے سٹیج سیکرٹری پکار پکار کر بتاتے رہے کہ یہ بھکاری‘ یہ ریڑھی بان اور یہ خُسرے خفیہ ایجنسیوں کے کارندے ہیں اور اپنی ڈیوٹی انجام دینے میں مصروف۔
سرائیکی وسیب کے جم پل اس منفرد تجزیہ نگار نے شاید امرتسر والا لطیفہ یا واقعہ نہیں سنا۔ ''ایک سردار جی مصروف بازار میں ڈھول بجا کر اعلان کر رہا تھا، مترو تے سجنو! خالصہ پربندھک کمیٹی کی ایک انتہائی خفیہ بیٹھک آج رات فلاں گلی کی نکڑ پر منعقد ہو رہی ہے جس میں اہم فیصلے ہوں گے۔ کمیٹی کے تمام ارکان اور ہمدرد کسی کو بتائے بغیر رازداری سے مقررہ مقام پر پہنچ جائیں تاکہ مستقبل کا لائحۂ عمل طے کیا جا سکے۔ اس خفیہ بیٹھک کی خبر کسی کو کانوں کان نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
پاسنگ آئوٹ پریڈ کے دوران سٹیج سیکرٹری نے تو دہشت گردوں کے مد مقابل قائم ہونے والی فورس کے عسکری حربوں اورتربیت یافتہ کارندوں کا تعارف کرایا مگر وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے ایک قدم آگے بڑھ کر شکار پور سانحہ میں دہشت گردوں کو ہوشیار وخبردار بھی کر دیا کہ سرکاری اداروں نے ان کے ساتھی ایک درزی کو گرفتار کر لیا ہے اور خودکش بمبار کی انگلی شناخت کے لیے نادرا کو بھیج دی ہے۔ اب یہ اس درزی کے ساتھیوں اور شریک جرم دہشت گردوں پر ہے کہ وہ اس سرکاری اور مصدقہ اطلاع کے بعد اپنے بچائو کی کیا تدبیر کرتے ہیں؟ دیگر سہولت کار بھی درزی کی طرح گھروں میں بیٹھے رہے تو کسی دن گرفتار ہو جائیں گے۔
1993ء میں انٹرنیشنل وزیٹر پروگرام کے تحت امریکہ کا تیس روزہ دورہ کرنے والے پاکستان سمیت چھبیس ممالک کے صحافی واشنگٹن کے ایک بنک سے کرنسی تبدیل کرا رہے تھے کہ باہر ہوٹرز کا شور اٹھا۔ چند گاڑیوں اور ایک ایمبولینس پر مشتمل قافلہ گزرا ۔ ہمارے امریکی گائیڈ نے بتایا کہ یہ صدر کلنٹن کا قافلہ تھا۔ تعجب ہوا کہ بازار میں کہیں کوئی بندوق بردار پولیس اہلکار نظر آیا‘ نہ ٹریفک بند ہوئی اور نہ صدارتی گاڑی کے آگے پیچھے درجنوں گاڑیاں اورمسلح حفاظتی دستے قطار اندر قطار دیکھنے کو ملے۔ حالانکہ چند روز قبل نیو یارک کی ورلڈ ٹریڈ سنٹر بلڈنگ کے تہہ خانے میں بم دھماکہ ہو چکا تھا۔
ہم نے اپنے گائیڈ سے پوچھا ،امریکی صدر کی سکیورٹی اس قدر مختصر اور ناقص ہے ؟بولا: کیا مطلب! بھر پور سکیورٹی ہو گی مگر ہم نظر آنے والی سکیورٹی پر یقین نہیں رکھتے جو دشمنوں کو قبل از وقت چوکنا کردے اور انہیں مذموم عزائم کی تکمیل میں آسانی ہو‘ صدر کا حفاظتی دستہ جدید ہتھیاروں ' تربیت اور تکنیک سے لیس ہے اور بازار میں بھی جا بجا ایف بی آئی اور دیگر اداروں کے مستعد ‘ چاق و چوبند اہلکار نگرانی پر مامور ہیں۔ سکیورٹی دکھاوے کے لیے نہیں حفاظت کے لیے ہوتی ہے۔ دشمنوں کو ہوشیار کرنے کے لیے نہیں ،ان پر نظر رکھنے اور انہیں اچانک دبوچ لینے کی خاطر تعینات کی جاتی ہے۔ 
9/11کے بعد امریکہ میں بھی سکیورٹی کے حوالے سے ایس او پی تبدیل ہوئے ،غیر مرئی کے ساتھ مرئی حفاظتی اقدامات میں اضافہ ہوا‘ مگر حفاظتی انتظامات اور طورطریقوں کی تشہیر اس بھونڈے انداز میں نہیں ہوتی کہ سڑکوں بازاروں میں موجود بھکاریوں‘ گدھا گاڑیوں اور تیسری جنس کے غول کے غول دیکھ کر عوام یہی سمجھیں کہ یہ ان کے محافظ ہیں مگر بعد میں پتہ چلے کہ ان میں سے اکثر وارداتیے ‘ پیشہ ور مجرم‘ دہشت گردوں کے گماشتے تھے۔
راولپنڈی میں جنرل مشتاق پر حملہ آور کے بارے میں عینی شاہدوں نے بعد میں بتایا کہ وہ کئی روز سے یہاں ریڑھی پر پھل فروخت کر رہا تھا۔ لاہور میں فاطمہ جناح روڈ پر ایک بلڈنگ نشانہ بنی تو یہ اطلاع منظر عام پر آئی کہ تخریب کار کئی روزتک مختلف روپ دھار کر ریکی کرتے رہے۔ اب بھی کوئی نہیں جانتا کہ گلیوں بازاروں میں ملنگوں ‘ گداگروں ‘ خوانچہ فروشوں‘ بنجاروں‘ اور خاکروبوں میں سے کون کس کا کارندہ ہے۔ کون واقعی اپنے اصلی روپ میں ہے اور کس نے بہروپ دھار رکھا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس آگہی مہم کے بعد لوگ کسی گداگر کو بھیک دیتے اور کسی پھل فروش سے پھل خریدتے وقت خواہ مخواہ کنفیوژ ڈ ہوں گے کہ معلوم نہیں موصوف کا عہدہ کیا ہے اور بحث و تکرار کی صورت میں یہ ہم سے کیا سلوک کر سکتا ہے ۔ کیا پتہ جسے ہم ملنگ بابا سمجھ کر 'معاف کر و بابا ‘کہیں وہ کارپورل ہو‘ ہمارے انکار کو اپنے منصب کی توہین سمجھ کر قانونی کارروائی کر بیٹھے اور کوئی ضمانت دینے والا بھی نہ ہو۔
سانحہ پشاور کے بعد حکومت کی بھاگ دوڑ اور فوجی قیادت سے مل کر بعض اقدامات کو عوام نے پسند کیا۔ غیر جانبدار حلقوں نے سوچا کہ ڈیڑھ سالہ خواب خرگوش کے بعد حکومت بیدار ہو گئی ہے اور اس نے واقعی کچھ کر دکھانے کا عزم کر لیا ہے مگر اکیسویں ترمیم کی منظوری کے بعد ایک بار پھر وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی،سواب بھی ہے،کی کیفیت نظر آتی ہے۔ خصوصی عدالتوں کی تشکیل کا معاملہ تاحال سرد خانے کی نذر ہے ۔ ان عدالتوں میں مقدمات بھیجنے اور پراسیکیوشن کی ذمہ داری وفاقی حکومت نے قبول کی تھی مگر تاحال میکنزم طے نہیں پایا۔ ایک اطلاع کے مطابق اس بے عملی سے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نالاں ہیں۔ 
اس تاخیر اور سستی کی وجہ سے مختلف نوعیت کی سازشی تھیوریاں ایک بار پھر گردش کرنے لگی ہیں۔ چودھری سرور کے استعفے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے اور دہشت گردوں کے خلاف مقدمات چلانے میں تاخیر کا سبب بھی یہی بیان کیا جاتا ہے کہ حکومت تذبذب کا شکار ہے واللہ اعلم بالصواب۔ البتہ دہشت گردی ‘ انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے خاتمے کی ایک تدبیر حکومت کو یہ سوجھی ہے کہ اُس نے ہر اس کتاب اور اس کے پبلشر کو قابل دست اندازی پولیس قرار دیدیا ہے جس میں شیعہ ‘ سنی‘ جہاد‘ خلافت اور مذہبی ذخیرہ الفاظ میں شامل دیگر لفظ نظر آئیں۔
گزشتہ روز اطلاع ملی کہ آئمہ و خطباء کو مساجد کے میناروں سے سپیکر اتارنے اور اذان کی آواز مسجد سے باہر صرف چند فٹ تک محدود رکھنے کا حکم سنایا گیا ورنہ ہزاروں روپے جرمانہ اور قید کی سزاہو گی۔
لائوڈ سپیکر کابے جا اور تکلیف دہ استعمال ناروا ہے اور اسے صرف اذان اور خطبۂ جمعہ و عیدین تک محدود کرنے کی ضرورت عرصہ دراز سے محسوس کی جا رہی ہے مگر اذان کی آواز مسجد سے باہر صرف چندفٹ تک سنائی دے یہ نِری سکھا شاہی ہے۔ گوجرانوالہ کے دوست خالصہ عہد کا ایک لطیفہ سناتے ہیں کہ سنگھ صاحبان نے مسجدوں میں صبح کی اذان اس بنیاد پر بند کروائی کہ اس سے ہمارے آرام میں خلل پڑتا ہے اور ہم اپنی نیند پوری نہیں کر پاتے۔ مقدمہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے روبرو پیش ہوا جس نے سردار صاحبان کی دلیل کو قبول کیا مگر مسلمانوں نے شور مچایا کہ مسجد میں کے بغیر نمازیوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ فجر کا وقت ہو گیا ہے۔ یہ دلیل سردار جی کو پسند آئی اور انہوں نے فیصلہ سنایا کہ چونکہ اذان سے سنگھ صاحبان کی نیند خراب ہوتی ہے اور اذان کے سوا اہل محلہ کو نماز فجر سے آگاہ کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں اس لیے آج سے اذان بند البتہ تمام سنگھ صاحبان فجر کے وقت ہر مسلمان کا دروازہ کھٹکھٹا کر اسے بتائیں گے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے اور وہ وضو کر کے مسجد جاسکتا ہے۔ حکومت نے پنجاب میں اذان کی آواز کو چند فٹ تک محدود کر کے کچھ اس طرح کا اہتمام کیا ہے، شاید ہر پندرہ بیس فٹ پر ایک موذن کا تقرر یا مسجد کی تعمیر مطلوب ہے ۔کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔ 
دہشت گردوں کا خاتمہ فہم و دانش‘ دوراندیشی‘ احتیاط پسندی اور مضبوط عزم و ارادے کا متقاضی ہے کہ یہ جنگ طویل بھی ہے اور صبر آزما بھی۔ محض شور شرابے‘ بدحواسی‘ نمائشی فیصلوں اور نیمے دروں‘ نیمے بروں اقدامات سے اس عفریت پر قابو پانا ممکن نہیں جو قدم قدم پر ہمیں چیلنج کر رہا ہے اور جس کے بیرونی سرپرست و مددگار ایک نہیں کئی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ حکومت کی جوابی حکمت عملی اور فیصلوں سے فوج کی سنجیدگی اور جذبہ سرفروشی کو خارج کر دیا جائے تو باقی امرتسر کی خالصہ پر بندھک کمیٹی کا اعلان بچتا ہے ‘ یاراجہ رنجیت سنگھ کا تاریخی فیصلہ ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں