کراچی میں نہتے اور بے قصور مردوزن کا قتل آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد حالیہ قومی تاریخ کا سنگین سانحہ ہے۔ عورت اور بچے ہر مذہب اور معاشرے میں نرمی‘ شفقت اور احترام کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے پیارے رسول ﷺنے خواتین اور بچوں کے ساتھ اُنس و محبت‘ حسن سلوک کی خصوصی ہدایت فرمائی ہے۔ مگر کراچی میں وحشی درندوں نے امن پسند مردوں کے ساتھ معصوم بچوں اور بے گناہ عورتوں کو بھی گولیوں سے بھون ڈالا اور وہ بے چاری اب روز قیامت ہی پوچھ پائیں گی کہ بایِّ ذنبٍ قُتلت (ہمیں کس جرم کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتارا گیا)
بے رحمی اور سنگدلی اس معاشرے میں فروغ پذیر ہے‘ گو ر حمدل ‘ شفیق‘ ہمدرد اور خدا ترس افراد کی تعداد کم نہیں۔ سو ارب روپے سے زائد سالانہ صدقہ و خیرات کرنے والے انسان دوست بھی اسی سماج کا حصہ ہیں اور جگہ جگہ غریب و مفلس افراد کو دو وقت کا کھانا کھلا کر ضرورت مند کا شکریہ اور خدا کا شکر ادا کرنے والے بھی پاکستانی ہیں۔ خدا کے انہی پسندیدہ بندوں کی وجہ سے مفلسوں‘ ناداروں اور بے روزگاروں نے ابھی تک جرائم کی راہ اختیار نہیں کی اور انارکی نے زور نہیں پکڑا۔ مگر بے حس اور شقی القلب افراد بھی یہاں بہت ہیں اور ریاست ان کا قلع قمع کرنے میں ابھی تک ناکام نظر آتی ہے ۔
سانحہ رونما ہونے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دورہ سری لنکا ملتوی کیا اور شتابی سے کراچی چلے گئے۔ پہلے بھی ایسے مواقع پر وہ سرعت سے بروئے کار آتے اورمتاثرین کی دلجوئی کرتے ہیں؛ نہ صرف متاثرین کی دلجوئی بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حوصلہ افزائی بھی۔ پرنس کریم آغا خان سے فون پر رابطہ بھی آرمی چیف نے کیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف پچھلے ادوار حکومت میں اس طرح کے واقعات پر فوری ردعمل ظاہر کیا کرتے تھے مگر اس بار ان کے مداح حیران ہیں‘ عموماً سست روی کا شکار رہتے ہیں۔ بجا کہ آل پارٹیز کانفرنس انہوں نے پہلے سے طلب کر رکھی تھی‘ اس کا التوا مناسب نہ تھا مگر دوران بریفنگ لذت کام و دہن کا اہتمام؟کانفرنس نہیں تو کھانا منسوخ کیا جا سکتاتھا؟ کیا ہمارے لیڈران کرام اس قدر دردناک اورروح فرسا واقعات سے بھی متاثر نہیں ہوتے؟ اپنی بھوک پر قابو نہیں پا سکتے؟
بے نظیر بھٹو قتل ہوئیں تو ان کے بہت سے مخالفین کے گھروں میں چولہا نہیں جلا‘ آرمی پبلک سکول پر حملے کی دوپہر بڑی تعداد میں لوگو ںکے حلق سے لقمہ نہ اترا۔ سانحہ صفورا گوٹھ پر بھی عام آدمی کا ردعمل کم و بیش یہی تھا۔سانحہ کی تفصیلات سن کر آدمی کا کلیجہ منہ کو آتا اور سینہ غم سے پھٹنے لگتا ہے؛ تاہم لیڈران کرام کا معاملہ مختلف رہا ع
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ
سامنے مرغن غذائیں دیکھ کر پیٹ کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ احسن اقبال کی بریفنگ Appetizer ثابت ہوئی اور وہ سانحہ کراچی کا غم مرغ و ماہی سے غلط کرنے میں مشغول ہو گئے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا جو قدرے طویل ہو گیا؎
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت
درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
لیکن کیا کراچی میں قیام امن کے لیے ہماری سیاسی قیادت یکسو ہے اور اس ناسور کے خاتمے کے لیے پرعزم؟ میاں نواز شریف اور نثار علی خان کے باب میں کوئی بدگماں نہیں مگر سندھ کے حکمران اور ان کے سیاسی سرپرست ؟ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اس آپریشن کے حوالے سے مخلصانہ طور پر سرگرم عمل پولیس افسر شاہد حیات کو بلاوجہ ہٹا دیا گیا۔ آئی جی پولیس کے بارے میں ذوالفقار مرزا کے الزامات محض افسانہ طرازی سہی‘ مگر کیا انہوں نے حرماں نصیب شہر اور بدقسمت صوبے کو دیانتدار‘ فعال اور پرعزم افسر و اہلکار فراہم کیے؟کراچی کے ماحول‘ گلی محلوں اور زبان سے ناآشنا سندھی پولیس اہلکار اس عفریت کا مقابلہ کر سکتے ہیں جس نے مذہب و مسلک ‘ زبان و نسل کی بنیاد پر جرم و لاقانونیت اور تخریب کاری و دہشت گردی کا بازار گرم کررکھا ہے؟
کراچی میں دہشت گردو ںکا تعلق کسی ایک گروہ‘ قبیلے ‘ مافیا اور تنظیم سے نہیں طالبان‘ داعش‘ جنداللہ‘ را‘ موساد اور لسانی گروپ۔ پراکسی وار چل رہی ہے اور بھارت نے بھی کشمیر کا بدلہ کراچی میں چکانے کے لیے اربوں کے وسائل‘ اسلحہ اور کارندے جھونک رکھے ہیں۔فوج ''را‘‘ کی مداخلت کے حوالے سے شور مچا رہی ہے مگر سنجیدگی سے آج تک کسی نے نوٹس نہیں لیا‘ آپریشن ضرب عضب نے ہر نوع اور نسل کے دہشت گردوں کا گھیرا تنگ کیا تو دشمنوں نے بھی اپنے ایجنٹوں کو سردھڑ کی بازی لگانے کا سگنل دے دیا۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے چند روز قبل کراچی میں کھل کر یہ بات کہی کہ چند ہفتوں کے وقفے کے بعد ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ آپریشن کی ناکامی کے خواہاں عناصر کی تازہ ترین مگر تبدیل شدہ حکمت عملی ہے۔ ان عناصر کو ناکام بنانے کے لیے ہماری حکمت عملی کیا ہے؟
نیشنل ایکشن پلان میں کچھ بنیادی باتیں طے ہوئی تھیں۔ میکنزم بنا تھا۔ صوبائی حکومتیں‘ پولیس اور انتظامیہ ردعمل کو روکنے کے لیے غیر معمولی مستعدی اور چوکسی کا اہتمام کریں گی۔ ساری ذمہ داری رینجرز کی نہیں اور پولیس و دیگر ادارے صرف تنخواہیں بٹورنے کے لیے نہیں مگر ہوا کیا؟تازہ ترین واقعہ سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کا تاثر ملتا ہے؟ مختلف سرچ آپریشنز اور گرفتاریوں میں شریک پولیس اہلکار مسلسل ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کیا ان واقعات کی روک تھام بھی رینجرز کی ذمہ داری ہے یا اپنے بھائی بندوں کا تحفظ پولیس کا فرض ہے؟سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا اعتراف کر چکے ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کو اسلحہ لائسنس دیے جاتے ہیں۔ لیاری گینگ کی آبیاری انہوں نے بہ نفس نفیس کی اور پولیس مجرموں سے بھری پڑی ہے مگر کسی نے ان الزامات کو اتنی اہمیت بھی دی جتنی صولت مرزا کے بیان کو دی گئی؟
کرپشن‘ غربت اور دہشت گردی کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ اگر کرپشن ختم نہیں ہوتی جو غربت و افلاس ‘بے روزگاری اور مایوسی کو جنم دیتی ہے تو دہشت گردوں کی ایک فصل کٹنے کے بعد دوسری تیار ہو گی ۔ پولیس میں مجرم دہشت گردوں نے بھرتی نہیں کرائے ‘کرپٹ حکمرانوں اور افسروں کا عطیہ ہیںاور یہ صولت مرزا جیسوں کو پروان چڑھاتے ہیں‘ پولیس کے لیے مختص زیادہ تر وسائل کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں اور سفارشی کرپٹ‘ سیاست زدہ پولیس شہریو ں کا تحفظ نہیں کر پاتی۔
دہشت گردوں کے خلاف گھیرا تنگ ہونے کی وجہ سے یہ کارروائی متوقع تھی۔ وزیر داخلہ نثار علی خان کی برطانوی حکام سے ملاقاتیں چینی سرمایہ کاری ‘اکنامک کاریڈور‘ افغانستان سے بہتر تعلقات اور پاکستان میں زمبابوے کرکٹ ٹیم کی آمد کا غلغلہ بھی ہمارے دشمنوں کے لیے سوہان روح ہے۔ آغا خانی برادری پرامن ہے اور سیاست سے دور‘ سب کی دوست مگر کسی کی مخالف نہیں۔ کاروباری برادری میں البتہ اس کا اثرورسوخ کسی سے مخفی نہیں۔ اس کارروائی سے اندرون و بیرون ملک پاکستان میں بدامنی کا تاثر گہرا ہو گا اور اب تک کئے کرائے پر پانی پھیرنے کے مترادف ۔ چنانچہ اب کسی مزید تاخیر اور نرمی کے بغیر موثر اقدامات کی ضرورت ہے جن میں سر فہرست اس آپریشن کے ضعیف العمر کپتان کی تبدیلی اور وفاقی و صوبائی حکومت کا ہر طرح کی سیاسی مصلحتو ں سے بالاتر ہو کر آپریشن کو جلداز جلد منطقی انجام تک پہنچانا ہے۔
کسی عسکریت پسند گروہ سے محض اس بنا پر درگزر مناسب نہیں کہ اس نے سیاست کا نقاب اوڑھ رکھا ہے اور ان سے مفاہمت بہترین پالیسی ہے ۔ سیاست کے ڈانڈے جہاں جہاں جرم سے ملتے ہیں اور جو بھی مجرم سیاست کی آڑ میں گھنائونا کھیل رہا ہے اس کی گرفت ضروری ہے‘ خواہ اس کا تعلق کسی مذہبی و سیاسی گروہ سے ہے یا نسلی و لسانی طبقے سے۔سیاسی مصلحتوں نے ماضی میں بھی ہر آپریشن کو ناکامی سے دوچار کیا‘ اب بھی اس کا خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔
گندے انڈ ے سیاست و حکومت کے ایوانوں میں ہیں۔ پولیس و انتظامیہ یا کسی دوسرے شعبے میں انہیں اٹھا کر باہر گلی میں پھینکنے کا وقت اب ہے ورنہ پھر کبھی نہیں۔ جن لیڈران کرام کو محض اس بنا پر رینجرز آپریشن پر تحفظات ہیں کہ کل کو ان کی باری بھی آ سکتی ہے‘ وہ کامیابی میں مددگار کبھی نہیں ہو سکتے ‘روڑے البتہ ضرور اٹکائیں گے اور مہارت سے اٹکا رہے ہیں۔
تو پھر کیوں نہ آغاز انہی سے کیا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو اور وہ ڈٹے رہنے کے بجائے راہ فرار اختیار کریں۔دہشت گردوں نے آپریشن کی ساکھ مجروح کرنے کے لئے کاری وار کیا ہے‘ جوابی وار منہ توڑ‘ موثر اور فیصلہ کن ہونا چاہیے۔ مگر یہ حکومت سندھ کے بس کی بات تو نہیں جس کا ع نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں۔ میاں نواز شریف‘ جنرل راحیل شریف اور جنرل رضوان اختر کر پائیں تو ہم خوش‘ ہمارا خدا خوش۔