خاموش تماشائی

یوحنا آباد سانحہ درندگی ہے‘ پوری قوم کے لیے باعث شرمندگی ‘ عبادت گاہیں مسلمانوں کی بھی محفوظ نہیں مگر مسیحی برادری کی عبادت گاہوں پر حملہ اسلام اور پاکستان دونوں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کی سنگدلانہ حرکت ہے اور یہ باور کرنے کی کوشش کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ اور مذہبی تعصب و نفرت کی آماجگاہ ہے۔
مزارات‘ مساجد اورامام بارگاہوں پر حملوں کی طرح گرجا گھروں میں دہشت گردی کا مقصد ایک ہی ہے، نیو کلیر پاکستان کو لبنان‘ عراق ‘ یمن اور شام کی طرح خانہ جنگی میں مبتلا کرنا‘ کہیں مسلمان اور مسیحی آپس میں دست بہ گریباں ہو ں اور کہیں شیعہ سنی گتھم گتھا ۔ خدا کا شکر ہے دشمن اب تک اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو پایا اور مسلمان‘ ہندو اور مسیحی اپنے مذہب اور عقیدت پر کاربند رہتے ہوئے باہم شیروشکر ہیں، جبکہ شیعہ سنی‘ دیو بندی اور بریلوی بھی سنگین مسلکی اختلافات کے باوجود سازش کا شکار نہیں۔ گزشتہ روز تمام مسالک کے جید علماء کو ماڈل ٹائون لاہور کی جامعۃ المنتظر میں اکٹھے دیکھ کر ہر پاکستانی کے دل کوسکون ملا ۔کاش علماء کرام اس اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ سارا سال کیا کریں ‘محض خاص مواقع پر نہیں۔
غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے بارے میں اسلام کے احکامات واضح ہیں۔قرآن مجید میں فرمایا گیا''ولولا وفع اللہ الناس بعضہم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مساجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا‘‘(اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے زور سے نہ گھٹواتا (ان کی طاقت و قوت کو کم نہ کرتا) تو گرجا گھر‘ کنیسااور مساجد جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے منہدم ہو گئے ہوتے)رسول اکرم ﷺ نے فرمایا'' خبردار اگر کسی شخص نے غیر مذہب رعیّت پر ظلم کیا یا اس کی تنقیص کی یا اس کو طاقت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی مرضی کے خلاف کوئی شے لی تو میں اس کی طرف سے روز قیامت مستغیث(دعویدار) ہوں گا‘‘۔
اہل نجران کے ساتھ معاہدے میں حضور اکرم ﷺ نے یقین دہانی فرمائی '' اس معاہدے کی رو سے نہ تو ان کے گرجے گرائے جائیں گے نہ ان کے مذہب سے کسی قسم کا تعرض کیا جائے گا‘‘ مجاہدین کو غزوہ پر روانہ کرنے سے قبل آپ ﷺ ہدایت فرماتے '' عورتیں اور بچے قتل نہیں کئے جائیں گے‘ لاشوں کی شکل نہیں بگاڑی جائیگی ‘دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں تباہ کی جائیں گی نہ ان کے مذہبی پیشوائوں کو تنگ یا قتل کیا جائیگا‘‘۔
یوحنا آباد میں کچھ نیا نہیں ہوا ‘ اس سے پہلے پشاور‘ شانتی نگر‘ کوٹ رادھا کشن اور جوزف کالونی میں وحشت و بربریت کا مظاہرہ ہو چکا ہے۔ کہیں دہشت گردوں نے ظلم ڈھایا اور کہیں مشتعل ہجوم نے پاگل پن کا مظاہرہ کیا۔ ذاتی دشمنی اور جائیداد کا تنازعہ بھی ایک کمزور اقلیت کی جان و مال ‘ عزت و آبرو اور عبادت گاہوں کے ضیاع اور اتلاف کا سبب بنا۔پولیس اور انتظامیہ‘ ہر جگہ تماشبیں نظر آئی اور اسلامی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے ذمہ دار مذہبی طبقات محض زبانی جمع خرچ تک محدود رہے۔ سانحہ کے بعد مذمت اور پھر نئے سانحہ کا انتظار۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کا یہ مرحلہ سب سے زیادہ پُر خطر ہے۔ دشمن سب کچھ دائو پر لگا کر مزاحمت کر رہا ہے اور ہمہ گیر جنگ کی صورت میں یہ توقع عبث ہے کہ وہ کسی سکول‘ عبادت گاہ‘ ہسپتال ‘ کاروباری مرکز اور سرکاری و غیر سرکاری دفتر کو معاف کرے گا۔ ہماری طرح وہ بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے سرپرستوں کے علاوہ پاکستان کو ہمیشہ عدم استحکام سے دوچار رکھنے والے ہمارے مہربان بھی ہرگز نہیں چاہتے کہ یہ جنگ ٹھنڈی پڑے اور پاکستانی عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ مختلف نسلی‘ لسانی‘ مذہبی ‘ علاقائی طبقات اور گروہوں کی باہمی چپقلش اور دنگا فساد ان سب کے مفاد میں ہے تاکہ ہم اندرونی سطح پر عدم استحکام اور بیرونی محاذ پر بدنامی کے چر کے برداشت کرتے رہیں ۔
مقابلے میں مگر ہماری تیاری کیا ہے؟ آرمی سکول پر حملے کے بعد پوری قوم میں بیداری پیدا ہوئی‘ یکسوئی آئی ‘ نیشنل ایکشن پلان بنا ،سکولوں اور سرکاری عمارتوں کی دیواریں اونچی ہوئیں ،پولیس ناکے بڑھے‘ پھر پولیس کو لائوڈ سپیکر اتارنے پر لگا دیا گیا‘ اردو بازار میں مذہبی کتابیں چھاپنے والوں کی سرکوبی پر ۔فوج اوررینجرز اپنے محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے مگر اسے بدنام کرنے کی زور دار مہم چل پڑی ہے ۔ دہشت گردوں کی سرکوبی میں مصروف دونوں قومی اداروں کے خلاف دشنام طرازی کی روک تھام کے لیے پیمرا فعال ہے نہ خوفزدہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا تیار۔ حکومت کے دو تین وزیروں کے بیانات کو فرض کفایہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔
پولیس و انتظامیہ کی فعالیت اور مستعدی کی قلعی گزشتہ روز یوحنا آباد میں کھلی۔ المناک سانحہ کی روک تھام میں پولیس کی ناکامی کا تو کوئی نہ کوئی کمزور اور ناقابل یقین جواز پیش کیا جا سکتا ہے ، چرچوں کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کی موقع پر عدم موجودگی کی وجہ بھی پولیس حکام نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اور آئی جی کے سامنے بیان کی ہو گی مگر سانحہ کے بعد جو ہلڑ بازی ہوئی‘ ایلیٹ فورس سے دو مشکوک افراد چھین کر جس طرح انہیں ہلاک اور نذر آتش کیا گیا ۔ میٹرو بس سٹیشن ‘نجی گاڑیوں‘ املاک ‘ چینلز کی ڈی ایس این جیز کی توڑ پھوڑ اور پولیس اہلکاروں کو پکڑ کر بند کرنے کے واقعات پیش آئے ‘اس کا کوئی جواز نظر آتا ہے نہ پولیس اور انتظامیہ کے حسن انتظام کی تصویر کشی ہوتی ہے۔
ہجوم نے دو مشکوک افراد کو غصے میں زدو کوب کیا‘ قابل فہم بات ہے‘ مار مار کربھرکس نکال دیا ‘ اس پر بھی دو رائے ہو سکتی ہیں مگر انہیں مارنے اور زندہ جلانے کا عمل؟ کیا یہ محض غم و غصے کا اظہار تھا یا جائے وقوعہ سے اہم ترین شہادت کو ضائع کرنے کی حرکت؟ اور پولیس کی بھاری نفری نے روک تھام میں دلچسپی کیوں نہ لی؟کیا سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد لاہور پولیس خاموش تماشائی بن چکی ہے‘ قوت عمل سے محروم ؟ اور تحریری احکامات کے بغیر کچھ نہ کرنے کے فیصلے پر کاربند؟
اس واقعہ کو تادم تحریر چھتیس گھنٹے گزر چکے ہیں مگر کسی ایک ایسے شخص کو حراست میں نہیں لیا گیا جو دو مشکوک افراد کو ہلاک اور نذر آتش کرنے میں ملوث ہے۔ حالانکہ کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو نذر آتش کرنے والوں کے علاوہ موقع پر موجود ہر اس پولیس اہلکار اور عام شہری کو گرفتار کیا گیا جس نے مظلوم میاں بیوی کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔پورا گائوں اب تک جیل میں ہے ۔اندوہناک سانحہ یوحنا آباد پر مسیحی برادری کا غم و غصہ بجا ۔جب ریاست اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر ہو اور ریاستی ادارے محض تماشائی تو ہجوم کی نفسیات کا غلبہ ہوتا ہے مگر پولیس آخر کس مرض کی دوا ہے جوآنسو گیس‘ واٹر کینن اور اسلحے سے لیس ہوتی ہے اور بڑے سے بڑے ہجوم کو منتشر کرنے کے ہنر سے آشنا۔ یہ پتہ چلانا اس کی ذمہ داری ہے کہ کون بے قصور شہری ہے۔ اور کون دہشت گردوں اور شرپسندوں کا ساتھی۔ہجوم کے ہتھے چڑھنے والے دو شہریوں کو بچانا پولیس کی بنیادی ذمہ داری تھی تاکہ اگر وہ دہشت گردوں کے ساتھی ہیں تو اہم ترین ثبوت ضائع نہ ہوں‘ نیٹ ورک تک رسائی آسان ہو اور اگر بے گناہ ہیں تو بلا جواز تشدد کا نشانہ نہ بنیں کجا کہ بے رحمی سے نذر آتش کر دیے جائیں ۔یہ امکان بھی موجود ہے کہ مسیحی عبادت گاہ کو نشانہ بنانے والوں نے ہجوم کی نفسیات کا فائدہ اٹھا کر پہلے اپنے ساتھیوں یا دو بے گناہوں کو مروایا پھر یوحنا آباد کو ہنگامہ آرائی کے سپرد کر دیا تاکہ مسیحی اور مسلم آبادی دوبارہ کبھی سکھ چین سے نہ رہ سکے۔
دہشت گرد جو چاہتے تھے کر گزرے‘ مگر ریاست اور اس کے اداروں کا ردعمل کیسا رہا؟ تمام بینی ‘افراتفری ‘ ہیجان ‘ بے حسی اور بے بسی پر مبنی۔ جو فورس مشتعل ہجوم سے دو افراد کو چھڑا سکتی ہے نہ شہری املاک اور جان ومال کے لیے خطرہ بننے والے بلوائیوں سے نمٹ سکتی ہے وہ خونخوار دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑے گی ؎ایں خیال است و محال است و جنوں ۔''نوٹس لے لیا ‘‘ فیم وزیراعلیٰ نے بھی چھتیس گھنٹے بعد میڈیا کی چیخ و پکار پر نوٹس لیا اور رینجرز بلالی۔ سبحان اللہ۔ حکومتی رٹ کی کرچیاں لاہور سے گوجرانوالہ تک بکھری پڑی ہیں اور ہر پرامن شہری گھر میں دبکا بیٹھا یہ سوچ رہا ہے کہ کہیں دہشت گردی کا واقعہ ہو جائے تو وہ کیاکرے ؟سڑک پر یا گھر و دفتر میں اپنی حفاظت کیسے کرے ؟حکومت ‘ پولیس اور انتظامیہ کے بس کی تو یہ بات نہیں۔بے چاری بے بس ‘ مجبور ‘ لاچار اور خاموش تماشائی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں