ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے

ساقی نامہ میں اقبالؒ نے جب کہا ؎
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
تو یار لوگوں نے اسے شاعرانہ تخیل قرار دیا۔ اس وقت چیئرمین مائوزے تنگ کا تاریخی مارچ کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا‘ نہ پورا چین آزاد و متحد تھا۔ مگر شاعر مشرق نے چینی عوام کے جذبے اور قیادت کی راست فکری واستقامت کو دیکھ کر ہمالہ کے چشمے اُبلنے کی پیش گوئی کر ڈالی۔ آج تاریخ کے سامنے چینی قیادت سن یات سین‘ مائوزے تنگ ‘ چواین لائی‘ ڈینگ سیائوپنگ کی طرح اقبالؒ بھی سرخرو ہیں۔
پاکستان اور چین کی دوستی بلا شبہ ہمالیہ سے بلند‘ سمندر سے گہری شہد سے میٹھی اور فولاد سے مضبوط ہے۔ 1949ء سے اب تک آزمائش کی ہر کسوٹی پر دونوں ممالک پورے اترے ۔زمانہ جنگ اور امن میں ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا اور کبھی کسی ایک نے پیٹھ نہیں دکھائی مگر ترقی کی دوڑ میں ہم چین کا ساتھ نہ دے سکے۔ شائد مزاج کا فرق ہے یا پے درپے قیادت وہ ملی جس نے تاریخ سے خود کچھ سیکھا نہ عوام کو سیکھنے پر آمادہ کیا۔ تاریخ اور جغرافیہ دونوں کو سبق سکھانے پر مُصر رہی۔
1965ء ‘1971ء میں چین کی قیادت نے ہمیں کیا مشورہ دیا اور ہم نے ان مشوروں کو کس حد تک درخور اعتنا سمجھا اب یہ سب کچھ سرکاری دستاویزات ‘ تاریخی کتب اور اہم شخصیات کی شائع شدہ یادداشتوں کے ذریعے منظر عام پر آ گیاہے۔1971ء میں چینی رہنما یحییٰ خان کو سمجھاتے رہے کہ بھارتی جارحیت کا انتظار کرنے کے بجائے کلکتہ میں موجود عوامی لیگی قیادت سے سلسلہ جُنبانی کرو‘ گرفتار شیخ مجیب کا پتہ استعمال کرو ‘ہم اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتے ہیں مگر کسی نے ایک نہ سنی‘ اعلیٰ سطحی وفد بیجنگ سے واپس آیا تو عوام کو دما دم مست قلندر کی نوید سنائی گئی حالانکہ ہوش مند اور امن پسند چینیوں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی تھی۔
چین کی تہذیب‘ثقافت اور تاریخ طلسم ہوشربا ہے‘ ہزاروں برس کے تجربات اور ہر تجربے میں دانش و بصیرت کی آمیزش۔ مثلاً دنیا کے کسی ملک میں دیہی آبادی کی شہروں کی طرف منتقلی کا راستہ روکنے کے لیے شہر و دیہات کے الگ الگ قومی شناختی کارڈ رائج نہیں۔ اگر آپ دیہات کے باسی ہیں تو آپ کو دیگر سہولتوں کے علاوہ دو بچے پیدا کرنے کی اجازت ہے جبکہ شہری شناختی کارڈ ہولڈر کو یہ سہولت حاصل نہیں۔ تعلیم‘ علاج معالجے‘ روزگار اور رہائش کے حوالے سے بھی شہری اور دیہی باشندوں کو ایسی سہولتیں اور مراعات حاصل ہیں کہ کسی دیہاتی کا اپنا کمیون چھوڑ کر شہر جانے کو جی کرتا ہے نہ شہری کا دیہات کی طرف مراجعت کو ۔دونوں ایک دوسرے پر رشک کرتے ہیں‘ دل میں شناختی کارڈ بدلنے کے منصوبے بھی بناتے ہیں مگر پھر حاصل مراعات اور مفادات کو کافی جان کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ کہیں موجودہ سواد سے بھی محروم نہ ہو جائیں۔
چینیوں کے بارے میں یہ مثل تو چاردانگ عالم میں مشہور ہے کہ یہ ہر اڑنے‘ رینگنے اور پانی میں تیرنے والی چیز کو شوق سے کھاتے ہیں ‘صرف ہوائی جہاز‘ ٹرین اور آبدوز کھانا پسند نہیں کرتے تاکہ دانتوں اور آنتوں کو نقصان نہ پہنچے۔ لیکن اس بات کا علم چین جا کر ہوتا ہے کہ من پسند اشیاء کو زندہ سلامت کھانے سے بھی چینی بھائی پرہیز نہیں کرتے ۔زندہ بندر کا مغز جس انداز میں نکالا ‘اُبالااور کھایا جاتا ہے وہ دل گردے کا کام ہے۔ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک موقع پر بتایا کہ 1962ء میں سرکاری دورے پر گئے تو وزیر اعظم چواین لائی کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے ان کے سامنے زندہ جھینگے لا کر رکھ دیئے گئے اور میزبان ان پر نمک مرچ ڈال کر لذت کام و دہن میں مصروف ہو گئے۔ کوئی ان کے تڑپنے پھڑکنے سے متاثر نہیں ہوا۔شائد روزانہ کی سیر‘ ورزش اور پیدل چلنے کی عادت نے چینیوں کے معدے مضبوط اورذائقے منفرد کر دیئے ہیں۔
چینی صرف کھانے پینے میں منفرد نہیں ان کا عزم و استقلال بھی بے مثل ہے۔ امریکہ و یورپ سے تو چین روز اول سے کٹا تھا۔ 1954ء میں چین اور سوویت یونین کے مابین تنازع بڑھا تو امریکہ اور یورپ نے ہر ممکن کوشش کی کہ دونوں کمیونسٹ ممالک میں صلح نہ ہونے پائے ۔ایک دن سوویت یونین نے چین میں کام کرنے والے تمام فنی و تکنیکی ماہرین‘ انجینئروں ‘ ڈاکٹروں ‘سائنس دانوں کو واپس بلا لیا اوروہ اپنے ہر منصوبے اور پروگرام کے بلیو پرنٹ بغل میں دبا کر چل پڑے۔ چیئرمین مائوزے تنگ نے گھبرانے کے بجائے اعلان کیا کہ ہم اگلے دس سال میں ایٹمی پروگرام مکمل کریں گے اور 1964ء میں ایٹمی تجربہ ہو گا۔ٹھیک دس سال بعد چین پابندیوں اور نامساعد حالات کے باوجود ایٹمی قوت بن گیا ؎
ہم خود تراشتے ہیں منازل کے سنگ میل
ہم وہ نہیں ہیں جن کو زمانہ بنا گیا
1959ء میں انقلاب اکتوبر کی دسویں سالگرہ تھی۔ دسمبر1958ء میں چیئرمین مائو نے کہا کہ ہم دسویں قومی سالگرہ کی نسبت سے دس عظیم عمارتیں تعمیر کریں گے اور سالگرہ کی تقریبات ان نو تعمیر عمارتوں میں ہوں گی۔ تیانمن سکوائر پر واقع گریٹ پیپلز ہال انہی دس عمارتوں میں سے ایک ہے ۔عمارت کا حجم‘ مضبوطی اور حسن دیکھ کر انقلابی قیادت کی اولوالعزمی اور رفعت خیال پر رشک آتا ہے‘ عوامی ہال کی تعمیر قومی جذبے سے ہوئی ۔چھٹی کے د ن بیجنگ کا ہر شہری جائے تعمیر پر آتا‘ اینٹ ‘پتھر‘ سیمنٹ اٹھانے میں مزدوروں کا ہاتھ بٹاتا اور ان کے حوصلے بڑھاتا۔ آنے والوں میں وزیر اعظم چواین لائی بھی شامل تھے ۔ بیجنگ کے اکثر شہری دعویٰ کرتے ہیں کہ گریٹ ہال کی تعمیر میرے ہاتھوں سے ہوئی اور یہ کچھ غلط نہیں۔
ماضی میں چینی عوام کو اپنی چار ایجادات قطب نما‘ چھاپے خانے‘ بارود اور کاغذ پر فخر تھا‘ اب وہ اپنی تیز رفتار ترقی اور امریکہ و یورپ کے مساوی خوشحالی اور آسودگی کا ذکر احساس تفاخر سے کرتے ہیں ۔ پاکستان چین سے دو سال قبل آزاد ہوا‘ عرصہ دراز تک چین کا انحصار پاکستان پر تھا کہ یہی ایک کھلی کھڑکی تھی۔ مگر ہم ترقی معکوس میں مگن رہے ۔کاش ہم نے چینیوں کے محنت‘ نظم و ضبط‘ خود اعتمادی‘ قومی حمیت‘ مستقبل بینی‘ دور اندیشی‘ استقامت اور مستقل مزاجی کے اوصاف سے بھی استفادہ کیا ہوتا۔ 
کوتاہ اندیش ہم اتنے ہیں کہ برس ہا برس سے پاکستان میں چینی زبان کی تدریس کا مطالبہ ہو رہا ہے تاکہ برادر ملک میں حصول تعلیم‘ روزگار اور کاروبار کے جو وسیع مواقع پیدا ہوتے ہیں ان سے پاکستانی افرادی قوت بالخصوص طالب علم فائدہ اٹھا سکیں مگر آج تک کسی حکومت نے پذیرائی نہیں کی۔ اب کہیں جا کر سندھ حکومت نے توجہ دی ہے ‘پنجاب‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں کو پروا نہیں۔ اوباما بھارت آئے تو ہمیں پتہ چلا کہ دیرینہ طوطا چشم یار نے ہم سے پھر آنکھیں پھیر لی ہیں اور اوباما چند گھنٹے کے لیے اسلام آباد آنے پر آمادہ نہیں۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے فوراً رخت سفر باندھا اور بیجنگ جا کر چینی قیادت کو قائل کیا کہ ضرب عضب آپریشن کی بنا پر پاکستان ایک محفوظ ملک ہے اور امریکیوں کی طرح چینی بزدل بھی نہیں۔ صدر شی چن پنگ بے خوف و خطر اسلام آباد آئیں ‘کھلے دل اور بازوئوں سے استقبال ہو گا ۔کیچ(تربت) میں سراب ندی پر کام کرنے والے سرائیکی وسیب اور سندھ کے غریب مزدوروں کو گولیوں سے اس بنا پر چھلنی کیا گیا کہ امن و امان کی خراب صورتحال کے بہانے ایک بار پھر چینی صدر کا دورہ ملتوی ہو جائے۔ مگر یہ سازش ناکام رہی ۔شی چن پنگ کا دورہ پاکستان کے مستقبل‘ اقتصادی و معاشی استحکام اور امن و امان کی صورتحال پر اعتماد کا اظہار ہے۔ 
چینی قرض اور سرمایہ کاری سے قومی معیشت کے علاوہ نواز حکومت کو بھی طاقت اور توانائی کا ٹیکہ لگا‘ مگر یہ شمالی وزیرستان سے لے کر کراچی اور بلوچستان تک ہر طرح کی دہشت گردی‘بھتہ خوری‘ اغوا کار ی ‘ ٹارگٹ کلنگ اور بدامنی کے خاتمے سے مشروط ہے اور یہ محض فوج کی ذمہ داری نہیں۔ میاں نواز شریف سعودی عرب جا رہے ہیں۔ دو برادر ممالک میں بدمزگی کا موذی خاتمہ ضروری ہے اور ملک کے اندر بھی افراتفری ‘دھینگا مشتی‘ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے موجودہ کلچر کی حوصلہ شکنی از بس لازم ۔
سنگا پور‘ چین اور دیگر کئی ممالک نے جمہوریت سے متصادم نظام کے ذریعے ترقی کر لی‘ ہمارے حکمران اب تک یہی لکیرپیٹے جا رہے ہیں کہ آمریت نے ہماری منزل کھوٹی کی حالانکہ اہمیت نظام سے کہیں زیادہ قیادت کی بصیرت ‘حسن تدبیر ‘ حب الوطنی ‘ نیک نیتی‘ ثابت قدمی‘ راست فکری‘ عوام دوستی اوربے نفسی کی ہے۔ جبکہ عوام کو ریاضت‘ فرض شناسی‘ برداشت اور ایثار و قربانی کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنا ہوں گے ۔ کیا ہمارے قائدین اور عوام اپنے موجودہ انداز فکر ‘ طرزعمل اور طریقہ کار کے مطابق چین کے کاندھے سے کاندھا ‘ اور قدم سے قدم ملا کر چلنے کے قابل ہیں؟
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے‘ ساز بدلے گئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں