تری آواز مکّے اور مدینے

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں مسئلہ کشمیر پروہ بات کہی‘ جو اس ملک کے کروڑوں محب وطن باشندے عرصہ دراز سے سننے کے خواہشمند تھے ع
تیری آواز مکّے اور مدینے
سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور ناہنجار سے قبل پاکستان کا قومی موقف یہی رہا‘ جو سپہ سالار نے دہرایا ''کشمیر تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے‘ کشمیر اور پاکستان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا‘ ہم اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں کشمیر کا حل چاہتے ہیں تاکہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو سکے‘‘ مختلف سول اور فوجی حکومتوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس موقف کو اجاگر کیا مگر کرگل کے ہیرو پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کو آئوٹ آف بکس حل کرنے کے شوق میں کبھی تھرڈ آپشن پر زور دیا اور کبھی پانچ ‘ سات اور گیارہ نکات پیش کئے مگر بھارت نے کبھی انہیں گھاس نہ ڈالی۔
ممبئی دھماکوں کے بعد‘ بھارت کا نہ صرف متکبرانہ لب و لہجہ پاکستانی عوام کے لیے ناقابل برداشت رہا بلکہ قبائلی علاقوں‘ بلوچستان اور کراچی میں اس کی ریشہ دوانیاں روز بروز بڑھنے لگیں۔ منتخب پاکستانی حکمرانوں نے اپنے پیشرو فوجی آمر پرویز مشرف کی طرح معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا سابق صدر آصف علی زرداری تو ممبئی دھماکوں کے بعد آئی ایس آئی چیف کو معافی تلافی کے لیے نئی دہلی بھیجنے پر تیار تھے اور انہوں نے یہ تک کہہ ڈالا ''ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارتی اور ہر بھارتی کے دل میں ایک پاکستانی بستا ہے‘‘ البتہ جب بھارت مذاکرات کی راہ پر نہ آیا تو شرم الشیخ میں سابق وزیر اعظم مخدوم یوسف رضا گیلانی نے اپنے بھارتی ہم منصب ڈاکٹر من موہن سنگھ کو بلوچستان میں ''را‘‘ کی مداخلت کے ثبوت پیش کئے۔
مسلم لیگی اور کشمیری پس منظر اور پنجاب سے تعلق کی بنا پر میاں نواز شریف کے متوالے بجا طور پر یہ توقع کرتے تھے کہ وہ تیسری باروزیر اعظم بن کر اپنی توجہ کا مرکز مسئلہ کشمیر کو بنائیں گے ۔ کشمیری عوام پر بھارتی مظالم اور پاکستان میں ''را‘‘ کی سازشوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیں گے اور کشمیری قیادت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے مگر انہوں نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی وزیر اعظم کی شرکت کا عندیہ ظاہر کر کے عوام کو مایوس کیا۔ لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے نظر آئے کہ ایسی خوشی کی تقاریب میں لوگ اپنے قریبی دوستوں اور بہی خواہوں کو بلاتے ہیں بھارت اور ڈاکٹر من موہن سنگھ پاکستان کے دوست اور بہی خواہ کب سے ہو گئے؟
بھارتیہ جنتا پارٹی نے عام انتخابات جیتے تو نریندر مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں سارک ممالک کے سربراہان کو مدعو کیا یہ ایک رسمی اور نمائشی اقدام تھا مگر میاں صاحب نے طاقت کے دیگر مراکز حتیٰ کہ دفتر خارجہ سے مشورہ کئے بغیر اس تقریب میں شرکت کا اعلان کر دیا اور بھارت جا کر حریت کانفرنس کو بھول گئے جو پاکستان کے کشمیری نژاد وزیر اعظم سے ملنے اور تسلی کے دو حرف سننے کے لیے بے تاب تھی البتہ بھارت میں انہوں نے بعض صنعتکاروں اور تاجروں سے ملاقات کی جس کی وجہ سے میاں صاحب کے ناقدین کو طرح طرح کی باتیں بنانے کا موقع ملا۔
پاکستان نے جب بھی امن کی خواہش سے مغلوب ہو کر خیر سگالی اور نرمی کا مظاہرہ کیا بھارت نے جوابی خیر سگالی کے بجائے ہمیشہ رعونت‘ ہٹ دھرمی اور ریشہ دوانیوں سے جواب دیا۔ جب پاکستان سفارتی سطح پر موثر اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط تھا تو جوہر لال نہرو اور سردار سورن سنگھ مذاکرات کے کئی دور کیا کرتے تھے اور موضوع بحث ہمیشہ مسئلہ کشمیر ہوتا مگر جب سے پاکستان کے سول و فوجی حکمرانوں نے اقتصادی و معاشی ترقی سے مرعوب ہو کر‘ بھارت کو بڑا بھائی سمجھ کر‘ اقوام متحدہ کی قرار دادیں بھلا کر کبھی مسئلہ کشمیر کو سرد خانے میں ڈالنے‘ کبھی آئوٹ آف بکس طے کرنے اور کبھی تجارت کو اہمیت دینے کا سلسلہ شروع کیا تو برہمن سامراج کا دماغ خراب ہو گیا اور اس نے 9/11کے بعد دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کی آڑ میں شمالی و جنوبی وزیرستان‘ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی‘ تخریب کاری اور ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم کر دیا۔ ہمارے حکمران اور طاقتور ادارے مسئلہ کشمیر بھول کر اپنے دفاع اور سلامتی کے چکر میں پڑ گئے۔
جنرل راحیل شریف کا اللہ بھلا کرے‘ انہوں نے پہلی بار پاکستان میں جاری دہشت گردی کاٹھنڈے دل و دماغ سے تجزیہ کیا‘ بھارت کی مداخلت کو سنجیدگی سے لیا''را‘‘ کے پاکستانی رابطوںکا سراغ لگایا اور پھر پورے قد سے کھڑے ہو کر نہ صرف للکارا بلکہ کشمیر کے معاملے میں بھی پاکستان کے روایتی اور تاریخی موقف کا اعادہ کیا جو ہر پاکستانی کے دل کی آوازاور پاکستان و کشمیر پر اپنی جانیں قربان کرنے والے شہدا سے وفاداری کا تقاضا ہے۔ پاکستان اورکشمیر کو جدا کرنا دو قومی نظریے سے انحراف اور قیام پاکستان کے مقاصد سے بے وفائی ہے جس کا احساس ہمارے منتخب حکمرانوں کو ہونا چاہیے مگر بدقسمتی سے شوق تجارت میں وہ بھول گئے۔
پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس کی کامیابی‘ عالمی و علاقائی امن کی ضمانت ہے اور (خدانخواستہ) ناکامی پورے خطے کے لیے تباہ کن‘ مگر بھارت اس جنگ میں کامیابی کے لیے پاکستانی کوششوں میں مدد گار تو خیر کیا ثابت ہو تا الٹا وہ اس پر مٹی کا تیل چھڑک رہا ہے' بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کوئی بات چھپی نہیں رہنے دی اور کھل کر کہہ دیا ہے کہ دہشت گردی کو پراکسی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔مگر ہمارے ہاں صورتحال یہ ہے کہ ابھی تک کراچی‘ بلوچستان اور شمالی وزیر ستان میں ''را‘‘کی مداخلت کا معاملہ زور دار اندازمیں سفارتی سطح پر اٹھانے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے نہ وزیر اعظم نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے احتجاج کیا ہے اور نہ پاکستان کے دوست ممالک کو ٹھوس ثبوتوں کی روشنی میں بھارت پر دبائو ڈالنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔
اور تو اور جس موثر اور دو ٹوک انداز میں آرمی چیف نے تنازعۂ کشمیر کو برصغیر کا Unfinished Agendaقرار دے کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیا ہے اس کا عشر عشیر بھی ہمارے سول حکمرانوں کے بیانات اور تقریروں میں کبھی زیر بحث نہیں آیا۔ یہ نہیں کہ وزیر اعظم ‘ وزیر دفاع یا مشیر خارجہ اور دفتر خارجہ چپ رہے بیانات تو جاری ہوئے مگر یوں کہ لوگوں نے اسے مقتدر قوتوں کے دبائو اور حالات کی ستم ظریفی سے تعبیر کیا ۔ دل و دماغ میں یکسانیت مفقود۔
سوال یہ ہے کہ اپنے دیرینہ دشمن اور ملک کے طول و عرض میں سازشوں اور دہشت گردی میں مصروف ہمسائے سے کھل کر بات کیے بغیر نیشنل ایکشن پلان کو کامیابی سے ہمکنار کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ضرب عضب آپریشن میں سر دھڑ کی بازی لگانے والی فوج اور خفیہ ایجنسیاں کامران کیونکر ہو سکتی ہیں؟ اور عالمی برادری کی تائید و حمایت کے بغیر یہ جنگ جیتنا کیسے ممکن ہے؟ ظاہر ہے یہ فوج کا کام نہیں سول حکومت ہی یہ معرکہ سر کر سکتی ہے مگر اس کی ترجیحات میں اب بھی سابق صدر آصف علی زرداری کی مفاہمتی پالیسی کو کامیابی سے ہمکنار کرنا سرفہرست ہے اور عمران خان کی سیاسی سرکوبی زندگی‘ موت کا مسئلہ۔ اکنامک کاریڈور کو ترقی و خوشحالی اور معاشی استحکام کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے مگر اسے ناکام بنانے والی قوتوں اور ان کے بیرونی سرپرستوں کا ہاتھ روکنے کے لیے جس عزم و ارادے اور استقامت کی ضرورت ہے اس کا عشر عشیر کہیں نظر نہیں آتا۔
عمران خان کا سیاسی قلعہ ڈھانے کے لیے ان دنوں تمام سیاسی قوتوں نے جس اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا‘ کاش! اس کا نصف بھارت کے مقابلے میں بھی دیکھنے کو ملے۔ رہا عمران خان تو وہ میاں افتخار حسین کی گرفتاری ہو یا اپنی صوبائی حکومت کے ایک وزیر کی قانون شکنی یا انتخابی دھاندلی کے معاملے میں عام توقعات کے برعکس کسی کی بے جا حمایت یا مخالفت‘ ہر معاملے میں مخالفین کو صاف جُل دے گیا اور فوج کی نگرانی میں دوبارہ انتخابات کا پتہ پھینک کر اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ انتخابات سے ڈرتا ہے نہ الزامات سے۔ لیکن پاکستان کا مسئلہ نمبرون تو اس وقت خیبر پختونخواکے انتخابات ہیں نہ عمران خان اور میاں نواز شریف کی لڑائی اورنہ مفاہمت کے نام پر سیاستدانوں کو لوٹ مار کے وسیع مواقع فراہم کرنے کی حکمت عملی۔ مقبوضہ کشمیر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے گونج رہے ہیں مگر ہم کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے بھی کتراتے ہیں۔ پاکستان سے الحاق‘ کشمیری عوام کا عشق ہے‘ پاکستان کے یہ عاشق صادق جس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ہم چوری کھانے والے مجنوں اور عاشقی کے دعویدار مگر بھارت سے ڈرتے ہیں اور تجارت پہ مرتے ہیں کہ نریندر کا مزاج برہم نہ ہو اور بڑا بھائی بگڑ نہ جائے۔ بقول سعد اللہ شاہ ؎
مجھ سا جہاں میں کوئی ناداں بھی نہ ہو
کر کے جو عشق کہتا ہے نقصاں بھی نہ ہو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں