ہائے اس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا

اب وضاحتوں کی نہیں ڈیمیج کنٹرول کی ضرورت ہے۔ چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی (عقل مند وہ کام ہی کیوں کرے جو باعث شرمندگی ہو)۔ کہتے ہیں کہ زبان سے نکلا لفظ اور کمان سے نکلا تیر کبھی واپس نہیں آتا۔ غلط فہمیوں اور نقصان کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کا پالیسی بیان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
صحرائی باشندے سیاہ اور سفید پر یقین رکھتے ہیں۔ غیر جانبداری کا لفظ ہمارے ہاں کثرت سے بولا جاتا ہے‘ عربوں میں اس کا مفہوم کچھ اور ہے۔ منافقت سے قریب تر۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ ڈاکٹر انور محمد قرقاش پر غصہ بجا‘ اماراتی وزیر کو سفارتی آداب کا لحاظ کرنا چاہیے تھا؛ جس طرح سعودی وزیر نے شائستگی سے اپنا مدعا بیان کیا؛ مگر سوال یہ ہے کہ عربوں کو سر پر کس نے چڑھایا۔ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے سامنے دنیائے اسلام کی واحد نیوکلیئر پاور کے رہنما کشکول لے کرکھڑے ہوں تو ہر موقع پر مدد کرنے والے کس طرح مخاطب ہوں۔ منہ کھائے‘ آنکھ شرمائے کا محاورہ ہمیں یاد رہنا چاہیے۔
بے احتیاطی اور سہل پسندی کے مرتکب ہمارے حکمران ہوئے۔ سعودی عرب سے کیے گئے وعدے وعید قوم کے سامنے رکھے‘ نہ مختلف سیاسی و مذہبی قوتوں کے جذبات اور جمہوری نظام کے تقاضوں سے اپنے دوستوںکو آگاہ کر سکے‘ جس کا خمیازہ بدگمانی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اگر قرارداد کی تیاری میں غالب کردار دفتر خارجہ کا ہوتا۔ تحریک انصاف سے معاملہ اسحاق ڈار کے بجائے سرتاج عزیز یا طارق فاطمی کرتے تو گمان غالب یہ ہے کہ غیر جانبداری کا لفظ قرارداد کا حصہ نہ ہوتا‘ جس نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ سوال یہ نہیں کہ ہمیں بہرصورت جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور قومی جذبات کو یکسر فراموش کر دینا چاہیے بلکہ الفاظ کے درست استعمال اور موزوں ابلاغ کا ہے جس سے ہمارے فیصلہ ساز تہی دست اور تہی دامن نکلے۔
پاکستان حالت جنگ میں ہے اور اس دوران ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے مگر ہماری حکمران اشرافیہ کی ترجیحات میں پہلے سیاست پھر ذاتی و خاندانی مفاد اور آخر میں ریاست آتی ہے۔ ترجیح اول سیاست کے بجائے ریاست ہو تو تین اہم ترین وزارتوں کو کل وقتی وزراء سے محروم رکھنے کا جواز نہیں۔ وزیر خارجہ میاں صاحب خود ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف؛ ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے۔ جنہیں پارلیمنٹ میں سعودی عرب کی امداد کے حوالے سے پالیسی بیان جاری کرنے کے بعد اچانک یاد آیا کہ سعودی عرب کے مخالفین سے زیادہ حکومت کے مخالفین کی سرکوبی ضروری ہے۔ حوثیوں سے سعودی عرب خود نمٹے‘ میں تحریک انصاف سے نمٹ لیتا ہوں۔ وزیر قانون کا قلمدان عارضی طور پر وزیر اطلاعات کے پاس ہے اور مشیر قانون کی مرضی چلتی ہے۔
یہی حال حلقۂ مشاورت کا ہے۔ اگر وزیر اعظم کا حلقۂ مشاورت ذہین‘ تجربہ کار‘ جرأت مند اور قومی و بین الاقوامی معاملات پر کامل دسترس رکھنے والے بے غرض افراد پر مشتمل ہو اور مشیر اپنی ذاتی اغراض کے بجائے قومی مفاد کے مطابق مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے ہوں تو انہیں کسی اہم بحران میں رہنمائی کے لیے آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کی طرف دیکھنا پڑے‘ نہ بار بار یُو ٹرن لینے کی ضرورت پیش آئے۔ ضرورت مند‘ موقع پرست‘ چاپلوس اور ہاں میں ہاں ملانے کے عادی‘ درباری ہو سکتے ہیں‘ مشیر نہیں؛ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں حکمران فوجی ہوں یا منتخب سویلین دربارداری کے قائل ہیں اور خوشامد پسند۔
ضرورت مند اور خوشامدی کسی کو درست مشورہ دے سکتا ہے نہ کسی غلطی کی نشاندہی کا روادار۔ شیخ سعدیؒ شیرازی کا قول ہے ''بادشاہ کو نصیحت صرف وہی شخص کر سکتا ہے جسے سر کا خوف ہو‘ نہ زر کی تمناّ‘‘ ہمارے ہاں اقتدار کے ایوانوں میں ایسے لوگوں کا گزر کہاں۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد اسلم گھمن کی کتاب ''ہاں یہ سچ ہے‘‘ کچھ عرصہ قبل شائع ہوئی‘ جس میں سول اور فوجی حکمرانوں کے مشیروں اور حاشیہ نشینوں کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔ حکمرانوں کو اچھی حکمرانی کے گُر سکھانے کے بجائے ان چاپلوس حاشیہ نشینوں نے انہیں ارد گرد سے لاتعلق اور اپنی ذات و مفاد کے خول میں بند کر دیا جس کا نقصان بالآخر ملک کے علاوہ ان حکمرانوں کو بھی ہوا۔
بریگیڈیئر گھمن‘ جنرل (ر) پرویز مشرف کے حوالے سے لکھتے ہیں ''جنرل جی اے (غلام احمد) کی حادثاتی موت کے بعد جنرل پرویز مشرف کو ان لوگوں نے گھیر لیا جو فوج کے ریفرنس سے یا کلاس فیلو ہونے کے ناتے سے اپنی وفاداری کا یقین دلانے میں کامیاب رہے لیکن پرویز مشرف اس طرح اپنے ادارے یعنی فوج سے دور ہو گئے۔ وفاداری کا یقین دلانے والوں میں سے ایک‘ سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا آلۂ کار تھا اور اس نے نیب کے علاوہ اس کے نیک نام سربراہ جنرل امجد کے خلاف اپنے باس کے کان بھرے۔ یوں احتساب کے لیے قائم ادارہ ناکامی کی طرف چل پڑا۔ نوبت باایں جا رسید کہ کرپشن میں پکڑا جانے والا کراچی کا کسٹم آفیسر جنرل امجد کی تبدیلی کا باعث بن گیا‘‘۔
میاں نواز شریف نے جو پالیسی بیان اب جاری کیا۔ یہ قرارداد کی منظوری کے بعد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پڑھا جا سکتا تھا۔ اجلاس کے خاتمے پر وزیر اعظم یا ان کے مشیر خارجہ میڈیا بریفنگ میں قرارداد کی وضاحت کر سکتے تھے اور پاکستان کے اصولی موقف کا اعادہ مگر ناقص مشاورت کے سبب حکومت کو پالیسی بیان جاری کرنے کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب اماراتی وزیر ڈاکٹر انور محمد قرقاش نے لگی لپٹی رکھے بغیر مبہم پالیسی کے نقصانات سے آگاہ کیا اور سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور الشیخ صالح بن عبدالعزیز حکومت کے لیے پیغام لائے کہ حضور! بتائیے تو سہی کہ آپ ہیں کس کے ساتھ؟ یا قرآن مجید کے الفاظ میں مذبذبین بین ذالک۔ لا الیٰ ھولآء ولا الٰی ھولآء(دونوں کے درمیان معلق‘ نہ ادھر نہ ادھر۔ النسآء 143:4)
خفت مٹانے کے لیے کبھی کہا جاتا ہے کہ غیرجانبدار کا لفظ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے ڈلوایا، ورنہ قرارداد کی حمایت سے انکاری تھے، اور کبھی کہتے ہیں کہ قرارداد کی حیثیت سفارش کی ہے، حکومت اس کی پابند نہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ سعودی حکومت نے امداد حکومت سے طلب کی تھی‘ تحریک انصاف یا شاہ محمود قریشی سے نہیں اور قرارداد کی حیثیت سفارش کی ہے یہ قومی فیصلہ نہیں جس کی حکومت پابند ہو‘ یہ حکومت کا درد سر ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ قرارداد سے ہمارے دوستوں اور عالمی برادری نے کیا مفہوم اخذ کیا۔ غیر جانبداری اور تماش بینی کا یا آزمودہ اور قابل اعتماد دوست کا۔
اس بحران سے تو حکومت جیسے تیسے نکل ہی آئے گی۔ دونوں دوست ممالک کے تعلقات میں پڑنے والی گرہ اب دانتوں سے کھولنی پڑے گی۔ مکمل اعتماد کی فضا بحال ہونے میں شاید برسوں لگیں؛ تاہم آئندہ پہاڑ جیسی غلطیوں سے بچنے کی کوئی تدبیر بھی ہونی چاہیے۔ کابینہ میں تبدیلی، مناسب اور موزوں حلقۂ مشاورت اور بہتر طرز حکمرانی۔ ایک نیوکلیئر ریاست کو الل ٹپ انداز میں چلایا جا سکتا ہے نہ دفاع اور خارجہ کے معاملات ناتجربہ کار اور، گھڑی میں تولہ، گھڑی میں ماشہ مزاج کے وزیروں اور مشیروں پر چھوڑے جا سکتے ہیں۔ وزارت خارجہ کی تشکیل نو بھی ضروری ہے تاکہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے‘ پاکستان کے اصولی اور تاریخی موقف پر کوئی آنچ آنے دے‘ نہ حکمرانوں کی سیاسی مصلحتیں قومی مفاد پر غالب آئیں۔
اگر ہمارا دفتر خارجہ مستعد اور بیدار ہوتا، حکمران بسم اللہ کے گنبد میں بند نہ ہوتے اور مشرق وسطیٰ میں امڈتے ہوئے طوفان کا قبل از وقت ادراک کر لیا جاتا تو ہمیں دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑتی‘ نہ وضاحتوں کا سہارا لینا پڑتا مگر ہمارے دانا و بینا حکمرانوں کو کون سمجھائے۔ جنہیں رسائی ہے یا جو سمجھا سکتے ہیں ان میں سے کچھ کو سر کا خوف لاحق رہتا ہے اور باقی زر کی تمنا میں مبتلا۔ نصیحت کون کرے۔ زود پشیمانی البتہ قابل داد ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں