نیچاں دی اشنائی کولوں

یمن جنگ میں شرکت کے سوال پر ہم نے اپنے آزمودہ دوست سعودی عرب کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے جو ایک دیہاتی سے اس کے محلے دار نے کیا تھا۔ مہمان آنے پر دیہاتی نے محلے دار سے ایک رات کے لیے چارپائی مانگی اور کہا کہ کل میں شکریے کے ساتھ واپس کر دوں گا۔ محلے دار نے معذرت کی‘ دیہاتی کوئی بات نہیں کہہ کر واپس مڑنے لگا تو محلے دار نے کہا ''اتفاق سے چارپائی موجود نہیں‘ لیکن اگر ہوتی بھی تو میں تمہیں ہرگز نہ دیتا‘‘۔ دیہاتی گھر واپسی تک سوچتا رہا کہ چارپائی نہیں دینی تھی نہ دیتے مگر یہ جتلانے کی کیا ضرورت تھی کہ ہوتی بھی تو ہرگز نہ ملتی۔
سعودی عرب نے یمن تنازع میں الجھنے کے بعد پاکستان سے مدد طلب کی تو یہ ناقابل فہم اور ناقابل قبول مطالبہ نہ تھا۔ سعودی عرب1965ء کی جنگ سے لے کر اب تک ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کرتا رہا۔ صرف پاکستان کی نہیں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت جب ابتلا کا شکار ہوئی تو سعودی عرب نے اپنا اثرورسوخ بروئے کار لا کر اسے بحران سے نکالا۔1971ء کے سانحہ کے بعد شاہ فیصل کی خدمات کون سا محب وطن پاکستانی فراموش کر سکتا ہے۔
1998ء میں ایٹمی تجربات کے وقت پاکستان پر اقتصادی و معاشی پابندیاں لگیں تو سعودی عرب نے دو ارب ڈالر مالیت کا تیل مفت فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تاکہ ان پابندیوں سے ہماری معیشت متاثر نہ ہو۔1999ء میں کارگل بحران کے موقع پر بھی سعودی ولی عہد نے اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے امریکی صدر کلنٹن کو بیچ میں ڈالا اور کارگل سے محفوظ پسپائی کی راہ ہموار ہوئی۔ شریف برادران کی بحفاظت جلاوطنی کا معاملہ بھی سب کے علم میں ہے۔ عیاں راچہ بیاں۔ 
فارسی میں کہتے ہیں''دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست‘درپریشاں حالی و درماندگی‘‘دوست وہ ہوتا ہے کہ جو مصیبت اور پریشانی میں اپنے دوست کے کام آتا ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ حق دوستی ادا کیا مگر ہم؟1990ء میں عراق نے کویت پر قبضہ کر لیا اور صدام حسین نے کویت کے دوست سعودی عرب کو بھی تاراج کرنے کا اعلان کیا تو ہم نے صدام حسین کی حمایت میں پورے ملک کی سڑکیں اور گلیاں پرجوش عوام سے بھر دیں اور یوں نظر آنے لگا کہ اگر خدانخواستہ صدام حسین نے کویت کی طرح سعودی عرب پر قبضہ کر لیا تو عراقی فوجیوں کو پھولوں کے ہار ہم پہنائیں گے۔
اس بار پھر سعودی عرب نے دست سوال دراز کیا ۔سعود الفیصل‘ ولی عہد شہزادہ مقرن اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے بہ نفس نفیس وزیر اعظم نواز شریف کو فون کر کے خواجہ آصف کے بقول بری‘بحری اور فضائی فوج طلب کی۔ سعودی نیوز ایجنسی نے خبر چلا دی کہ پاکستانی وزیر اعظم نے سعودی سربراہ کو مثبت جواب دیا: ''ہماری فوجی صلاحیتیں اور دفاعی وسائل سعودی عرب کے لیے وقف ہیں‘‘۔ وزیر اعظم چاہتے تو آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ساتھ لے کر ریاض جاتے اورکہتے کہ حضور !یمن کی جنگ آپ خود لڑیے‘ یہ آپ کا دردسر ہے؛ البتہ ہم مقامات مقدسہ کے علاوہ آپ کے سٹریٹیجک مقامات کی حفاظت کے لیے فی الفور فوجی دستے بھیج رہے ہیں تاکہ اندرونی شورش کا کوئی امکان رہے نہ بیرونی جارحیت کا خطرہ‘ ہم احسان شناس قوم ہیں‘ دوست مشکل میں ہوتو ساتھ کھڑے ہوتے ہیں‘ پیٹھ نہیں دکھاتے۔
شیخ سعدی شیرازی کا قول ہے''مشکل میں کسی بزدل سے مشورہ مت کرنا ورنہ وہ تمہاری بچی کھچی ہمت کوبھی ختم کر دے گا‘‘۔ سعودی حکمرانوں نے ہم سے مشورہ نہیں مانگا تھا‘ مدد مانگی تھی اور یہ امداد بھی شائستگی سے مانگی گئی۔ امریکہ کی طرح کوئی دھمکی نہ فی الفور تعمیل کے لیے دبائو‘ مگر سعودی حکمرانوں کے زیر بار احسان پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے کیا کیا؟ 
سعودی درخواست پارلیمنٹ کے چوراہے میں رکھ دی اور محمود خان اچکزئی سے لے کر حاصل بزنجو تک کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ جس قدر چاہتے ہو چاند ماری کر لو۔ سوال سعودی عرب کی فوجی امداد کا تھا مگر جواباً صرف سعودی حکمرانوں نہیں بلکہ سعودی عرب کو بھی چار دن تک بے نقط سنائی گئیں۔ کسی نے سعودی عوام سے اپیل کی کہ وہ اپنے حکمرانوں کے خلاف حوثیوں کی طرح کھڑے ہو جائیں اور کسی نے طعنہ دیا کہ اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے کے باوجود سعودی ہمارے محتاج کیوں ہیں۔ سعودی عرب میں مقیم پندرہ لاکھ محنت کشوں کے مسائل و مصائب بھی یاروں کو اس موقع پر یاد آئے اور ایران سے ہماری محبت بھی عین انہیں دنوں جاگی جب ایرانی قیادت خود اس مخمصے سے نکلنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ 
میاں نواز شریف میڈیا سے دبتے اور کوئی ذمہ داری اپنے سر لینے سے کتراتے ہیں۔ آصف علی زرداری نے پچھلے سال پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس کا مشورہ دے کر سیاسی بحران سے نکالا تھا۔ اب بھی میاں صاحب مشکل صورتحال میں زرداری کی طرف دیکھتے ہیں؛ چنانچہ انہوں نے مشترکہ اجلاس کی تجویز پیش کی تو میاں صاحب نے فوراً مان لی۔ یہ تک نہیں سوچا کہ سعودی حکمران اور عوام پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور انہوں نے جنگ‘زلزلہ‘ سیلاب کے موقع پر پاکستان کی مدد کا فیصلہ کرتے ہوئے کبھی مشاورت میں وقت ضائع کیا نہ کسی مجبوری کا رونا رویا۔
پارلیمنٹ کی قرار داد میں کوئی ایسی بات نہیں کی گئی جس سے ریاست کی رہنمائی اور حکومت کی دستگیری کا تاثر ابھرتا ہو۔ چارپائی دینے سے انکار کا انداز نمایاں تھا۔ سعودی عرب کو پاکستان میں فرقہ واریت کا ذمہ دار اور مذہبی دہشت گردوں کا سرپرست صرف وہ شخص قرار دے سکتا ہے جو خوف خدا سے عاری اور ضمیر کی خلش سے آزاد ہو؛ البتہ جن کا مسئلہ اسلام اور مذہب ہے وہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ سعودی عرب کی وجہ سے اسلام کے نام پر بننے والی یہ نیوکلیئر ریاست بار بار ڈیفالٹ سے بچی جس کا صدمہ ان مہربانوں کے لیے جان لیوا ہے۔ 
پارلیمنٹ کی قرار داد سے اخبارات اور چینلوں میں تو حکومت نے واہ وا کرالی‘ اپوزیشن سے داد بھی وصول کرلی مگر سعودی دوستوں کو کیا جواب دے گی؟۔ اگر میاں صاحب سربراہ حکومت کے طور پر فوج سعودی عرب بھیجنے کا اعلان فرماتے ہیں تو شور اٹھے گا کہ پارلیمنٹ کو بائی پاس کیا جا رہا ہے۔ سعودیوں کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ جس ملک میں پارلیمنٹ ہو وہاں فیصلے حکومت نہیں اپوزیشن کرتی ہے یا میڈیا کے لال بجھکڑ۔ حکومت سعودی عرب کے دفاع اور یمن تنازع کو الگ الگ ڈیل کرتی تو آسان تھا‘ زمینی حقائق کے مطابق اور سعودیوں کے لیے قابل قبول‘ مگر اب صورتحال مختلف ہے۔
اگر سعودی عرب نے خدانخواستہ ‘ ہمارے نقطہ نظر کو پذیرائی نہ بخشی تو؟ 1990ء میں اس نے یمن کی طرف سے صدام حسین کی حمایت پر ناراض ہو کر یمنی باشندوں کونکل جانے کا حکم دیا تھا‘ اب اگر پاکستان کے انکار یا گومگو پالیسی کو غیر دوستانہ فعل قرار دے کر پندرہ لاکھ تارکین وطن کو نکل جانے کا حکم دے دیا تو ہماری آزاد‘ خود مختار اور قومی مفادات کے حوالے سے حساس پارلیمنٹ اور ہر معاملے میں پارلیمنٹ اور میڈیا کے فیصلوں کوحرف آخر سمجھنے والی حکومت نے کیا ایگزٹ پالیسی تیار کی ہے؟ کیا اپنے قومی مفا دکے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار صرف ہمیں حاصل ہے۔
یہ دعویٰ عبث ہے کہ مقاماتِ مقدسہ پر ہماری جان قربان‘ سعودی عرب کو خطرہ ہوا تو ہم فوراً مدد کو پہنچیں گے۔ فوجی امداد بچوں کا کھیل نہیں کہ ادھر فیصلہ ہوا ‘ ادھر پہنچ گئی‘ تیاری چاہیے‘ انتظامات کرنے پڑتے ہیں اور فوج بھیجنے میں وقت لگتا ہے۔ اگر واقعی ہمیں سعودی عرب کا دفاع عزیز ہے تو وزیر اعظم ٹی وی پر آ کر اعلان کیوں نہیں کرتے کہ یمن تنازع کا ہم حصہ نہیں مگر مقامات مقدسہ اور دمام‘نجران‘ تبوک‘ راس المشید میں تعیناتی کے لیے ہم فوج بھیج رہے ہیں اور دیگر وسائل بھی۔ اگر خدانخواستہ سعودی سالمیت اور استحکام کو اندرونی و بیرونی خطرہ ہو تو پاک فوج اس کا سدباب کرنے کے لیے تیار ہے۔ صرف اسی طرح سعودی عرب سے حق دوستی نبھا سکتے ہیں۔ ایران کو بھی مطمئن کیا جا سکتا ہے کہ ہم اپنے حلیف کے ساتھ ہیں مگر کسی علاقائی جنگی کھیل کا حصہ نہیں ۔ آپ ہمارے دوست ہیں اور حوثی بھی ہمارے دشمن نہیں‘ آپ کو مطمئن رہنا چاہیے۔ جس طرح چین ‘سعودی عرب اور ایران بھارت سے تعلقات بڑھاتے ہوئے یاد دہانی کراتے ہیں کہ ان روابط سے پاکستانی مفادات کو نقصان نہیں پہنچے گا‘ اسی طرح کی یقین دہانی ہم ایران کو بھی کرا سکتے ہیں۔
پاکستان کو ایک نیوکلیئر اسلامی ریاست کے طور پر ہرگز یہ تاثر نہیں دینا چاہیے کہ وہ دوستی کے تقاضوں اور سفارتی نزاکتوں سے بے بہرہ اور پرلے درجے کا طوطا چشم ملک ہے جو ضرورت کے وقت ہر دوست سے تعاون مانگتا ہے مگر جوابی خیر سگالی کا مظاہرہ کبھی نہیں کرتا۔ خدا نہ کرے کہ کسی مرحلہ پر ہمیں کوئی سعودی سفارت کار یا حکمران میاں محمد بخش ؒ کا شعر گنگناتا نظر آئے ؎
نیچاں دی اشنائی کولوں‘ فیض کسے نہ پایا
کِکر تے انگور چڑھایا ہر گُچھا زخمایا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں