غریبوں کے گھر بے خطا پھونک ڈالے

صولت مرزا کے مچھ جیل میں دیے گئے بیان کی قانونی حیثیت تو شائد کچھ بھی نہیں کہ پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے قبل کوئی سزا یافتہ مجرم کچھ بھی کہہ سکتا ہے اور کسی کو بھی شریک جرم ٹھہرا سکتا ہے مگر سیاسی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اس بیان کی روشنی میں قانوناً اور اخلاقاً ہر اس شخص سے تفتیش ہونی چاہیے جس پر سزائے موت کے ایک قیدی نے انگلی اٹھائی۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا چاہیے۔ جو بے قصور ہے وہ بھلا لوگوں کی نظروں میں بلاوجہ مشکوک کیوں ٹھہرے۔
صولت مرزا اگر یہی بیان دوران تفتیش دیتا‘ پکڑے جانے کے بعد بیوی بچوں کو خدا کی امان میں چھوڑ کر ضمیر کے مطابق شریک جرم عناصر اور ان کے طاقتور سرپرستوں کی نشاندہی کرتا تو شائد وعدہ معاف گواہ کے طور پر خود بھی بچ جاتا اور گزشتہ پندرہ سولہ سال کے دوران ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے بے گناہ بھی آج زندہ سلامت زندگی کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔ مگر اس کا ضمیر جاگا نہ اس وقت کے حکمرانوں بالخصوص جنرل پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے ضرورت محسوس کی۔ سپریم کورٹ سے سزائے موت ملنے کے بعد بھی جیل میں عیش کرنے والے شخص کو بھلا یہ خیال کیوں آتا۔
صولت مرزا نے مچھ جیل میں ریکارڈ کرائے جانے والے اپنے بیان میں جس جس پر الزام لگایا وہ آزادانہ اورمنصفانہ عدالتی تحقیق و تفتیش کے بغیر مجرم نہیں‘ کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر مجرم ٹھہرایا بھی نہیں جا سکتا ‘مگر ان الزامات کو آسانی سے رد کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ کراچی میں گزشتہ تین عشروں سے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ حکیم محمد سعید سے لے کر محمد صلاح الدین اور عظیم احمد طارق سے لے کر شاہد حامد تک‘ کتنے نامور لوگ ہم سے چھن چکے بلدیہ ٹائون گارمنٹس فیکٹری سے لے کر وکلاء چیمبر (12 مئی) تک کتنے بے گناہ زندہ جل چکے ہیں اور ان میں سے کسی کا قاتل آج تک کیفر کردار تک نہیں پہنچا۔ سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے اپنی سیاسی مصلحتوں کی خاطر سزا یافتگان کو بھی امان دیے رکھی۔
صولت مرزا کا معاملہ اب قانون اور خدا کے سپرد‘ اعتراف جرم کے بعد کچھ ڈھکا چھپا نہیں مگر صولت مرزا اس کے اپنے الفاظ میں عبرت کا نشان ہے اور اس کی داستان حیات ہر اس سیاسی کارکن کے لیے سبق آموز جو اپنے چھوٹے بڑے رہنمائوں کو دیوتا سمجھ کر ہر حکم بجا لاتا اور اپنے علاوہ دوسروں کی زندگی اجیرن کر دیتا ہے۔ سیاست کے بارے میں مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر سیاسی کارکنوں کا معاملہ یہ ہے کہ یہ جوش جذبات اور اپنی قیادت کی عقیدت و محبت میں دماغ کو مقفل کر لیتے ہیں۔ آنکھیں اس وقت کھلتی ہیں جب سب کچھ برباد ہو چکا ہوتا ہے۔
ان گناہگار آنکھوں نے مسلم لیگ‘ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ایسے کارکنوں کا انجام دیکھا ہے جو قیادت کے قریب اور جماعت میں بااختیار تھے تو انسان کو انسان نہیں سمجھتے تھے اور اپنی قیادت کے اشارہ ابرو پر سب کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ قانون شکنی‘ سینہ زوری اور لوٹ مار‘ جونہی قیادت کی نظروں سے گرے‘ ٹکے ٹوکری ہو گئے۔ ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے سرفروش الذوالفقار کے ہتھے چڑھے۔ ان میں سے بعض کا ذکر راجہ انورکی داستان حیات میں ملتا ہے کہ انہیں کن صعوبتوں سے گزرنا پڑا اور زندگی سے رشتہ برقرار رکھنے کے لیے وہ کیا کیا کرنے پر مجبور ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو مرتضیٰ بھٹو کی طرح یہ بھی معتوب ٹھہرے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں فوجی آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والے بعض کارکنوں کے ساتھ برسر اقتدار آنے کے بعد مسلم لیگی قیادت نے جو سلوک روا رکھا وہ کسی سے مخفی نہیں جبکہ پرویز مشرف کی ناک کا بال بعض افراد کے پوبارہ ہیں وزارت‘ سفارت اور اسمبلیوں کی رکنیت۔ اہلیان سرور پیلس کی خوشنودی کے لیے اخبارات کے دفتروں‘ پریس کلب اور تھانوں میں دھکے کھانے والے کارکن قیادت کے اردگرد براجمان مشرف باقیات کو دیکھ کر کڑھتے اور یہ سوچ سوچ کر پاگل ہو جاتے ہیں کہ انہیں چڑھتے سورج کو سلام کرنے کی کیوں نہ سوجھی۔
سیاسی کارکن سنگین جرائم کی راہ کیوں اختیار کرتے ہیں؟ قیادت برین واشنگ کرتی ہے یا ان کی ذہنی ساخت پرداخت میں جرائم سے رغبت شامل ہوتی ہے؟ یہ اہم سوال ہے وہ جو شاعر نے کہا ہے ؎
کچھ تو ہوتے بھی ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
قیادت کی طرف سے ترغیب اور ذہنی رغبت کے علاوہ اہم ترین عنصر غربت اور تنگدستی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی بنا پر خبردار کیا کہ کادالفقراں یکون کفراً (افلاس انسان کو کفر کی طرف سے دھکیل سکتا ہے) اور ہاں صولت مرزا جیسوں کو ہیرو بننے کا شوق بھی ہوتا ہے ؎
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی
تنگدست کارکن قیادت کے محتاج ہوتے ہیں وہ چاہے انہیں لوٹ مار پر لگائے یا مخالفین کی سرکوبی پر ؎
میں تیرا چراغ ہوں جلائے جا بجھائے جا
صولت مرزا کا بیان اگر اس کے ضمیر کی خلش کا نتیجہ اور دل کی آواز ہے تو میرے خیال میں وہ خوش نصیب ہے اسے کم ازکم اپنے کیے پر پچھتانے اور اپنے جیسے دوسرے کارکنوں کو راہ راست دکھانے کا موقع مل گیا۔ اللہ توفیق دے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حضورگڑگڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ سکتا ہے‘ مقتولوں کے وارثوں سے عفو و درگزر کی درخواست بھی اس کے بس میں ہے۔ ورنہ ایسے بدنصیب قاتل‘ دہشت گرد اورمجرم بھی دیکھے‘ سُنے ہیں جنہیں تختہ دار پر پہنچ کر بھی توبہ کی توفیق ملی نہ خدا کے حضور سر جھکانے کا موقع۔ جیل حکام پر اپنی بہادری اور دیدہ دلیری کا رعب جمائے دنیا سے گزر گئے۔
صولت مرزا نے اپنے سابق قائدین اور شریک جرم ساتھیوں کے بارے میں جو کہا اس سے قطع نظر سیاسی کارکنوں کے لیے یہ بیان چشم کشا اور سبق آموز ہے۔ سردار شوکت حیات راوی ہیں کہ قائد اعظم نے انہیں پہلے اپنی مالی حالت بہتر بنانے‘ پھر سیاست میں کودنے کا مشورہ دیا تاکہ سیاسی جدوجہد کے دوران وہ غربت و تنگدستی کی وجہ سے کسی کی بلیک میلنگ کا شکار ہوں‘ کسی دولت مند لیڈر کے سامنے ہاتھ پھیلائیں‘ نہ موقع ملنے پر لوٹ مار کی طرف راغب ہوں۔
جماعت اسلامی پر اکثر تنقید ہوتی ہے کہ اس کے لیڈر اور عہدیدار تنخواہ دار ہوتے ہیں اعتراض برائے اعتراض کے عادی افراد کی بات اور ہے ورنہ سب جانتے ہیں کہ اپنی جماعت سے گزارا الائونس لینے والے لوگ اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد پلاٹوں کی الاٹ منٹ‘ ناجائز مراعات اور سہولتوں کے لیے وزیروں کے دفاتر کے دھکے کھاتے ہیں نہ وزارت ملنے پر بہتی گنگا میں اشنان کرنے کے لئے بے تاب ہوتے ہیں‘ جماعت کے رہنما فخر سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ 1950ء کے عشرے سے اب تک کسی رکن اسمبلی نے کبھی پلاٹ الاٹ کرایا نہ قرضہ معاف اور نہ سرکاری وسائل کی لوٹ مار میں حصہ لیا جو دوسری سیاسی جماعتوں کے بیشتر ارکان کا طرہ امتیاز رہا۔
صولت مرزا کے اعترافات سے ایک موذی مرض کی نشاندہی ہوئی ہے لیڈر کا ہر حکم بے چون و چرا بجا لانا اور مخالفین کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا۔ یہ مرض اب دوسری جماعتوں میں بھی سرایت کرتا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان جماعتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو ایم کیو ایم کی دیکھا دیکھی عسکری ونگ قائم کر چکی ہیں لیاری کے بلوچ گینگ کی اصلیت ذوالفقار مرزا بیان کر چکے ہیں اور ماڈل ایان علی اعتراف کر چکی ہیں کہ وہ پانچ لاکھ ڈالر کی خطیر رقم عزیر بلوچ کے وکیل کو ادائیگی کے لیے سمگل کر رہی تھی۔ لہٰذا حکومت‘ پارلیمنٹ اور ریاست کے طاقتور اداروں کو مل کر سیاسی جماعتوں سے ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد کے اخراج اور انہیں قرار واقعی جمہوری جماعتیں بنانے کی تدبیر کرنی چاہیے۔
مجرم صرف دہشت ٹارگٹ کلر اور بھتہ خور نہیں قبضہ گروپ‘ سمگلر اور منشیات فروش بھی اس معاشرے کو جہنم بنانے کے ذمہ دار ہیں اور ان کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں سے ملتے ہیں۔ بدقسمتی سے بیشتر سیاسی جماعتوں کے لیڈروں اور قریبی پیروکاروں کی گزر اوقات ان کے مال حرام پر ہے یہی ان کے ڈیرے کا خرچہ چلاتے اور کروڑوں کے فنڈز مہیا کرتے ہیں۔ ان سے سیاسی جماعتوں کو پاک کئے بغیر معاشرے میں امن آ سکتا ہے نہ ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے ہو سکتی ہیں اور نہ جمہوری استحکام کا امکان ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت جنسِ نایاب اور اخلاقیات اجنبی شے ہو گی تو معاشرہ کہاں‘ ان سے فیضاب ہو سکتا ہے۔ یہ تو کیکر کی خاردار شاخ پر انگور کی بیل چڑھانے کے مترادف ہے؎
ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں