کاروبار یا بیگار

اسلام آباد میں تاجروں کی زبردست ہڑتال اور پنجاب میں شٹر ڈائون کی دھمکی سے مجھے امریکی شہر سینٹ پیٹرز برگ کی وہ شام یاد آئی جب میں اپنے چھ سات ہم سفروں کے ساتھ سستے ریستوران کی تلاش میں دو تین گھنٹے سڑکوں پر خوار ہوتا رہا مگر فور اور فائیو سٹار ہوٹلوں کے سوا کہیں کوئی ریستوران کھلا نہ ملا ۔
ہوا یوں کہ ایئر پورٹ سے ہوٹل پہنچتے پہنچتے ہمیں چھ بج گئے اپنے اپنے کمروں میں سامان رکھ کر عادت کے مطابق مختلف ممالک کے ہم چھ سات صحافی اس خوبصورت ‘ کشادہ اور قدرتی مناظر سے مالا مال شہر کی سیر کے علاوہ پیٹ پوجا کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ فائیو سٹار ہوٹل میں پچیس تیس ڈالر فی کس خوراک پر خرچ کرنے کے بجائے ہم ہر شہر میں نسبتاً سستے ریستوران ڈھونڈ لیا کرتے مگر اس روز ہم سے چوک ہو گئی۔ پتہ چلا کہ یہاں عام دکانوں اور شاپنگ مالز کے علاوہ ریستوران بھی پانچ چھ بجے بند ہو جاتے ہیں صرف چار اور پانچ ستارہ ہوٹل اور نائٹ کلب ہی رات بارہ بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ واشنگٹن‘ نیو یارک‘ سیکرامنٹو‘ الپاسو اور شکاگو میں ہمیں یہ تجربہ نہ ہوا تھا۔ وہاں عموماً آٹھ بجے تک ریستوران کھلے ملتے۔ مجبوراً ہم سب کو واپس آ کر اپنے رہائشی ہوٹل میں مہنگا کھانا زہر مار کرنا پڑا۔
پاکستان میں مگر حکومت‘ تاجروں اور عوام کا باوا آدم نرالا ہے ۔
عجب احمقانہ منطق اور جاہلانہ استد لال ہے کہ آٹھ بجے شام تجارتی مراکز کی بندش سے قومی معیشت تباہ‘ کاروباری سرگرمیوں کا بیڑا غرق ہو جائے گا اور غریب محنت کشوں کا چولہا ٹھنڈا‘ گویا پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے جہاں یہ تجربہ کیا جا رہا ہے اور لازماً ناکامی سے دوچار ہو گا' امریکہ ‘ برطانیہ ‘ یورپ اور سکنڈے نیویا کے تمام ممالک کے علاوہ چین‘ جاپان اورجنوبی کوریا میں عشروں سے کاروباری مراکز پانچ چھ بجے بند ہو جاتے ہیں مگر ان کی معیشت مضبوط و مستحکم ہے اور کاروبار بھی ترقی پذیر۔ حالانکہ وہاں دن رات کا دورانیہ پچاس ساٹھ گھنٹے کا نہیں ہوتا کہ غروب آفتاب کے وقت کاروبارکی بندش سے کوئی فرق نہ پڑے۔ پاکستان میں ہوشربا لوڈشیڈنگ‘ کاروبار رات گیارہ بارہ بجے تک جاری رکھنے کا شاخسانہ نہیں یہ ماضی اور حال کی ہر حکومت کی نالائقی ‘ ڈیموں کی تعمیر میں غفلت‘ ہائیڈل کے بجائے تھرمل پر مجرمانہ انحصار‘ بجلی پیدا اور تقسیم کرنے والے اداروں کی نااہلی ‘ کرپشن‘ اور مجرمانہ لاپروائی کا منطقی نتیجہ ہے اور اب بھی توانائی کا بحران تجارتی ادارے جلد بند کرنے سے حل نہ ہو گا لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیںکہ موجودہ شدید بحران پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت کوئی درست اقدام کرتی ہے تو چند لوگوں کی سیاسی اغراض‘ ہوس زر اور نامعقولیت سدراہ بنے اور ان اقدامات کی بلا جواز مخالفت پر کمر کس لی جائے۔
پاکستان ان چند ممالک میں سرفہرست ہے جہاں ہفتہ وار ایک تعطیل ہوتی ہے اور کاروباری ادارے رات گیارہ بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ قانون کا خوف اور کارکنوں کا دبائو نہ ہو تو بعض ادارے یہ تکلف بھی گوارا نہ کریں کیونکہ کارکنوں سے ہفتے کے سات دن اور چوبیس گھنٹے کام لے کر بھی ان کی زر اندوزی کی آگ ٹھنڈی نہیں پڑ سکتی۔ کئی صنعتی و تجارتی ادارے ڈیلی ویجرز کو ہفتہ وارچھٹی نہیں دیتے اور کام بھی دس دس بارہ گھنٹے لیتے ہیں‘ کاروبار نہیں بیگار۔ اس کے باوجود قومی معیشت کی حالت زبوں اور ہمارا شمار ان ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں غربت و افلاس اور بے روزگاری میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔
ہفتہ وار تعطیل اور آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ کرنے کی منطق کیا ہے؟ انسانی جسم اور ذہن دونوں کو مقررہ وقت پر آرام کی ضرورت ہوتی ہے موقع نہ ملے تو ذہنی و جسمانی توانائیاں اور فکری و تخلیقی صلاحیتیں جمود کا شکار ہوتی اور معاشرے سے جڑنے کے پیداواری عمل کو متاثر کرتی ہیں۔ خالق کائنات نے دن کو کام کاج اور رات کو آرام کے لیے تخلیق کیا ہے جس کا ثبوت یہ جدید طبی تحقیق ہے کہ رات کے پہلے پہر ایک گھنٹے کی نیند پچھلے پہر کی دو گھنٹے کی نیند کے برابر ہے جبکہ دن میں چار گھنٹے کی نیند کمتر نتائج کی حامل ہے۔ صبح جلدی اٹھنا اور رات کو جلد سو جانا کامیابی کا زینہ ہے اور ترقی یافتہ اقوام نے اس راز کو پا لیا ہے اس لیے ان کے افراد صبح پانچ چھ بجے اُٹھ کر آٹھ بجے اپنے دفاتر‘ کاروباری اداروں اور تجارتی مراکز کا رخ کرتے ہیں۔ چار پانچ بجے تک مستعدی اور یکسوئی سے فرائض ادا کرنے کے بعد گھروں کو لوٹتے اور سوشل لائف شروع کردیتے ہیں۔
امریکی میگزین نیوز ویک نے چند سال قبل بل گیٹس‘ سٹیو جابز ‘ وارن بفٹ‘ لکشمی میتل اور دیگر تیس دولت مند ترین افراد کی مشترکہ عادات پر ایک فیچر شائع کیا تھا ان سب میں زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات اور سحر خیزی کی عادت مشترکہ تھی۔ لاہور میں چند سال پہلے تک لبرٹی اور انارکلی کی مارکیٹیں اذان مغرب کے ساتھ ہی بند ہو جایا کرتی تھیں اور بعد میں نوجوان یہاںچوکڑی جما کر لوڈو‘ شطرنچ اور تاش کھیلتے یا لٹو گھماتے پھرتے۔ شادی بیاہ کی تقریبات بھی دن کو ہوتیں صرف ایک مخصوص برادری مستثنیٰ تھی جو اپنے روز مرہ کام دن کو نمٹایا کرتی۔ اندرون شہر کے تھڑے آباد تھے اور لوگ گھر میں بیوی بچوں کے ساتھ مل بیٹھ کر گپیں ہانکتے‘ گھریلو معاملات پر تبادلہ خیال کرتے۔ بچوں کی شکایات سنتے اور ایک ہی دسترخوان پر اکٹھے کھانا کھاتے۔ نماز مغرب کے بعد انارکلی بازار میں نوجوانوں کو کرکٹ کھیلتے ان گناہ گار آنکھوں نے دیکھا۔ صرف چائے خانے اور کھانے پینے کے اڈے آباد ہوا کرتے۔ ان دنوں کسی تاجر کے منہ سے نہیں سنا کہ دکان جلد بند کرنے سے ان کی فروخت یا منافع پر زد پڑی اور وہ کنگال ہو گیا۔
اب کیا ہے؟ جب کولہو کا بیل رات گئے گھر پہنچتا ہے تو بچے سو چکے ہوتے ہیں اور سارے دن کی تھکی ہاری بیوی بیچاری نیم خوابیدہ حالت میں اس کاروبار کو بددعائیں دے رہی ہوتی ہے جس نے اس کا چین اور سرتاج سے میل ملاپ‘ دکھ سکھ بانٹنے اور اس کی سننے‘ اپنی سنانے کا وقت ہی چھین لیا ہے۔ صبح بچے سکول‘ کالج کا رخ کرتے ہیں تو باپ خراٹے لے رہا ہوتا ہے۔ ہفتہ ہفتہ بھر ملاقات ہی نہیں ہو پاتی‘ باپ کی شفقت ‘ لاڈ پیار اور توجہ سے محروم اکثر بچے ناخواندہ رہ جاتے ہیں‘ پڑھ جائیں تو ان احساسات سے محروم جو ماں باپ کی توجہ سے بچے کے مزاج کا حصہ بنتے ہیں۔ ہفتے کے چھ دن اور صبح سے رات گئے تک محنت‘ مشقت‘ دانتا کِلکِل کی وجہ سے کاروباری لوگ اور ان کے کارکن ذہنی و جسمانی تھکاوٹ‘ بوریت‘ بددلی ‘ جھنجھلاہٹ اور غصے کا شکار ہوتے ہیں اور یہ کیفیت ہماری پیداواری صلاحیت اور تخلیقی انداز کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ بیوی بچوں کے لیے وقت نہ سیرو تفریح کی فرصت اور نہ وقت پہ سونے‘ کھانے کی عادت‘ جو ایک صحت مند اور کامیاب انسان کے لیے ازبس ضروری ہے۔ رات گئے کاروبار اور تقریبات کی وجہ سے چوروں‘ ڈاکوئوں اور راہزنوں کے مزے ہیں اور ایک بار کسی واردات کا شکار ہونے والے بچے اور خواتین زندگی بھر نفسیاتی صدمے اور دبائو کا شکار رہتے ہیں۔
بدعادتی کے باعث پارک اجڑ گئے ہیں اور ہسپتالوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں‘ معدے کے السر‘ تیزابیت‘ ذہنی دبائو‘ بے خوابی ‘ شوگر اور بلڈ پریشر کے امراض بڑھ گئے ہیں مگر کسی کو ان کے اسباب پر غور کرنے کی فرصت نہیں۔ رات گیارہ بارہ بجے تک جاگنے‘ صبح دس گیارہ بجے تک سونے اور ہر کام بھاگ دوڑ میں کرنے کی وجہ سے سوچنے کی فرصت کہاں؟ نیند پوری نہیں ہوتی‘ نجی و سرکاری ملازمین دفتروں اور کاروباری مراکز میں نیند پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ذہنی و جسمانی تھکن کام کے معیار پر اثر انداز ہوتی ہے۔ سستی ‘ کاہلی اور کام چوری قومی شیوہ بن گیا ہے مگر کسی کو احساس تک نہیں۔
رٹ آف گورنمنٹ کا یہ عالم ہے کہ حکمران اپنے ہم پیشہ اور ووٹر تاجروں کو کوئی بات سمجھانے پر قادر ہیں نہ قانون پر سختی سے عملدرآمد کے روادار۔وزیر اعظم نے اسلام آباد میں دکانیں اور کاروباری مراکز آٹھ بجے بند کرنے کا حکم دیا آج تک عملدرآمد نہیں ہو پایا۔ انہوں نے صوبوں سے اپیل کی پنجاب سمیت کسی نے کان نہیں دھرا حالانکہ میاں شہباز شریف اس معاملے میں برادر بزرگ کے ہم خیال و ہمنوا ہیں۔ کاروبار آٹھ بجے بند کرنے سے نقصان کسی کو نہیں‘ فائدہ سب کا ہے۔ خریداروں کو جب علم ہو گا کہ انہیں شاپنگ بہرحال رات آٹھ بجے سے پہلے کرنی ہے تو وہ اہتمام کریں گے۔ خریداری‘ دکانداروں سے زیادہ شہریوں کی مجبوری ہے۔ لیکن ہوس زر‘ نامعقولیت اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں اور فیملی لائف کسی کو عزیز ہی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں