اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش

محترم مجیب الرحمن شامی کا شکریہ۔ وزیر اعظم کو مدیران اخبارات و جرائد کی تقریب میں کھینچ لائے جہاں صرف میاں نواز شریف اور اُن کی حکومت کے ہم خیال و ہم نوا نہیں‘ آزاد منش و آزاد فکر اخبار نویس بھی مدعو تھے۔ بقول دیا شنکر نسیم ؎
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
میاں صاحب نے صحافیوں کی اس تقریب میں باتیں تو بہت سی کیں جو اخباری صفحات پر شائع ہوئیں مگر ٹیپ کا بند وہ گلے شکوے تھے جو وزیر اعظم نے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے مالکان‘ مدیران ‘کارکنوں‘ اینکرز ‘ کالم نویسوں اور تجزیہ نگاروں سے کئے۔ کچھ درست، زیادہ تر غلط مفروضوں اور سنی سنائی باتوں پر مبنی۔ مثلاً جنرل پرویز مشرف کے شب خون پر سپریم کورٹ اور اہل صحافت سے یہ گلہ کہ دونوں نے فوجی آمریت کی کھل کر مخالفت نہیں کی اور آج تک پرویز مشرف کا ساتھ دینے والوں کا صحافیوں کی کسی تنظیم نے محاسبہ تک نہیں کیا، وغیرہ وغیرہ ۔فوجی آمریت ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی اور اس کی مخالفت ایوب‘ ضیاء‘ پرویز مشرف دور میں جن لوگوں نے کی وہ لائق صد تحسین ہیں مگر سوال یہ ہے کہ مخالفت کا سبب ان فوجی آمروں کی غیر جمہوری‘ عوام دشمن اور آزادیٔ اظہار کے منافی پالیسیاں اور اقربا پروری‘ دوست نوازی اور غلط بخشی پر مبنی طرز عمل تھا یا یہ غیر منتخب حکمران محض اس بناء پر گردن زدنی ٹھہرے کہ انہوں نے ایک ایسی حکومت کا تختہ الٹا جو عوامی حمایت سے محروم اور کارگزاری کے اعتبار سے مفلوج ہو چکی تھی؟
میاں صاحب کو علم ہے کہ پاکستان میں آزاد الیکٹرانک میڈیا ایک فوجی آمر پرویز مشرف کی دین ہے اور پرنٹ میڈیا بھی اظہار رائے کی جس آزادی کی وجہ سے منتخب حکمرانوں کو کھٹکتا ہے وہ بھی ہم سب کے معتوب فوجی آمر کے دور میں ملی اور میڈیا کی اس آزادانہ روش کا سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اٹھایا جس کی قیادت ملک سے باہر محفوظ قلعوں میں بیٹھ کر فوجی حکومت پر بیانات کی گولہ باری کرتی اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اسے مذہبی خشوع و خضوع سے نشر و شائع کرتا۔ دبائو میڈیا پر پڑتا‘ داد جلا وطن قیادت کو ملتی اور معتوب وہ اینکر وکالم نگار ہوتے جن میں سے اکثر اب بھی دلِ یزداں میں کانٹوں کی طرح کھٹکتے ہیں۔جمہوری حکمرانوں میں سے محمد خان جونیجو مرحوم واحد استثنیٰ ہیں ورنہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو حقیقی آزادی سے محظوظ ہونے کا موقع کسی جمہوری حکمران نے خوشدلی سے عطا نہیں کیا اور صحافیوں کی بلا تفریق پذیرائی کی کوئی عمدہ روایت قائم نہیں کی۔ البتہ جنرل پرویز مشرف دور میں موافق،مخالف ہر طرح کے صحافیوں کو جابر حکمران کے سامنے بیٹھ کر کلمہ حق کہنے کی آزادی رہی۔
ہم سب کے بزرگ مجید نظامی مرحوم خود بتایا کرتے تھے کہ ایک نجی محفل میں‘ جنرل پرویز مشرف نے جب یہ کریڈٹ لینے کی کوشش کی کہ انہوں نے مخالف نقطۂ نظر رکھنے والے اخبارات و جرائد اور صحافیوں سے کبھی تعرض نہیں کیا، تو بزرگ مدیر نے ازرہ تفنن ان سے کہا ''شاید اس بنا پر کہ اُردو اخبارات آپ پڑھتے نہیں اورانگریزی اخبارات آپ کی روشن خیال جدیدیت کے حامی و ہم نوا ہیں‘‘ پرویز مشرف نے کہا ''نہیں! نوائے وقت میرے گھر میں آتا ہے‘ میری والدہ باقاعدگی سے یہ اخبار پڑھ کر مجھے ہر خبر‘ مضمون‘ کالم اور اداریے کے نفس مضمون سے آگاہ کرتی ہیں مگر میں نے کبھی اس کی پروا نہیں کی ،جب میں نے آزادی دی ہے تو اس کے نتائج بھگتنے کے لیے بھی مجھے تیار رہنا پڑے گا‘‘
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے علاوہ صحافیوں‘ اینکرز اور تجزیہ نگاروں کے لیے ضابطہ اخلاق سے کس کافر کو انکار ہو سکتا ہے۔مادر پدر آزاد صحافت ریاست اور معاشرہ دونوں کے لیے زہر قاتل ہے۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے مستحکم معاشروں میں بھی میڈیا بعض قوانین اور اخلاقی حدود و قیود کا پابند ہے، مگر میڈیا ایک فوجی آمر کے دور میں جس آزادی کا لطف اٹھا چکا ہے جمہوری دور میں ان سے دستبردار ہونے پر تیار ہو گا نہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی آڑ میں ایسی پابندیاں قبول کرنے پر آمادہ جو اسے صرف دانتوں سے نہیں آنکھوں اور زبان سے بھی محروم کر دیں۔
ان دنوں ہمارے بعض دانشوروں اور صحافیوں کو سعودی عرب ‘ ایران‘ مصر اور ملائشیا کی مساجد بہت یاد آ رہی ہیں جہاں امام مسجد حکومت کا فراہم کردہ خطبہ جمعہ پڑھ کر اپنے مذہبی و قومی فرض سے سبکدوش ہوتے اور سرکار سے وظیفہ پاتے ہیں مگر یہ نابغے اتنے سادہ لوح ہیں یا ملاّ کی مخالفت میں مدہوش کہ انہیں دوست ممالک کے اخبارات و جرائد اور نشریاتی اداروں پر عائد پابندیوں کا علم ہے نہ ادراک۔ ان ممالک میں صرف مسجد و مُلاّ ہی حکومت کے محتاج اور سرکاری پروپیگنڈا مشینری کا حصہ نہیں صحافت بھی وزارت اطلاعات و اعلام کے پریس ریلیز پر چلتی ہے اور اختلاف رائے بغاوت اور غداری سے زیادہ سنگین جرم ہے۔ شاید ہمارے بعض دوستوں کا محکمہ اوقاف‘ نیشنل پریس ٹرسٹ اور پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈی ننس سے جی نہیں بھرا اور وہ موقع غنیمت جان کر بحیلہ ء مذہب و بنام وطن ان ننگِ ملت‘ ننگِ دیں‘ ننگِ وطن روایات کا احیا چاہتے ہیں۔
جو آزاد منش صحافی،دانشور اوراخبارات و جرائد مختلف ادوار میں اپنے عقید ے اور ضمیر کے مطابق فوجی حکمرانوں سے اختلاف کرتے رہے وہ آج بھی صلہ و ستائش سے بے نیاز اپنی روش پر قائم ہیں اور جمہوریت کی پاسداری کے لیے کسی منتخب حکمران کے دربار میں اذن باریابی کے خواستگار ہیں نہ سابقہ خدمات کے عوض کسی منفعت بخش یا اعزازی عہدہ و منصب کے خواہش مند۔ کیونکہ ان کافوجی حکمرانوں سے اختلاف کسی بغض و عناد کے سبب تھا نہ منتخب حکمرانوں پر تنقید ذاتی غرض اور مفاد کی بناء پر ہے ۔ الحب للہ و البغض للہ۔
اگر سیاستدان جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے دستر خوان سے خوب پیٹ بھرنے کے باوجود جمہوری دور میں ہر طرح کے محاسبے اور مواخذے سے بالاتر اور جمہوریت کی مالا جپنے والوں کی آنکھ کا تارہ ہیں،اہم وزارتوں ‘ اداروں اور مناصب پر براجمان تو اے پی این ایس‘ سی پی این ای اور پی بی اے سے گلہ کیوںکہ یہ تنظیمیں موجودہ حکمرانوں سے اختلاف کرنے والوں پرکوڑے کیوں نہیں برساتیں۔
کون ہے جس نے مے نہیں چکھی
کون جھوٹی قسم اٹھاتا ہے
مے کدے سے جو بچ نکلتا ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے
مجھے یاد ہے میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد سب سے پہلے جن صحافیوں اور کالم نویسوں کو شرف باریابی بخشا ان میں دو تین کے سوا باقی سب پرویزی دستر خواں کے خوشہ چیں تھے ۔ شیخ رشید احمد‘ راشد قریشی اور محمد علی درانی کے نیاز مند اور راز دار۔
شامی صاحب نے موقع فراہم کیا تو وزیر اعظم نے اخبار نویسوں کے سامنے دل کی بھڑاس نکالی اور صحافیوں سے ریٹنگ کے علاوہ بزنس چھوڑ کر حکومت سے تعاون کی اپیل کی۔ قومی مفاد ہر چیز سے بالاتر ہے اور اس کا احساس ارباب صحافت کو ہونا چاہیے مگر ان کے سامنے رول ماڈل بھی تو ہو۔ وہ بے چارے مولانا ظفر علی خاں‘ حمید نظامی‘ حسرت موہانی کو نمونہ عمل بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو ریٹنگ بڑھانے اور قومی مفاد کو پامال کرنے کا طعنہ ملتا ہے ۔حکومت انہیں جس ڈھب پر چلانا چاہتی ہے وہ اختیار کریں تو قارئین اور ناظرین انہیں خوشامدی ‘ چاپلوس اور موقع پرست سمجھ کر ٹھکرا دیتے ہیں ۔ یہی حال الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کا ہے آدمی جائے تو جائے کہاں؟
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
(اقبالؒ)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں